ڈاکٹر شوکت علی مرزا ایسا خطیب جس پہ خطابت ہو خود نثار

تقی عسکری ولا

ڈاکٹر شوکت علی مرزا صاحب قبلہ عصر حاضر میں اپنے علم دین سے ناقابل فراموش خطابت کے وسیلہ سے نوع انسانی کو فیضیاب کررہے ہیں اور ملت جعفریہ کو درکار تعلیمی اور معاشی مسائل کو شخصی طور پر بھرپور انہماک کے ساتھ حل کرتے ہوئے بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ جس کے سبب سارے لوگ ان کی مدح سرائی کررہے ہیں ۔ انھوں نے نثری ذکرِ حسین مظلوم کو اپنا نصب العین بنایا ہے ۔ کربلا ان کی دھڑکنوں میں موجزن ہے ۔ وہ غمِ حسین کو غم کائنات کا محور تسلیم کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا کے نظریہ میں آج کی دنیا میں دہشت پھیلانے والوں کے لئے اور مسلک کے نام پر ظلم ڈھانے والوں کے لئے صرف کربلائی استعارے ہی موثر ہتھیار ہیں ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا بے پناہ ہمہ جہت صلاحیتوں سے آراستہ ہیں ۔
بلاخوف تردید روایت شکن ، ذاکر اہلبیت ، ڈاکٹر شوکت علی مرزا قبلہ ایک معجز بیان واعظ ، سحر طراز خطیب ، مستعد مبلغ ، شعلہ نوا مقرر ، نبض آشنا ذاکر حسین اور جان تکلم ہیں جنھوں نے اپنی متعدد تقاریر سے اپنی منفرد شناخت بنائی ہے ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا ادب ، مذہب ، ثقافت ، منطق ، تاریخ ، کمپیوٹر ٹکنالوجی اور سائنسی موضوعات کے علاوہ اپنے تبحر علمی سے سلگتے مسائل کو سرنامۂ خطابت قرار دیتے ہیں جس کی بدولت وہ ایک ریسرچ اسکالر اور مفسر قرآن کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں ۔
ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے اپنے پورے وجود کو حضرت علی اور حسین مظلوم کے مکمل سپرد کرکے علائق دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھا جو ایک مومن پاک طینت کی علامت ہے ۔ ایسی ہستیوں کی یہی عظمت ہے کہ وہ سگان دنیا سے حجاب میں رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے حیدرآباد کو اپنی خطابت کی خوشبو سے معطر کیا ہے  ۔ اس کے بعد برملا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر شوکت علی مرزا قبلہ کی ہمہ گیر شخصیت درحقیقت خطابت کے ایک منفرد مکتب کی نشاندہی کرتی ہے ۔ ان کے کربلائی ذہن و فکر کی وسعتوں نے جلال و جمال کو اس طرح کمال عطا کیا ہے کہ خطابت کی ایک نئی دنیا آباد ہو کر اتنی سحر آفریں ہوگئی کہ سماعتوں کو اظہار و ابلاغ کی منزلوں سے گذر کر ذہنوں کو پرسش کی بجائے پرستش کی طرف مائل کردیا ۔ یہ ہزار شیوگی اس لئے بھی ہے کہ ڈاکٹر شوکت علی مرزا ایک عمر کوہ کنی کے بعد پوری دیانت کے ساتھ اپنا خون جگر ہدیہ سماعت کرتے ہیں ۔ ان سے پہلے جراحت جاں کی ایسی گلکاریاں ایوان خطابت کی دیواروں پر ناپید تھیں ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا کی تقریر گویا افکار عالیہ کی تقدیر ہے ۔ تاریخ میں ان کا حکیمانہ ادراک ارباب عزا کے ذہنوں میں اسرار و معانی کے دریچے کھولتا جاتا ہے اور ن دریچوں سے چھن کر آنے والی روشنی دلوں کو منور کرتی چلی جاتی ہے ۔
امریکی یونیورسٹی راس الخیمہ کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر شوکت علی مرزا صاحب قبلہ ہر دلعزیز اور مستند دانشور کے علاوہ حیدرآباد کی رئیس تہذیب اور شائستہ تمدن کے علمبردار بھی ہیں ۔ ان کے دل میں ملت کا درد سمایا ہوا ہے ۔ وہ ملت کے سوز دروں کو سینے سے لگائے ملت کی جواں سال نسل میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کے درپے ہیں ۔ یہ ملت کے خدمت گاروں کا ثمر آور تزکیہ ہے ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا خانوادہ عترت اطہار کے عرفان کے لئے اپنی بصیرت افروز ، معرفت بیز اور ولولہ انگیز تقاریر کے خزانہ سے اقلیم شیعیت کو مالامال کررہے ہیں ۔ لیکن ان کی قوم کو سماجی استحکام عطا کرنے والی صفات و خصوصیات پردۂ خفا میں ہیں ۔ انھوں نے انسانیت کی شاہراہ پر گامزن ہو کر نام و نمود سے بے نیاز درپردہ اپنی شریک حیات پروفیسر سمین فاطمہ (ڈین شعبہ کمپیوٹر سائنس : عثمانیہ یونیورسٹی) اپنی دخترسارہ فاطمہ اور فرزند صفدر علی مرزا کو اپنے جذبۂ خیر میں شامل کرتے ہوئے ارباب ملت کے دلوں کو مسخر کرلیا ہے ۔ انجینئرس واتھاٹ بارڈرس انڈیا کے روح رواں ڈاکٹر شوکت علی مرزا فلاحی تنظیم ہیلپنگ ہینڈس اور امام زمانہ مشن کے حوالے سے شیعہ قوم کے تعلیمی اور معاشی فروغ کے لئے جو خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ لائق صد تحسین و آفرین ہے ۔ شیعہ قوم میں وہ اپنی نوعیت کی منفرد شخصیت ہیں اور پھر چراغ لے کر تلاش کرنے سے بھی ایسے خطیب ، ایسے مومن ، ایسے عالم ، ایسے ہمدرد انسان اور ایسی مخیّر شخصیت نہیں مل سکتی ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا کی شخصیت اور ان کی خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے ایک مقالہ درکار ہے  ۔