ڈاکٹر سید عبدالمنان

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلے ہفتہ طبیبِ حاذق ، طبیب الاطباء حکیم الحکماء ڈاکٹر سید عبدالمنان اپنے ہزاروں ہی نہیں بلکہ لاکھوں مریضوں اور پرستاروں کو روتا دھوتا چھوڑکر اگرچہ گئے تو خدا کی مرضی کے مطابق ہی لیکن مشیت ایزدی کے آگے انہوں نے جس حوصلہ مندی ، منصوبہ بندی اور فراخ دلی کے ساتھ ایک فرمانبردار بندے کی حیثیت سے اپنا سر تسلیم خم کیا یہ ادا ان کی طبیبانہ مہارت کا بے مثال نمونہ ہونے کے علاوہ ان کی لاجواب خود تشخیصی کا بھی جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ لگ بھگ پوری ایک صدی کے پل پل میں ان کا وجود خواہشِ زیست (Will to Live) سے لبریزاور سرشار رہا لیکن جب اچانک لمحۂ آخر ان کے سامنے آن کھڑا ہوا تو انہوں نے یکلخت بہ رضا و رغبت اپنی خواہش مرگ (Death wish) کو اپنی خواہشِ زیست پرغالب آجانے کا موقع عطا کردیا ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہر قطرے کو بالآخر سمندر میں مل جانے کی آرزو اور عجلت ہوتی ہے۔
یہ کیفیت ایک انسان کامل پر اسی وقت طاری ہوتی ہے جب خالق حقیقی کی طرف سے اس کا بلاوا آجاتا ہے اور وہ اپنی حیاتِ مستعار کی بھاری بھرکم گٹھری کو اچانک الگ رکھ کر لمحۂ وصال میں ضم ہوجانے کی آرزو میں ڈوب جاتا ہے ۔ علامہ اقبال نے مرد مومن کی اس پہچان کو یوں بیان کیا ہے ۔
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مگر آید تبسم برلبِ اوست
(جب موت آتی ہے تو مرد مومن کے ہونٹوں پر تبسم ہوتا ہے ) اول فنا، آخر فنا بس یہی تو زندگی کی اساس ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل کا ذ کر بعد میں آئے گا۔

ڈاکٹر سید عبدالمنان طبیب حاذق تھے مگر ان سے میرا رشتہ طبیب اور مریض کا کبھی نہیں رہا ۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ پچاس برس پہلے جب میں حیدرآباد میں رہا کرتا تھا تو اس وقت ڈاکٹر سید عبدالمنان ایک مثالی ڈاکٹر کی حیثیت سے جہاں بڑی شہرت رکھتے تھے وہیں میں اپنی مثالی صحت کیلئے دوستوں میں بہت بدنام تھا ۔ کبھی غلطی سے نزلہ زکام کا عارضہ لاحق بھی ہوجاتا تھا تو مجھے ان دنوں ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی جیسے سخت گیر ڈاکٹر کے ہاں بے تکلفانہ چلے جانے کی سہولت حاصل تھی ۔ بیشتر مریض تو ڈاکٹر ابوالحسن کے ہاں جانے کے خیال سے ہی گھبرا کر خود بخود صحت یاب ہوجاتے تھے ۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ میری مزاح نگاری کے آغاز پر مجھے اپنے پانچ بزرگوں محبوب حسین جگر ، عابد علی خاں ، نواب شاہ عالم خاں ، ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی اور ڈاکٹر سید عبدالمنان کی سرپرستی حاصل رہی ۔
(افسوس کہ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی بھی اس دوران اللہ کو پیارے ہوگئے۔ چار بزرگوں نے رفتہ رفتہ میرے سر سے اپنا سایہ اٹھالیا ۔ اب صرف نواب شاہ عالم خان کا سایہ میرے سر پرقائم و دائم ہے۔ خدا انہیں تادیر سلامت رکھے) ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی بھی ہز اروں میل دور بیٹھ کر ہمیشہ اپنی سرپرستی سے مجھے نوازتے اور نئے نئے موضوعات سے آگاہ کرتے رہے۔ لگ بھگ نصف صدی پہلے جب میں نے فرضی نام سے مزاح نگاری شروع کی اور لوگ مجھے جانتے بھی نہیں تھے تو نواب شاہ عالم خاں نے بہ اصرار میرے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’تکلف برطرف‘‘ اپنے صرفہ سے شائع کرایا تھا ۔ اپنے ان بزرگوں کی کن کن عنایات کو یاد کروں۔ ڈاکٹر سید عبدالمنان شعر و ادب کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور خوش دلی اور خوش مذاقی سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا ۔ زندہ دلان حیدرآباد کی تقاریب میں میرے یہ پانچوں بزرگ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ضرور شرکت فرماتے تھے ۔ غالباً 1970 ء کی بات ہے ۔ عزیز قریشی نے جو آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے نہایت فعّال اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے ، ریڈیو پر ’’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک دلچسپ تقریری سلسلہ شروع کیا اور ڈاکٹر منان سے خواہش کی کہ وہ مریضوں کے ناز ا ٹھانے کی روداد اپنے مخصوص انداز میں بیان کریں۔ ڈاکٹر منان جہاں اپنی دلنواز اور شگفتہ گفتگو کے لئے شہرت رکھتے تھے وہیں تحریر میں ان کی شوخ بیانی ان کی بذلہ سنجی کو چار چاند لگادیتی تھی۔ ایسی رواں دواں ،ہنستی کھیلتی کھلکھلاتی پرُلطف زبان لکھتے تھے کہ نہ صرف ان کے دست شفا پر بیعت کرنے کو بلکہ ان کی زبان شفاء پر بھی ایمان لے آنے کو جی مچلتا تھا ۔ میں نے ڈاکٹر منان کی دلچسپ تقریر ریڈیو پر سنی تو دوسرے ہی دن ان کی خدمت میں حا ضر ہوا اور ادباًؤ درخواست کی کہ وہ اپنا یہ مضمون اگلے ہفتہ منعقد ہونے والے زندہ دلان حیدرآباد کے ادبی اجلاس میں سنائیں ۔ وہ آمادہ ہوگئے تو دوچار گھنٹوں کے اندر ہی میں نے اپنا وہ معروف مضمون لکھ لیا جس کا عنوان ہے ’’ناز اٹھانے کوہم رہ گئے ڈاکٹروں کے ‘‘ (یہ مضمون ہندی اور اردو کی کئی نصابی کتابوں میں شامل ہے) چنانچہ ادبی اجلاس میں جب ڈاکٹر منان زوردار تالیوں کی گونج میں بے چارے مریضوں کے ناز اٹھاکر فاتحانہ انداز میں مائیکرو فون سے ہٹے تو خفیہ پروگرام کے مطابق ادبی اجلاس کے ناظم نے مجھے اپنا مضمون سنانے کی دعوت دی ۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کے سوائے کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں کس موضوع پر مضمون سناؤں گا ۔ مائیکرو فون پر آکر جب میں نے حسب معمول مسکین سی صورت بناکر اپنے مضمون کا عنوان ’’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں کے ‘‘ سنایا تو نمائش کلب کے در و دیوار قہقہوں کے طوفان سے لرز اٹھے ۔ اب جو میں نے مضمون شروع کیا تو ا یک ایک جملہ پر یوں داد ملنے لگی (بشمول ڈاکٹر منان کی داد کے) جیسے پنڈت روی شنکر کے ستار اور استاد بسم اللہ خاں کی شہنائی کے درمیان جگل بندی ہورہی ہو ۔ چالیس برس گزر جانے کے بعد آج میں جب اس ادبی اجلاس کو یاد کر رہا ہوں تو آنکھیں اشکبار ہونے لگی ہیں ۔ زندگی بھی عجیب چیز ہے ۔ جس بات پر کبھی ہنساتی ہے اسی بات پر بہت بعد میں رُلا بھی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر منان نہایت شستہ اور دلکش زبان لکھتے تھے ۔ خط بھی بہت اچھا تھا ۔ اردو ادیبوں اور شاعروں سے وہ کبھی فیس نہیں لیتے تھے ۔ سلیمان اریب نے اپنے بے تکلف دوست اور البیلے شاعر ابن احمد تاب کے حوالہ سے ایک دن یہ واقعہ سنایا کہ ابن احمد تاب علیل ہوئے تو حسب معمول ڈاکٹر منان کے پاس گئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیلی معائنہ کے بعد نسخہ لکھ کر انہیں دے دیا اور حسب معمول ان سے فیس نہیں لی ۔ پھر وہ دوسرے مریضوں کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ کچھ دیر بعد جب ان کی نظر ابن احمد تاب پر پڑی تو بولے ’’تاب صاحب ! آپ گئے نہیں۔ نسخہ تو میں نے لکھ کر دے دیا ہے ‘‘۔ ابن احمد تاب نے شرماتے لجاتے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! میں دوا خریدنے کیلئے پیسے کہاں سے لاؤں گا ‘‘ ۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر منان نے مسکراتے ہوئے اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور ابن احمد تاب کو دیدی ۔ اریبؔ نے ابن احمد تاب کی موجودگی میں یہ واقعہ سنا کر ہنستے ہنستے مجھ سے کہا ’’ان حضرت نے ڈاکٹر منان کو اپنی مستقل آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے ‘‘۔ اس پر میں نے اس واقعہ میں سے لطیفہ کی مزید گنجائش نکالنے کی غرض سے کہا ’’اریب بھائی ! جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں بھی اتفاق سے ڈاکٹر منان کے مطب پر موجود تھا ۔ آگے کا حال مجھ سے پوچھئے ۔ تاب صاحب رقم لے کر چلے تو گئے لیکن کچھ دیر بعد پھر ڈاکٹر منان کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ۔ ڈاکٹر منان نے کہا ’’تاب صاحب! نسخہ لکھ دیا ، دوا کے پیسے بھی دیدیئے ۔ اب کیا بات ہو گئی ؟ ‘‘ اس پر ابن ا حمد تاب نے بڑی معصومیت سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! نسخہ لکھتے ہوئے آپ سے ایک غلطی ہوگئی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر منان نے پوچھا ’’کیا دوا نہیں مل رہی ہے ؟ ‘‘ تابؔ صاحب نے کہا ’’ ذرا نسخہ تو ملاحظہ فرمایئے ۔ آپ نے لکھا ہے کہ یہ دوا کھانے کے بعد کھائی جائے ۔ میں اردو کا شاعر ہوں کھانے کے پیسے کہاں سے لاؤں گا ‘‘۔ اصل واقعہ میں لطیفہ کے اس پیوند کو سنتے ہی اریب اور ابن احمد تاب پر ہنسی کا وہ دورہ پڑا کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اریب نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے ہنستے ہنستے کہا ’’مجتبیٰ ! جس معاشرے میں ڈاکٹرمنان جیسے بھولے بھالے طبیب حاذق ہوں وہاں اردو کا کوئی اچھا شاعر بھوکوں نہیں مرسکتا‘‘۔

 

اردو سے ڈاکٹر منان کو جو والہانہ محبت تھی اس کے پس منظر میں ایک بار میں نے اقبال متین کی موجودگی میں ان سے کہا تھا ’’ڈاکٹر صاحب ! زمانہ اور حکومت اردو کو زندہ نہیں رکھنا چاہتے اور آپ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو مرنے نہیں دیتے‘‘۔ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا قابل ذکر شاعر اور ادیب بچا ہوگا جس کی نبض تک ڈاکٹر منان کا دست شفا نہ پہنچا ہو۔ ڈاکٹر علی محمد خسرو ، ڈاکٹر رشیدالدین خاں اور ڈاکٹر عابد حسین بھی دہلی میں کبھی بیمار پڑجاتے تو بڑی حسرت سے کہتے تھے نہ ہوئے ڈاکٹر منان دہلی میں ، ورنہ آج ہم یہاں کیوں اس طرح بستر علالت پر دراز ہوتے ۔ ان کے ہاتھ میں جو شفا تھی وہ سچ مچ افسانوی حد تک ایک حقیقت تھی ۔ انہوں نے لاکھوں مریضوں کا علاج کیا اور ہر مریض زندگی بھر ان کی مسیحائی کا نہ صرف معتقد اور معترف بلکہ مرید بھی بن گیا ۔ یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے طرز عمل اور حسن سلوک کے ذریعہ طبیب اور مریض کے رشتہ کو پیر اور مرید کے رشتہ کا درجہ عطا کردیا تھا ۔ میرے دوست علی ظہیر لگاتار دو برس تک اپنے بلڈ پریشر کی وجہ سے پریشان اور متفکر رہے ۔ بیسیوں نامی گرامی ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے ۔ ایک دن میں یونہی انہیں ڈاکٹر منان کے پاس لے گیا ۔ انہوں نے تفصیلی معائنہ کے بعد حسب معمول نہ صرف تسلی دی بلکہ دوائیں بھی دیں۔ معائنہ کے دوران علی ظہیر سے بات چیت کے بعد پتہ چلا کہ وہ علی ظہیر کے سارے بزرگوں سے واقف تھے ۔ ان کا حافظہ غضب کا تھا ۔ پھر انہوں نے علی ظہیر کے اسلاف کے کارناموںکا ذکر کچھ اس انداز سے کرنا شروع کردیا جیسے وہ علی ظہیر کو ان کی موجودہ شخصی کارستانیوں سے خبردار کرنا چاہتے ہوں۔ یوں لگا جیسے وہ اسلاف کے کارناموں کے ذریعہ نئی نسل کی کارستانیوں کا علاج کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ اس دن کے بعد سے نہ صرف علی ظہیر کا بلڈ پریشر بلکہ خود علی ظہیر بھی قابو میں آ گئے۔ افسوس کہ انہوں نے مجھے کبھی علاج کے قابل نہیں سمجھا ۔ جب بھی نبض پرہاتھ رکھا یہی کہا کہ تمہارے جسم میں کوئی بیماری ہو تو میں اس کا علاج بھی کروں ۔ تم اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو قابو میں رکھنے کا ہنر سیکھ لو تو صرف غذائیں ہی تمہیں صحت مند رکھ سکتی ہیں ۔ چنانچہ اس تشخیص کے پس منظر میں وہ بسا اوقات بارکس کے خاص انجیر اور پپیتے، کوہیر کے امرود اور سنگاریڈی کے آم لے کر مجھ کمترین کے غریب خانہ پر بہ نفس نفیس قدم رنجہ فرمایا کرتے تھے ۔ کیسے بتاؤں کہ اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے سبب میں ان کی آمد پر کس طرح شرم سے پانی پانی ہوجایا کرتا تھا ۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی نام نہاد بڑوں کا چھوٹا پن دیکھا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالمنان ایک ایسے عظیم المرتبت بڑے آدمی تھے جنہیں اس بات کا قطعی علم ہی نہیں تھا کہ وہ واقعی بڑے آدمی ہیں ۔ کبھی کبھی وہ اپنے ڈرائیور کے ذریعہ پھل روانہ کرتے تھے تو اپنے شخصی خط میں متعلقہ پھلوں کے سلسلۂ حسب نسب ، کنیت و طنیت اور تاثیر کے علاوہ ان کے طریقہ استعمال پر بھی روشنی ڈال دیتے تھے ۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ 14 جولائی کو شام میں جب وہ اپنے گھر میں گرے تو عین اسی وقت میں ان کے گھر کے تقریباً روبرو عزیز آرٹسٹ کے اسٹوڈیو میں تھا ۔ عزیز نے اپنے تخلیقی سفر میں حیدرآباد سے متعلق پچیس تیس اردو ادیبوں اور شاعروں کے لاجواب پورٹریٹ بھی بنائے ہیں ۔ اس وقت بات یہ چل رہی تھی کہ ڈاکٹر سید عبدالمنان ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، عابد علی خان اور محبوب حسین جگر کے پورٹریٹ بھی اگر عزیز تیار کرلیں تو حیدرآباد کے اردو فنکاروں کے پورٹریٹس کی ایک انوکھی نمائش آراستہ کی جاسکتی ہے ۔ عزؔیز اضطراری فنکار ہے ۔ میری تجویز پسند آئی تو کہنے لگا ’’چلو ابھی ڈاکٹر منان کے پاس چلتے ہیں اور ان کی کوئی اچھی سی تصویر لے آتے ہیں تاکہ پورٹریٹ بنانے کا کام شروع کردیا جائے‘‘۔ میں نے کہا ’’ایسی بھی کیا جلدی ہے ۔ کل میں خود ان کے ہاں جاکر چند تصویریں لے آؤں گا ‘‘۔

چنانچہ دوسرے دن حسب وعدہ جب میں علی ظہیر کے ہمراہ ڈاکٹر منان کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کے مطب کا حصہ خالی ہے اور وہاں کوئی عملہ بھی نہیں ہے ۔ اپنی کبر سنی کے باوجود وہ ہر ر وز صبح میں گیارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک مریضوں کو دیکھتے تھے ۔ ان کا ڈرائینگ روم بھی خالی تھا۔ گھنٹی بجائی تو بڑی دیر بعد ان کے فرزند فیضؔ نے دروازہ کھولا ۔ کہنے لگے ’’ڈاکٹر صاحب کل شام گھر میں گر پڑے ۔ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک صبح میں آئے تھے ۔ ڈاکٹر شاہد علی خاں اور ڈاکٹر مظہر الدین علی خاں بھی انہیں دیکھ کر گئے ہیں ۔ ہڈیوں کے مشہور ڈاکٹر پنگل جئے رام ریڈی آنے والے ہیں‘‘۔ اس وقت اندر کچھ اور ڈاکٹروں سے ڈاکٹر منان صلاح و مشورہ کر رہے تھے اور ڈرائینگ روم میں ان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔ میں نے ڈرائنگ روم میں بیٹھے بیٹھے ڈاکٹر شاہد علی خاں کو فون ملایا ۔ کہنے لگے ’’ہڈی کچھ اس طرح ٹوٹی ہے کہ وہ اب بستر سے کبھی اُٹھ نہیں سکیں گے ۔ اگر سرجری نہیں کی گئی تو وہ نہایت تکلیف دہ اور اذیت ناک موت کا سامنا کریں گے ‘‘۔ میں تاڑ گیا کہ ڈاکٹر سید عبدالمنان اب خود اپنی زندگی کے وہ آخری مریض بن گئے ہیں جس کے علاج کا فیصلہ خود ان ہی کو کرنا ہے ۔
ان جیسے طبیب حاذق کیلئے یہ سخت آزمائش کی گھڑی تھی ۔ فیض صاحب نے کہا کہ اگر آپ ڈاکٹر صاحب سے ملنا چاہیں تو مل لیں مگر میری ہمت نے کوئی جواب نہ دیا۔ ڈرائینگ روم میں بیٹھے بیٹھے ان کی آواز سنتا رہ گیا ۔ سنا ہے کہ آٹھ دن پہلے انہوں نے اچانک اپنے قریبی رفیق عمر علی خاں کو طلب کر کے وہ کاغذات نکلوائے تھے جو خطۂ صالحین میں ان کی آخری آرام گاہ سے متعلق تھے ۔ پھر یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ آس پاس کے علاقہ کی صفائی بھی کرادیں۔ میں نے شام میںڈاکٹر سدھیر نائیک کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر منان نے زبردست قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرجری کروانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ معذور بن کر جینا نہیں چاہتے ۔ چنانچہ اب وہ اپولو اسپتال میں شریک ہوگئے ہیں جہاں کل صبح ان کا آپریشن ہوگا ۔ یوں 16 جولائی کو صبح میں ان کا آپریشن ہوگیا ۔ میں نے شام میں پھر ڈاکٹر سدھیر نائیک کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر منان ہوش میں آگئے ہیں ۔ سرجری تو ہوگئی ہے لیکن پیشاب کے آنے میں تکلیف کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے ۔ علاج چل رہا ہے ۔ دعا کرو کہ سب ٹھیک ہوجائے ۔ 17 جولائی کو صبح اطلاع ملی کہ ڈاکٹر صاحب ہوش میں ہیں ۔ سوپ بھی پیا ہے مگر پیشاب کے اخراج میں تکلیف برقرار ہے مگر افسوس کہ دوپہر میں نماز جمعہ کے بعد سید امتیاز الدین نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ ابھی پانچ منٹ پہلے دکن کے طبیب حاذق نے بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے ۔ 18 جولائی کو ان کی نماز جنازہ میں ان کے ہزاروں چاہنے والوں نے شرکت کی ۔ ہر کوئی سوگوار اور ہر ایک غمزدہ ۔ تراب الحسن ملے تو بے ساختہ کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولے ’’منان صاحب اب ہمیں اپنے بل بوتے پر جینے یا مرنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر بے سہارا چھوڑ گئے ‘‘ اور مجھے بے اختیار ایک مصرعہ یاد آگیا ۔ اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے ۔ ڈاکٹر منان ایک مسیحا کے روبپ میں لیجنڈ (Legend) بن کر ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا
(جولائی 2009 ء)