ڈاکٹر سرورالہدیٰ شعبۂ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ

ایک وقت تھا کہ ادب کے سماجی اور تہذیبی سیاق پر اس قدر زور دیا جانے لگا تھا کہ جیسے ادب ،ادب نہ ہو بلکہ تاریخی اور سماجی دستاویز ہو۔ ایک ایسا وقت بھی آیا جب رد عمل کے طور پر ادب کے تاریخی اور سماجی سیاق سے انکار کیا جانے لگا اور اس بات پر اصرار کیا جاتا رہا کہ ادب کی اپنی اخلاقیات ہے، اسے ادب کے دائرے کار میں رکھ کر ہی دیکھا جانا چاہئے۔ ان دو انتہائی صورتوں نے بڑے مغالطے پیدا کئے۔ ان مغالطوں سے نکلنے کی کوئی صورت اگر ہوسکتی ہے تو وہ یہ کہ اپنے ذہن کے دریچے کو کھلا رکھا جائے اور نہ صرف اردو بلکہ دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیا جائے۔ جن حضرات نے ان دو انتہائی صورتوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا وہ اپنے طور پر ایماندار ہوسکتے ہیں اور ہمیں یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ کسی سازش کے تحت یہ صورتیں قائم کی گئیں۔ لیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ ادب کے تاریخی اور سماجی سیاق کو نظر انداز کرنے کا ایک سبب ترقی پسندوں سے غیر ضروری گریز تھا۔ اگر اس پورے معاملے میں ضد اور غصے کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا تو ادب اپنے تاریخی سیاق میں بھی ادب ہی دکھائی دیتا اور اس سے بیک وقت ادب اور تاریخ دونوں کے فطری رشتے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ لوگ جو کبھی ادبی ڈسکورس میںسماج اور تاریخ ، ثقافت جیسے الفاظ کو غیر ادبی تصور کرتے تھے وہ انہیں الفاظ کو آج استعمال کرنے لگے ہیں۔ لیکن انہیں اس بات کا خوف بھی ہے کہ کہیں یہ الفاظ نظری اور فکری طور پر ترقی پسندی سے اپنا رشتہ نہ قائم کرلیں۔ یہ خوف نفسیاتی خوف ہے اور شخصی بھی۔ یہ ضروری نہیں کہ ادب کی دنیا کا ہر آدمی کسی کے لئے بھی قابل قبول ہومگر فکر ایک ایسی دولت ہے جو تقسیم کرنے یا استفادہ کرنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص جسے آپ شخصی طور پر پسند نہ کرتے ہوں اس کی تنقیدی اور ادبی فکر اپنے اندر تازگی بھی رکھتی ہواور آفاقیت بھی۔ آفاقیت میں ہر زمانے کی تہذیبی زندگی کا ساتھ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر عجیب بات ہے کہ ہمارے یہاں اس معاملے میں تنگ نظری کا ثبوت دیا جاتا ہے اور یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ فکروآگہی کسی کی جاگیر نہیں۔ آپ علم پر قابض نہیں ہوسکتے ۔ بعض حضرات کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ وہ کچھ کتابیں اپنے پاس چھپا کر رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ جب تک کتابیں ان کے قبضے میں ہیں ان کتابوں کا علم بھی انہیں کے قبضے میں رہے گا۔ اس طرح دنیا باربار ان کی طرف رجوع کرے گی، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ادب کے ساتھ تاریخ اور تہذیب جیسے الفاظ بار بار استعمال ہورہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ایک سچائی سے عملی رشتہ قائم کرنے کے باوجود یہ کہنے کی ہمت نہیں کہ ترقی پسندوں نے اگر ادب میں تاریخ اور سماج پر زور دیا تھا تو وہ کلی طور پر غلط نہیں تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی لے بہت تیز ہوگئی تھی اور آج ہم اگر ادب کے تجزیے اور تفہیم میں تاریخ اور سماج کا ذکر کررہے ہیں تو اس کا کوئی رشتہ بیشک ترقی پسند فکر سے قائم ہوجاتا ہے۔ ایک ادب کے سنجیدہ قاری کے لئے آج کی ادبی صورتحال میں بہت کچھ سیکھنے سمجھنے اور لکھنے کے لئے موجود ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ادب کی دنیا مغالطے کا شکار ہے، موجودہ تنقید گمراہ کررہی ہے یا ادبی معاشرہ خیموں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ سب باتیں تو ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ان باتوں کا ذکر کرکے ہم خود اپنی ذہنی قلاشی اور فکری کم مائیگی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ ادب کا قاری اور تخلیق کار جب صاف ستھرے ذہن کے ساتھ ادب پڑھتا ،سوچتا یا لکھتا ہے تو ادب ہی اس کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور تربیت بھی۔ ادب کی دنیا جمہوری ہوتی ہے کوئی بھی کسی تخلیق کار کو پڑھ سکتا ہے اس پر لکھ سکتا ہے مگر رائے دیتے وقت اس بات کا بہرحال خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر کوئی تخلیق ہمیں پسند ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بہت اچھی بھی ہوگی اور معیاری بھی ۔ وہی تخلیق جو آج ہمیں بہت اچھی لگتی ہے کل کو کم اچھی لگ سکتی ہے۔ ادب کا سنجیدہ قاری اس تجربے سے بھی گزرتا ہے کہ اگر مسلسل کم تر درجے کا ادب پڑھا جائے تو اس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی گھٹتی جاتی ہے اور اس کی نظر اچھے اورخراب ادب کی شناخت میں دھوکا کھا جاتی ہے۔ اردو میں ادب کے تاریخی سیاق پر مضامین لکھے گئے ، کچھ کتابیں ایسی بھی لکھی گئیں جن میں اس نکتہ نظر کو طریقہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسی کتاب سامنے نہیں جس سے یہ پتہ چلے کہ ادب اور تاریخ کا رشتہ کیا ہوتا ہے اور مختلف اصناف میں تاریخ کے عمل کی نوعیت کیا ہوتی ہے اس معاملے میں ہندی والوں کے یہاں صورتحال بہت روشن ہے ۔ نامور سنگھ کی کتاب ’’اتہاس اور آلوچنا‘‘ اور مینجر پانڈے کی کتاب’’ساہتیہ اور اتہاس درشٹی‘‘ دو ایسی کتابیں ہیں جن سے ایک ڈسکورس قائم ہوگیا۔ کبھی غور کرنا چاہئے کہ ہمارے ناقدین نے ایسی کتابیں کیوں نہیں لکھیں۔ محمد حسن کی دو کتابیں ’’دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی وفکری پس منظر‘‘ اور ’’قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ سے اس کمی کی تلافی ہوجاتی ہے مگر اس سلسلے میں اور بہت کچھ کیا جانا تھا۔ جدیدیوں نے محمدحسن کی تنقیدی فکر کو اس لئے اہمیت نہیں دی کہ اس سے ان کے ادبی موقف پر حرف آتا تھا۔ مگرستر کی دہائی میں انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ محمد حسن کی تنقیدی فکر حال سے کہیں زیادہ مستقبل کی تنقیدی فکر ہے اور ادبی ڈسکورس کو رفتہ رفتہ اسی فکر کے دائرے میں آنا ہے جسے محمد حسن نے جدیدیت نئی ترقی پسندی کا نام دیا تھا۔ میں نے محمد حسن کے جن خطوط کا مطالعہ کیا ہے ان کے تعلق سے کسی اور وقت کچھ اور لکھوں گا، مجھے محمد حسن کے علاوہ کوئی دوسرا ترقی پسند نقاد ایسا نظر نہیں آتا جس نے ترقی پسند فکر کو نئے تنقیدی مسائل اور میلانات سے قریب کرنے کی کوشش کی ہو۔ بیشتر لوگ ضد اور ہٹ دھرمی کی نذر ہوگئے ۔ وہ یہ سوچ نہیں سکے کہ عالمی سطح پر زبان وادب کی دنیا میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان سے اردو ادب کیونکر بے نیاز رہ سکتا ہے اور یہ کہ علم وآگہی کی ایک دنیا کو اپنی سہولت اور آسودگی کے نام پر برا بھلا کہنا خود کو قصہ پارینہ بنانا ہے۔ لیکن محمد حسن نے اپنے طور پر اس سلسلے میں جو کاوشیں کیں ابھی انہیں سامنے آنا باقی ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ایک شخص زندگی کے آخری ایام میں کس طرح ساختیات اور پس ساختیات کو دیکھ رہا تھا اور اسے اس بات کا کا شعورتھا کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے اب پرانی اصطلاحوں میں سوچ کر بدلتے ہوئے وقت کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ مابعد جدیدیت کے زیر اثر جو خوشگوار تبدیلیاں آئیں ان کا ایک رشتہ ترقی پسند فکر کی روشن خیالی ہی سے قائم ہوسکتا ہے۔ نوتاریخیت کی اصطلاح ایک ایسی اصطلاح ہے جو ان دو انتہاؤں سے خود کو الگ کرتی ہے اور فکری سطح پر ہمیں یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ ادب تاریخ سے کٹ کر نہ تو وجود میں آتا ہے اور نہ اسے تاریخ کے بغیر سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن تاریخ کا عمل جو تاریخ کی کتابوں میں نظر آتا ہے وہ ادب میں ممکن نہیں ۔