ڈاکٹر راج بہادر گوڑ

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
ڈاکٹر راج بہادر گوڑ پچھتر برس کے ہوگئے ۔ یہ بات آپ اور ہم تو اس لئے مان لیں گے کہ وہ 1918 ء میں پیدا ہوئے تھے لیکن شاید خود ڈاکٹر گوڑ اس بات کو نہ مانیں کیونکہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے نہیں مانتے۔ مجھے اس وقت اپنے خاندان کے ایک بزرگ یاد آگئے جنہوں نے ساری زندگی ہنستے ،کھیلتے ، دھومیں مچاتے ہوئے گزاردی، نوّے سال کی عمر میں بھی ان کے ہونٹوں پر وہ مسکراہٹ کھلی رہتی تھی جو عموماً نو سال کے بچے کے ہونٹوں پر دکھائی دیتی ہے۔ سچی اور خالص مسکراہٹ ۔ مگر جب وہ اکیانوے برس کے ہوگئے اور میں ان کی سال گرہ پر مبارکباد دینے گیا تو اُداس سے نظر آئے۔ اداسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے’’ میاں ! زندگی کے اکیانوے برس تو چٹکی بجانے میں گزاردیئے لیکن اب احساس ہونے لگا ہے کہ مجھ میں مز ید بوڑھا ہونے کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے‘‘ اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس جملہ کو ادا کرنے کے بعد بھی وہ مزید چار برس تک زندہ رہنے کی گنجائش نکالتے رہے ۔اصل میں انسان کی عمر کیلنڈروں سے طئے نہیں ہوتی بلکہ اس کے اپنے احساس اور رویہ سے ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اپنے جذبہ اور احساس کی سطح پر عمر کی اس منزل سے گزر رہے ہیں جہاں ان میں مزید جوان بنے رہنے کی خاصی گنجائش موجود ہے ۔ میرا اپنا حال بلکہ حالت یہ ہوگئی ہے کہ میں کبھی کبھی اپنے آپ کو ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کا بزرگ سمجھ بیٹھتا ہوں۔ حالانکہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں میں نے غالباً اسوقت دیکھا تھا جب  میں خود نو برس کا تھا۔ یہاں غالباً کا استعمال میں نے اس لئے کیا ہے کہ میں ان دنوں سابق ریاست حیدرآباد کے شہر گلبرگہ میں رہتا تھا اور اپنے بڑے بھائیوں سے ملنے کیلئے کبھی کبھار حیدرآباد آتاجاتا تھا ۔ میرے بڑے بھائی حیدر گوڑہ کے ایک مکان میں رہتے تھے ۔ ایک رات مجھے بُلاکر تاکید کی گئی کہ میں مکان کے اس کمرہ میں بالکل نہ جاؤں جو مکان کے پچھلے حصہ میں واقع تھا ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ وہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے اور اسے آرام کی سخت ضرورت ہے ۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی یہ پوچھے کہ گھر میں کوئی مہمان آیا ہوا ہے تو جواب میں یہ کہہ دوں کہ کوئی بھی نہیں آیا ہے۔ ایسے مہمان کو دیکھنے کی تمنا بھلا کس بچہ کے دل میں پیدا نہیں ہوگی ۔ لہذا سخت تاکید کے باوجود میں نے چوری چھپے دروازے میں سے جھانک کر اس مہمان کو دیکھا ۔ آرام تو خیر وہ کیا کرتا کچھ لکھنے پڑھنے میں ضرور مصروف تھا۔ اس نے ایک لمبا کوٹ پہن رکھا تھا ۔ مونچھیں شاید تھیں جو پتہ نہیں اصلی تھیں یا نقلی۔ یہ غالباً 1945 ء کی بات ہے۔ جب مخدوم محی الدین ، راج بہادر گوڑ اور ان کے دیگر کمیونسٹ ساتھی تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کے سلسلہ میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے اور اپنے ٹھکانے بدل بدل کر اپنے آپ کو گرفتار ہونے سے بچا رہے تھے۔ میں نے اوپر جس مہمان کا ذکر کیا ہے وہ ہمارے گھر میں رہا تو صرف ایک ہی دن لیکن اس کے گھر سے چلے جانے کے پانچ چھ برس بعد کسی نے بتایا کہ اس دن جو مہمان ہمارے گھر میں رُکا تھا اس کا نام ڈاکٹر راج بہادر گوڑ تھا ۔ جب مجھے اس کا پتہ چلا تو میں چودہ پندرہ برس کا ہوچکا تھا ۔ اس وقت تک ڈاکٹر گوڑ جیل سے رہا ہوچکے تھے ۔ میں اپنے دوستوں کو بڑے فخر کے ساتھ اس وقت بھی بتایا کرتا تھا اور آج بھی بتایا کرتا ہوں کہ ڈاکٹر گوڑ نے کبھی ہمارے گھرمیں پناہ لی تھی ۔ اگرچہ میں آج بھی پورے وثوق کے ساتھ نہیںکہہ سکتا کہ آج سے پچاس برس پہلے جس مہمان نے ہمارے گھرمیں پناہ لی تھی کیا وہ سچ مچ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ تھے۔ میںچاہتا تو پچھلے پچاس برسوں میں اپنے بڑے بھائیوں سے اس کے بارے میں پوچھ سکتا تھا بلکہ خود ڈاکٹر گوڑ سے اس کی توثیق حاصل کرسکتا تھا۔ مگر میں نے کبھی نہیں پوچھا اور آج بھی پوچھنا نہیں چاہوں گا ۔ اس لئے کہ اگر خدا نخواستہ جواب نفی میں ملے تو میری زندگی میں سے ان سے رابطہ کے عرصہ میں اچانک پانچ چھ برسوں کی کمی ہوجائے گی اور میں عمر کی اس منزل میں ہوں جہاں سینت سینت کر جمع کئے ہوئے لمحوں کو تفریق کے عمل سے گزارنا میرے لئے گھاٹے کا سودا ہوگا ۔ فراق نے کچھ ایسی ہی ذہنی کیفیت کے بارے میں کہا تھا۔
خود اپنے خیالوں کو ہمدم میںہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں
قصہ دراصل یہ ہے کہ راج بہادر گوڑ میرے لئے افسانہ بھی ہیںاور حقیقت بھی ۔ یہ معاملہ صرف میرا ہی نہیں ہر اس شخص کا ہے جس نے ملک کی آزادی سے پندرہ سولہ برس پہلے سابق ریاست حیدرآباد کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں۔ شخصی حکمرانی کے اس دور میں جب اچھے اچھوں کے منہ بند رہتے تھے مخدوم محی الدین، روی نارائن ریڈی ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اور ان کے ساتھیوں نے تلنگانہ کے کسانوں اور مزدوروں کو ساتھ لے کر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا ۔ اس تحریک نے اس وقت کے نوجوانوں میں ایک ہلچل سی پیدا کردی تھی ۔ مخدوم محی الدین کا ترانہ :

لو سرخ سویرا آتا ہے آزادی کا آزادی کا
گلنار ترانہ گاتا ہے آزادی کا آزادی کا
اس وقت کے نوجوانوں میں بے پناہ مقبول ہوچکا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد مخدوم محی الدین کا جو جلوس نکلا تھا اس سے بڑا جلوس میں نے آج تک نہیں دیکھا بلکہ جوں جوں میری عمر میں ا ضافہ ہوتا جارہا ہے ، میرے حافظہ میں اس جلوس کی لمبائی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔
مخدوم اور ڈاکٹر گوڑ کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں اور یہ دونوں کسی افسانہ کے کردار لگتے تھے ۔ ان لوگوں کی روپوشی کے بارے میں بھی طرح طرح کے قصے مشہور تھے ۔ جنہیں سن کراحساس ہوتا تھا کہ یہ اس دھرتی کے باسی نہیں ہیں۔ مثلاً مخدوم نے ایک بار اپنے ایک برہمن دوست کے گھر میں پناہ لی۔ ان کا برہمن دوست تھا تو کمیونسٹ پارٹی کا ہمدرد لیکن اس کے والدین رہن سہن اور کھانے پینے کے معاملہ میں بڑے کٹر واقع ہوئے تھے۔ مخدوم کے دوست نے مخدوم کو سمجھا رکھا تھا کہ اس کے والدین کو ہرگز یہ پتہ نہ چلنے پائے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مخدوم اس پر سختی سے عمل بھی کرتے رہے ۔ ایک دن کھانے کی میز پر ان کے دوست کے والد نے باتوں باتوں میں مخدوم سے کہا ’’تم لوگ کمیونسٹ پارٹی میں کام کرتے ہو۔ تم لوگوںکے دین و ایمان کا کیا بھروسہ۔ کہیں تم لوگ گوشت وغیرہ تو نہیں کھاتے؟ ‘‘۔اتنا سنتے ہی مخدوم نے منہ میں جاتے ہوئے نوالے کو روکا اور کہا ’’نعوذ باللہ، لاحول ولا قوۃ! چھی چھی ۔ یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ہم گوشت کھاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر گوڑ بھی کئی نام اور کئی بھیس بدل کر روپوش رہے۔ آج یہاں کل وہاں۔ یہ بھی غالباً 1945 ء کی بات ہے کہ راج بہادر گوڑ ایسی ہی کسی ’’نعوذ باللہ‘‘ والی بات پر دھرلئے گئے ۔ یہ اور بات ہے کہ جیل میں پہنچ کر انہوں نے کسی بیماری کا بہانہ کیا۔ (میڈیسن کے ڈاکٹر ہونے کا ا تنا فائدہ تو وہ اٹھانا جانتے ہی تھے) ۔ پھر یہ اکیلے بیمار نہیں پڑے بلکہ اپنے ایک ساتھی کامریڈ جواد رضوی کو بھی ساتھ لے کر بیمار پڑے (حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو اسی کو توکہتے ہیں) نتیجہ میں دونوں قیدی علاج کیلئے عثمانیہ اسپتال لائے گئے ۔ اپنا علاج کرنا وہ خود تو جانتے ہی تھے ۔ لہذا دونوں کچھ ایسی خوش اسلوبی کے ساتھ اسپتال سے فرار ہوگئے کہ ان کے فرار ہونے کے ڈرامہ کا ذکر کئی دنوں تک حیدرآباد کے گلی کوچوں میں ہوتا رہا ۔ ہماری فلموں میں بھی قیدی اس طرح فرار نہیں ہوتے جیسے یہ دونوں فرار ہوئے تھے ۔ میری نسل کے لوگوں کے ذہنوںمیں مخدوم اور راج بہادر گوڑ ایک عرصہ تک افسانوی کردار کی طرح ہی رہے۔ 1952 ء میں جب یہ رہا ہوئے اور جب پہلی بار انہیں اصلی روپ میں دیکھا تو یقین نہیں آتا تھا کہ کیا یہی وہ راج بہادر گوڑ ہیں جن کے قصے الف لیلیٰ کی داستانوں کی طرح مشہور ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اصلی راج بہادر گوڑ تو وہی تھے ۔ 1952 ء کے بعد سے ہم جس ڈاکٹر گوڑ کو دیکھ رہے ہیں، وہ اصل میں ایک بھیس بدلی ہوئی شخصیت ہیں۔
معزز حضرات ! آج کی محفل میں ہم جن بزرگ کی پچھتر ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ ذرا آپ ان کے ہاتھوں کی طرف غور سے دیکھیں اور بتائیں کہ کیا کبھی ان ہاتھوں نے ہتھیار اٹھائے ہوں گے ۔ ان کے قریبی جاننے والے کہتے ہیں کہ ان ہاتھوں نے ضرور ہتھیار اٹھائے تھے۔ پتہ نہیں کیوں اٹھائے تھے ۔ میرے پاس ایک نہایت بوسیدہ اور پرانی گھڑی تھی ۔ ایک بار وہ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی ۔ میں اسے ٹھیک کرانے کیلئے گھڑی ساز کے پاس گیا۔ گھڑی ساز نے پہلے تو اسے حقارت سے دیکھا اور پوچھا’’کیا ہوا ہے اسے ؟ ‘‘ میں نے کہا ’’یہ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی تھی‘‘۔ گھڑی ساز نے کہا ’’جب یہ زمین پر گرگئی تھی تو آپ نے اسے اُٹھایا ہی کیوں ؟ وہیں پڑی رہنے دیتے‘‘۔ ایسی ہی بات ڈاکٹر گوڑ کے بارے میں ذہن میں آتی ہے کہ جب آپ کو ہتھیار ڈالنے ہی تھے تو انہیں ان ہاتھوں سے اٹھانے کی زحمت ہی کیوں کی تھی۔ پھر ذرا سوچنے کہ کیا ان ہاتھوں نے کبھی کسی پر گولی چلائی ہوگی اور اگر چلائی بھی ہوگی تو کیا گولی نشانہ پر لگی ہوگی۔ آج ان ہاتھوں کو دیکھ کر ان کہانیوں پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا جو ان ہاتھوں سے منسوب رہی ہیں اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ بارہ برس پہلے جب مجھے جاپان جانے کا موقع ملا تو ڈاکٹر گوڑ کے تعلق سے میری غلط فہمیوں  کا ازالہ  ہوگیا۔ جاپانیوں کے ہاتھ بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ میں ان کے ہاتھوں کو دیکھتا جاتا تھا اور گھنٹوں حیرت میں مبتلا رہتا تھا کہ کیا سچ مچ ان ہاتھوں نے دوسری جنگ عظیم میں گولیاں چلائی تھیں اور بم پھینکے تھے۔ اصل میں تاریخ مختلف ادوار میں ہاتھوں سے مختلف کام لیتی ہے اور ان کے کاموں کی نوعیت کو تبدیل کرتی رہتی ہے ۔ چنانچہ تاریخ نے ڈاکٹر گوڑکے ہاتھوں سے اب ہتھیار چھین لئے ہیں اوران میں ایک قلم تھمادیا ہے تاکہ وہ اسے چلاتے رہیں۔ اس سے پہلے قدرت ان کے ہاتھوں میں اسٹیتھسکوپ تھمانا چاہتی تھی جسے پھینک کر انہوں نے ہتھیار اٹھالئے تھے۔

مجھے اس وقت اپنے ایک دوست کی یاد آرہی ہے جو نہایت کم عمری میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ ان کے ذمہ کام یہ تھا کہ راج بہادر گوڑ اور ان کے ساتھیوں کو ہتھیار فراہم کرتے رہیں۔ ایک بار یہ اسلحہ لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ۔ بعد میں پولیس نے ایسی کڑی تفتیش کی کہ بیچارے کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ اس واقعہ کے کئی برس بعد انہیں علاج کے لئے سوویت یونین روانہ کیا گیا جہاں ان کی ریڑھ کی ہڈی کی مرمت کی گئی ۔ وہ علاج سے مطمئن ہوکر خوش خوش واپس تو ہوگئے لیکن چند ہی برسوں میں خود سوویت یونین کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ ان پچھتر برسوں میں نہ جانے کتنوں کی ریڑھ کی ہڈیاں ٹوٹیں لیکن ہمارے ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کی ریڑھ کی ہڈی اب بھی صحیح و سالم ہے ۔ ورنہ ہمارے کتنے محبوب تھے جن کا حشر نہ جانے کیا ہوگیا ۔ ایک شعر یاد آگیا۔
زمانہ کس قدر پامال کردیتا ہے انساں کو
ہمارے دور کے محبوب پہچانے نہیں جاتے
اصل میں ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے لمحہ موجود میں پوری شدت کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے ۔ ہم جیسے تو ابھی سے ساحل پر بیٹھ کر زندگی کے منجدھار کا تماشہ دیکھنے لگے ہیں لیکن راج بہادر گوڑ ہیں کہ اب بھی اس منجدھار میںبہتے چلے جارہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے پورے پچاس برس بیت گئے ۔ پچاس برس پہلے ان میں جو چیز دیکھی تھی وہ آج بھی ان کی ذات میں موجود و محفوظ ہے اور اس شئے کو سیماب صفتی کہتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے ایک لمحہ کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔ نتیجہ میں اُن کے مزاج میں بلا کی تیزی ، چستی اور پھرتی نظر آتی ہے ۔ جلد بازی اور عجلت ان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیت ہے۔ مجھے یاد ہے پچھلے سال کے اواخر میںایک دن صبح صبح چھ بجے میرے گھر کے آس پاس اچانک کسی کے پکارنے کی آوازیں آنے لگیں، میں نیند سے ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا تو محسوس ہوا کہ کوئی بڑی تیزی کے ساتھ میرے فلیٹ تک آنے کیلئے سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ میرا مکان چوتھی منزل پر تھا ۔ سیڑھیاں چڑھنے کی رفتار اور میرا نام پکارنے کی تکرار سے یوں لگتا تھا جیسے کوئی بھونچال سا آنے والا ہو۔ میں نے گھبراکر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اپنی کزن سسٹر اودیش رانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بولے ’’ابے مسخرے اتنی دیر تک سوتا ہے‘‘۔
یہ سن کر ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔ میں نے دیکھا کہ ان کی پیشانی پر ایک ہلکی سی چوٹ تھی جسے وہ بار بار سہلا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا ’’یہ کیا ہوگیا؟ ‘‘بولے ’’تمہارے گھر کے زینے کو تیزی سے طئے کرنے کی کوشش میں میری پیشانی ریلنگ سے ٹکرا گئی اور کچھ نہیں‘‘۔

میں نے کہا ’’آپ کو اتنی عجلت سے سیڑھیاں چڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ‘‘
بولے ’’ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔ اودیش رانی نے بالآخر شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چنانچہ آج سے پانچ دن بعد اُن کے دولہا میاں آنے والے ہیں اور چھٹے دن ہر حالت میں ان کی شادی ہوجانی چاہئے ۔ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے شادی میں شرکت نہ کرسکوں گا ۔ لہذا ’’کورٹ میریج ‘‘ کے سارے امور تمہیں کو انجام دینے ہوں گے ۔ کنیا دان بھی تمہیں کو کرنا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا ’’گوڑ بھائی ! یہ تو سب ہوجائے گا ، مگر آپ کو سیڑھیاں چڑھنے میں اتنی جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یوں بھی اودیش رانی کی عمر اب پچاس برس کی ہوگئی ہے۔ جہاں اتنی تاخیر ہوئی ہے وہاں پانچ دس منٹ کی اور تاخیر ہوجاتی تو کیا فرق پڑتا‘‘۔
ہنس کر بولے’’پیارے ! پچاس برس کی عمر ہوگئی ہے اسی لئے تو عجلت نہایت ضروری تھی ورنہ تیس بتیس برس کی عمر ہوتی تو مزید سال دو سال انتظار کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں تھی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ فوراً واپس جانے لگے۔ میں نے انہیں بہت روکا کہ ناشتہ کر کے جائیں لیکن وہ بالکل نہیں رکے۔ جس تیزی سے آئے تھے اسی تیزی سے چلے بھی گئے۔
ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کی ایک اور خرابی نما خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے سے چھوٹوں کا بہت خیال رکھتے ہیں بلکہ اتنا خیال رکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد چھوٹے اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھنے کی غلطی کرنے لگ جاتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ چھوٹے آدمی کا بڑا پن کتنا کھوکھلا ہوتا ہے ۔ یہ جب کسی کی ہمت افزائی کرتے ہیں تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ 1968 ء میں جب میرے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تو ڈاکٹر گوڑنے میری مزاح نگاری کے بارے میں ایک طویل اورجامع مقالہ لکھا ۔ میری مزاح نگاری کے بارے میں اس وقت تک کسی نے کچھ نہیں لکھا تھا۔ مگر ان کے مضمون کو سن کر میں ہکا بکا سا رہ گیا کیونکہ انہوں نے میری مزاح نگاری میں جو خوبیاں تلاش کی تھیں، وہ خود مجھے نظر نہیں آرہی تھیں۔ چنانچہ جلسہ کے بعد میں نے ان سے شکایت کی کہ ’’حضور آپ نے میری بہت زیادہ تعریف کردی جس کا میں مستحق نہیں تھا‘‘۔ بولے ’’میاں ! اسکو تعریف نہیںکہتے ۔ ہمت افزائی کہتے ہیں ہمت افزائی‘‘۔ میں نے کہا ’’مگر مجھ میں اتنی ہمت افزائی کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے‘‘۔
چنانچہ ڈاکٹر گوڑ کا یہ مضمون اب بھی میرے پاس محفوظ ہے جسے میں اکثر اوقات اپنے آپ میں خوش فہمی پیدا کرنے کے خیال سے پڑھ لیتا ہوں اور میری نااہلی دیکھئے کہ یہ خوش فہمی آج تک مجھ میں پیدا نہیں ہوئی ۔ یہ نہ سمجھئے کہ ڈاکٹر گوڑ نے میرے ساتھ یہ خصوصی سلوک کیا تھا ۔ پچھلے تین چار دہوں میں ڈاکٹر گوڑ نے سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کی ہمت افزائی کی ہے اور حتی المقدور انہیں خوش فہمی میں مبتلا کیا ہے ۔ ہر کوئی میری طرح نااہل تھوڑا ہی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر گوڑ کے بارے میںکہنے کو میرے پاس بہت سی باتیں ہیں لیکن اس وقت مجھے ایک سال پہلے کے ڈسمبر کی ایک شام یاد آرہی ہے ۔ حیدرآباد میں ایک دوست کی بیٹی کی شادی میں ڈاکٹر گوڑ سے اچانک ملاقات ہوگئی ۔ بابری مسجد کو گرے ہوئے سات آٹھ دن ہی بیتے تھے ۔ ڈاکٹر گوڑ نے آتے ہی میزبان سے کہا’’بھئی کھانا جلدی لگوادو۔ میں زیادہ دیر نہیں رُک سکتا‘‘۔ میں نے کہا ’’گوڑ بھائی ! یہ آپ نے کب سے کھانے میں دلچسپی لینی شروع کردی؟‘‘بولے ’’نہیں ! مجھے پرانے شہر میں ایک میٹنگ میں جانا ہے ‘‘۔ میں نے پوچھا’’کوئی ادبی محفل ہے؟‘‘
بولے ’’دیکھ نہیں رہے ملک میں کیا ہورہا ہے اور تمہیں ادبی محفل کی سوجھ رہی ہے۔ پرانے شہر میں ایک میٹنگ ہے بابری مسجد کے انہدام کے خلاف‘‘۔میں نے کہا ’’گوڑ بھائی ! بابری مسجد کے انہدام کے خلاف آپ کیا کہیں گے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں لیکن یہ بتائیے کہ آج کے حالات میں کون آپ کی عقل مندی اور ہوش مندی کی باتیں سنے گا‘‘۔

غصہ سے بولے۔ ’’کسی کو نہ سننا ہو تو نہ سنے ۔ مگر مجھے جو کہنا ہے وہ تو میں کہتا رہوں گا ۔ اگر کوئی مجھے سننا نہیں چاہتا تو میں ہی اپنے آپ کو اپنی باتیں سناتا رہوں گا‘‘۔ ایسے موڈ میں اُن سے بحث کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ میں نے عافیت اس میں جانی کہ اپنے حلوے مانڈے سے مطلب رکھوں۔
ڈاکٹر گوڑ نے آج سے پچاس پچپن برس پہلے جس عقیدہ اور مسلک کو اپنایا تھا اس پر آج تک اسی طرح قائم ہیں۔ انسان دوستی، محبت ، پیار اور رواداری کا مسلک۔ دنیا میں کیا نہیں ہوا، لیکن یہ بدستور اپنے مسلک کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ دامن بھلے ہی چاک ہوگیا ہو لیکن انہوں نے اپنے مسلک کو چاک نہیں ہونے دیا۔کبھی کبھی ڈاکٹر گوڑ مجھے ایک ایسے عوامی رہنما کی طرح نظر آتے ہیں جو انسانوں کی بھیڑ میں تنہا رہ گئے ہیں۔ ہجوم کی تنہائی کو جو لوگ محسوس کرسکتے ہیں وہ اس نکتہ کو بخوبی سمجھ پائیں گے ۔ میں انہیں سچے ، مخلص ، بے لوث اور بے غرض رہنماؤں کی نسل کی آخری نشانی سمجھتا ہوں۔اگر میں صاحب اقتدار ہوتا تو ایسے بچے کھچے رہنماؤں کی ایک سینکچوری Sanctuary بناتا تاکہ یہ وہاں محفوظ رہیں اور ہمارے موجودہ رہنما انہیں دیکھ لیا کریں۔ کوئی سبق تو وہ خیر کیا حاصل کرپائیں گے مگر انہیں دیکھ لینے میں کیا قباحت ہے۔
ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے ممبر رہے ہیں۔ ایک سوال میں ڈاکٹر گوڑ سے پو چھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ آج کے حالات میں پھر سے پارلیمنٹ کے ممبر بننا پسند کریں گے؟ مجھے ڈر ہے کہ اگر کوئی انہیں پھر سے پارلیمنٹ میں بھیجنے کی کوشش کرے تو کہیں وہ پھر سے ہتھیار نہ اٹھالیں۔
(یہ تحریر 1993 ء میں ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر دہلی کے اردو گھر میں منعقدہ تقریب میں پڑھی گئی تھی)