ڈاکٹر حبیب اللہ

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلے کچھ عرصے سے ہم حالتِ سفر میں ہیں اور اسی سفری حالت میں پیر کے دن صبح صبح عزیزی سید امتیاز الدین کا حیدرآباد سے فون آیا اور یہ جاں سوز اطلاع ملی کہ ڈاکٹر سی ایم حبیب اللہ بھی اپنا اسٹیتھسکوپ اور معائنہ کے دیگر طبی آلات کو پرے ہٹا، اس دنیا سے اپنا دامن جھٹک کرنکل گئے ۔ آٹھ دن پہلے عزیز پاشا رکن پارلیمنٹ حیدرآباد سے دہلی آئے تو ان کی شدید علالت کی خبر بھی لیتے آئے تھے ۔ سوچا نہ تھا کہ وہ ہمیں اپنی مزاج پرسی کرنے کا موقع دیئے بغیر اس قدر عجلت میں اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوجائیں گے ۔ ڈاکٹر حبیب اللہ سے ہمارے تیس پینتیس برس پرانے مراسم تھے اور ان مراسم کی نوعیت نہ صرف جداگانہ تھی بلکہ پیچیدہ بھی تھی ۔ وہ ہمارے معالج تھے بھی اور نہیں بھی اور ہم ان کے مریض بھی تھے اور نہیں بھی ۔ اس میں قصور نہ ان کا تھا اور نہ ہی ہمارا بلکہ ہمارے پیٹ کا تھا اور وہ پیٹ کے امراض کے طبیب حاذق تھے ۔ ہم اپنے پیٹ کو پکڑ کر ان کے پاس جاتے تھے اور وہ اسے ہمارے دماغ کے حوالے کر کے علاج سے بری الذّمہ ہوجاتے تھے ۔ اس کی اصل وجہ ہماری وہ مختلف النّوع بیماری تھی جس کا تعلق بے شک پیٹ سے ہوتا ہے لیکن اس کی اصل جڑ ہمارے دماغ میں پیوست رہتی ہے۔ انگریزی میں اس بیماری کو Irritable Bowel Syndrome کہتے ہیں۔ یہ بیماری بالخصوص حسّاس اور جذباتی افراد کو لاحق ہوتی ہے ۔ اگر مریض اپنے احساسات اور جذبات کو قابو میں رکھنے کی خاطر دل و دماغ پر قابو پالیتا ہے تو اس کا پیٹ بھی سلامتی کی چال چلتا رہتا ہے ۔ جہاں ذرا سی بھی جذباتی یا نفسیاتی الجھن پیدا ہوجاتی ہے تو اس کا راست اثر اس کے پیٹ پر پڑتا ہے اور ہم جیسا مریض اپنا پیٹ پکڑ کر ڈاکٹر حبیب اللہ جیسے ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔ شروع میں خود ڈاکٹر حبیب اللہ بھی ہمارے اس مرض سے بہت پریشان رہے ۔ ان کے قبضہ قدرت میں جتنے بھی طبی معائنے تھے وہ سب کے سب انہوں نے کر ڈالے اور ہر طبی معائنہ کے بعد یہی کہتے رہے ’’کیا بھی نہیں، کچھ بھی نہیں‘‘ چونکہ وہ اصلاً علاقہ آندھرا کے رہنے والے تھے اس لئے اپنے مخصوص تلفظ کی وجہ سے وہ اس جملہ کو اس طرح ادا کرتے تھے ’’کیا بی نئیں کچھ بھی نئیں‘‘ ۔ ان سے مراسم کے اتنے لمبے عرصہ میں بلا شبہ انہوں نے یہ جملہ ہم سے سینکڑوں مرتبہ کہا ہوگا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے قریبی احباب میں ان کا نام ہی ’’ڈاکٹر کیا بی نئیں کچھ بھی نئیں ‘‘ کی حیثیت سے مشہور کر رکھا تھا ۔ غرض بہت عرصہ اور کئی طبی معائنوں کے بعد وہ اس تشخیص پر پہنچے کہ ہم IBS یعنی (Irritable Bowel Syndrome) کے مریض ہیں اور یہ کہ یہ مرض صرف حساس اور جذباتی انسانوں کو لاحق ہوتا ہے ۔ بالآخر ایک دن انہوں نے ہم سے کہا ’’اپنے دماغ کو ٹھیک رکھو تو آپ کا پیٹ بھی ٹھیک رہے گا ‘‘۔ اس پر ہم نے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا پیٹ خراب نہیں ہے بلکہ دماغ خراب ہے ۔ کیوں نہ میںڈاکٹر مجید خاں سے اپنے دماغ کا علاج کراؤں‘‘۔ یہ کہہ کرہم نے اپنے پیٹ کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے انہیںا یک اور ماہر امراض شکم کا لطیفہ سنایا کہ ایک مریض جب ان کے پاس پیٹ کے درد کی شکایت لے کرپہنچا تو ڈاکٹر نے مریض سے کہا ’’میاں ! تم پہلے اپنی آنکھوں کا معائنہ کراؤ اور اس کے بعد آؤ‘‘ ۔ اس پر مریض نے حیرت سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! میں پیٹ کے درد کی شکایت کر رہا ہوں اور آپ میری آنکھوں کا معائنہ کرانا چاہتے ہیں ۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ ‘‘ اس پر ماہر امراض شکم نے کہا ’’میاں ! اصل میں تمہاری بینائی خراب ہوگئی ہے جس کی وجہ سے تم بنا دیکھے الا بلا چیزیں کھالیتے ہو اور یوں تمہارا پیٹ خراب ہوجاتا ہے ‘‘۔ لطیفہ سن کر بہت ہنسے بولے ’’تم ہر بات میں مذاق کی گنجائش نکال لیتے ہو۔ تم اپنے دماغ پر قابو رکھو اور جذبات اور احساسات کو سنبھالو تو تمہارا پیٹ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا ‘‘۔ اس پر ہم نے ان سے کہا تھا ’’ڈاکٹر صاحب ! آپ ماہر امراض شکم ہونے کے با وجود انسانی جسم میں پیٹ کی بنیادی اہمیت کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اور اسے دماغ کے تابع قرار دے رہے ہیں جبکہ ہم ساری زندگی پیٹ کی بنیادی اہمیت اور افادیت کے قائل رہے۔ اس لئے کہ پیٹ بڑا بدکار ہے۔ اچھے اچھوں کی ہوا نکال دیتا ہے ۔ کارل مارکس کو دیکھئے کہ اس نے سوشلزم کا سارا فلسفہ اپنے دماغ سے نہیں بلکہ پیٹ سے سوچا تھا ۔ اس کے فلسفہ میں انسان کے پیٹ اور اس کی بھوک کو جو بنیادی مرکزیت حاصل ہے اس کی بناء پر ہم کارل مارکس کا شمار بھی Gastroenterologist کی حیثیت سے کرتے ہیں ۔ ہمارے عزیز دوست افتخار عارف کا شعر سنئے ۔

شکم کی آگ لئے پھرتی ہے ملکوں ملکوں
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
پیٹ کے بارے میں ہمارے پسندیدہ کلاسیکی شاعر نظیر اکبر آبادی کی نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمایئے ۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں ، نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
نظیر اکبر آبادی کے اس بے مثال بند کی تعریف کرنے کے بجائے سنجیدگی سے بولے’’اگر چاند اورسورج کی یہ روٹیاں میدے کی نہ ہوں تو پیٹ کیلئے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں‘‘۔

وہ بہت سنجیدہ اور اپنے پیشہ سے سراسر وابستہ انسان تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ ہم مزاح نگار ہیں۔ پتہ نہیںہمارا کالم پڑھتے بھی تھے یا نہیں۔ کبھی ہماری مزاح نگاری کی تعریف تو نہیں کی البتہ ہم نے ایک بار ایک کالم میں ان کا ذکر کیا تھا تو ہنستے ہوئے کہنے لگے آپ نے میرے بارے میں جو لکھا ہے اس کا مجھے علم ہے ۔ تاہم انہوں نے نہ تو کوئی تعریف کی اورنہ ہی کوئی رائے دی ۔ یوں بھی ہم اپنی تعریف و توصیف کے معاملہ میں بے نیاز سے رہتے ہیں۔ جب ادب کے ڈاکٹروں کے پاس ہی رائے جاننے کے لئے نہیں جاتے تو طب کے ڈاکٹر کی رائے جان کر کیا کریں گے ۔ پھر بھی وہ ہماری باتوں سے حتی المقدور محظوظ ہوا کرتے تھے ۔ اپنے پیشہ میں ان کا جو رتبہ بلند تھا وہ مرتبہ ہمیں مزاح نگاری میں حاصل نہ ہوسکا ۔ امراض شکم کے ماہر کی حیثیت سے وہ بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے اور اس حوالہ سے دنیا بھر کے ممالک کے دوروں پر نکل جاتے تھے ۔ بڑا نام تھا ان کا ۔ گیسٹر وانٹرالوجی کے شعبہ میں انہوں نے نئے نئے تجربات کئے اور تحقیق کے نئے دروازے کھولے۔ بہت عرصہ پہلے انہوںنے روس میںایک مریض کے پیٹ میں کتیّ کے کلیجہ کی پیوندکاری کا کامیاب تجربہ کیا تھا ۔ اخباروں میںاس کا بڑا چرچا رہا ۔ دہلی کے آل انڈیا ان سٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ گیسٹر و انٹرالوجی کے وہ برسوں صدرنشین رہے اور اس بہانے ان کا اکثر دہلی آنا جانا رہتاتھا ۔ جب بھی دہلی آتے ہمیں ضرور یاد کرتے تھے ۔ روس میں مندرجہ بالا تجربہ کی کامیابی کے بعد لوٹے تو ہمیں بھی حسب معمول یاد کیا ۔ انسان کے جسم میں کتیّ کا کلیجہ لگانے کے تجربہ کا ذ کر آیا تو بہت خوش تھے ۔ تاہم ہم نے حسب عادت مذاق میںان سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کا تجربہ تو کامیاب رہا لیکن سنا ہے کہ جس مریض کے جسم میں آپ نے کتے کا کلیجہ لگایا ہے اب وہ کسی قدر پریشانی میں مبتلا ہے‘‘۔ حیرت سے بولے ’’مجھے تو کچھ معلوم نہیں ۔ آخر کیا پریشانی ہے اس کے ساتھ ؟ ‘‘۔ ہم نے کہا ’’اور تو سب ٹھیک ہے لیکن مریض کو شکایت ہے کہ جب بھی اسے پیشاب کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو اسے اپنی ٹانگ کوا ٹھانا پڑتا ہے ‘‘۔ خلاف توقع ہماری بات سے لطف اندوز ہونے کی بجائے متانت سے بولے ’’میں نے اتنی محنت سے یہ تجربہ کیا اور آپ اس میں مذاق کا پہلو نکال رہے ہیں‘‘۔ وہ بے حد متین ، شائستہ اور مہذب انسان تھے ۔ ہماری شخصی بیماری کے پس منظر میںان کی یہ تشخیص کہ ہمارا پیٹ ہمارے دماغ کے تابع ہے ہمارے گلے سے نہیں اترتی تھی ، لہذا ہم نے چوری چھپے کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ۔ مشفق مکرم ڈاکٹر سید عبدالمنان مرحوم سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی رائے دی بلکہ یہاں تک کہا کہ آپ کے جسم میں کوئی بیماری نہیں ہے ۔ تاہم یہ ضرور کہا کہ وہ ہمارے اس مرض کے علاج کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور بھیجیں گے ۔ چنانچہ دوسرے دن ا پنے ڈرائیور سے ڈاکٹر منان نے ہمارے لئے بارکس کے چنندہ انجیروں کے علاوہ امرود بھی روانہ کئے ۔ بعد میں بھی وہ آخر وقت تک وقفہ وقفہ سے بذریعہ انجیر اور امرود ہمارا علاج کرتے رہے۔ ڈاکٹر رام پرشاد ہمارے پرانے کرما فرما ہیں اور یونیورسٹی کے ہما رے ہم عصروںمیں سے ہیں ۔ ایک بار ہم نے ان سے یوں ہی کہا تھا ’’ڈاکٹر صاحب ! ہم آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور آپ ہمیں اپنی دواؤں میں یاد رکھیں‘‘ ۔ چنانچہ ڈاکٹر حبیب اللہ کی تشخیص سے متفق ہونے کے باوجود ڈاکٹر رام پرشاد آج تک نئی نئی دوائیں بھیجتے رہتے ہیں۔ ہم نے تو امریکہ کے کئی نامی گرامی اسپتالوں میں بھی اپنے عارضہ کے سلسلہ میں طبی معائنے کروائے مگر وہاں سے بھی ’’کیا بی نئیں کچھ بھی نئیں ‘‘ کا جواب آیا۔
ڈاکٹر حبیب اللہ کا شمار حیدرآباد کے مصروف ترین ڈاکٹروں میں ہوتا تھا ۔ ان کے مطب پر پیٹ پکڑے مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی ۔ گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہ ان کا حسن سلوک اور محبت تھی کہ ہمیں کبھی باری کے انتظار میں نہ لگایا ۔ ہماری آمد کی اطلاع ملتے ہی ہمیں اندر بلا لیتے تھے ۔ اگرچہ ہم بھی پیٹ پکڑے ان کے کمرۂ تشخیص میں داخل ہوتے تھے لیکن واپسی کے وقت اپنا سر پکڑے ہوئے پائے جاتے تھے ۔

اسلئے کہ ہمارے مرض کا تعلق پیٹ سے نہیں دماغ سے نکلتا تھا ۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود وہ سماجی محفلوں میں اور خاص طور پر شادی کی دعوتوں میں ضرور جایا کرتے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک ہی میز پر کھانا کھانے کے بارہا مواقع نصیب ہوئے ۔ کھاتے وقت اپنے ہی طبی مشوروں پر سختی سے عمل کرتے تھے اور محتاط رہتے تھے ۔ ہماری خوراک کے بارے میں ایک بار کہا ’’ماشاء اللہ ! آپ تو خاصے خوش خوراک ہیں‘‘۔ اس پر ہم نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمیں نوجوانی میں نہیں دیکھا ۔ اب تو آپ کی موجودگی اور آپ کے طبی مشوروں کے پس منظر میں ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ورنہ لذیذ اور ذائقہ دار کھانا بنانے والی دو ایک خواتین تو محض ہمارے پیٹ کے راستے ہی ہمارے دل میں داخل ہوسکیں۔ یعنی پہلے ان کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا کھایا اور بعد میں انہیں اپنے دل میں لا بٹھایا ۔
1996 ء میں ہمیں سعودی عرب کی مقدس سرزمین پر تقریباً ایک مہینہ ڈاکٹر حبیب اللہ کے ساتھ دن رات رہنے کا موقع ملا۔ حکومت ہند نے اس سال حج کے موقع پرا پنا جو تیرہ رکنی وفد سعودی عرب بھیجا تھا اس میں ڈاکٹر علی محمد خسرو ، ڈاکٹر حبیب اللہ ، انڈسٹریل ڈیولپمنٹ بینک آف انڈیا کے سربراہ سراج الحسن خاں ، کیپٹن عباس علی وغیرہ کے علاوہ ہم بھی شامل تھے ۔ ہم لوگ حامد انصاری صاحب ، سابق سفیر برائے سعودی عرب اور موجو دہ نائب صدر جمہوریہ کے مہمان تھے ۔ ڈاکٹر حبیب اللہ نے نہ صرف فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران بلکہ سرکاری ضیافتوں میں بھی نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ شرکت کی ۔ ایک دن کہنے لگے ’’اب تو آپ میرے عرفاتی بھائی بھی بن گئے ۔ کوئی تکلیف ہوتو بتایئے ‘‘۔ ہم نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! جو آدمی یہاں آکر آبِ زم زم پی رہا ہو اسے کوئی ڈاکٹر اور کیا دوا پلاسکتا ہے ‘‘۔ ہماری بات کو سن کراچانک آبدیدہ ہوگئے۔ فوراً ہمارا ہاتھ پکڑ کر بولے ’’آپ نے کیا پتہ کی بات کہی ہے ‘‘۔ ڈاکٹر حبیب اللہ صوم و صلوٰۃ کے نہایت پابند تھے ۔ قیاس اغلب ہے کہ شاید ہی ان کی کوئی نماز قضا ہوئی ہو۔ حمایت نگر میں ان کے مطب کے برابر مسجد تھی ۔ اگر وہ کسی مریض کی نبض دیکھ رہے ہوں اور ایسے میں اذان ہوجائے تو وہ نبض تو جیسے تیسے ضرور دیکھ لیتے تھے لیکن نسخہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد آکر لکھتے تھے۔
ڈاکٹر حبیب اللہ کے اُٹھ جانے سے حیدرآباد اپنے ایک نامور سپوت سے محروم ہوگیا ۔ حیدرآباد اب باکمالوں سے خالی ہوتا جارہا ہے ۔ وہ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے ۔
تمہاری نیکیاں زندہ تمہاری خوبیاں باقی
(15 اگست 2010 ء)