ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
پچھلے دنوں ایک لمبے عرصہ بعد ہمارے دیرینہ کرم فرما ڈاکٹر ابو الحسن صدیقی کا خط امریکہ سے آیا تو بہت سی باتیں ، جو یاد تو اکثر آتی رہتی ہیں لیکن جنہیں ہم مقدر کے جبر کی وجہ سے دباکر رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں، بے ساختہ یاد آگئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عین اسی دن صبح کی چہل قدمی کے دوران ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی اور ہمارے ایک اور کرم فرما ہاشم علی اختر بھی یوں ہی یاد آ گئے تھے ۔ ہم برسوں سے صبح کے وقت چہل قدمی کرتے ہیں تو اس بات کا اہتمام کرتے ہیںکہ چہل قدمی کے وقت کوئی اور ہمارے ساتھ نہ رہے کیونکہ جب ہم چلتے ہیں تو ہمارے ساتھ یادوں کا ایک ہجوم بھی چلتا ہے اور ہم ان یادوں میں کسی اور کو شامل نہیں کر نا چاہتے۔ بفضلہ تعالیٰ عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں ہماری جھولی میں ماضی ہی ماضی رہ گیا ہے اور مستقبل جتنا کچھ بھی نظر آتا ہے دھندلا دھندلا سا نظر آتا ہے ۔ ہم نے پچھلے دنوں ماہر امراض چشم ڈاکٹر شیام سندر پرشاد سے کہا بھی تھا کہ ’’ڈاکٹر صاحب ! ہمیں مستقبل نظر نہیں آرہا ہے ‘‘۔ ہنس کر بولے ’’میاں ! اب آپ کو بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہے ۔ یہ حاصل ہوجائے تو دوزخ صاف دکھائی دینے لگے گی‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنا ماضی بھی کچھ اس طرح نظر آتا ہے جیسے یہ اپنا نہ ہو کسی اور کا ہو۔ اس طرح ہمارے شخصی ماضی پر بھی ایک غیر شخصی ماضی کی چھاپ گہری ہوتی چلی جارہی ہے ۔ پھر ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی تو ہمارے اُس ماضی سے تعلق رکھتے ہیں جواب ماشاء اللہ پینتیس برس سے بھی زیادہ پرانا ہوچکا ہے ۔ وہ عابد علی خان مرحوم اور ہمارے بڑے بھائی محبوب حسین جگر مرحوم کے قریبی دوستوں میں رہے ہیں۔ لہذا ان کے احترام میں ہم اپنے آپ کو حتی الامکان بیماریوں سے دور رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔ ایک طبیب حاذق کی حیثیت سے وہ اُن دنوں بھی بڑی شہرت رکھتے تھے اور آج بھی رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اکثر مریض ان کے علاج سے کہیں زیادہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے ہی ٹھیک ہوجایا کرتے ہیں۔ ان کے پاس جاتے ہوئے مریض بخار سے اتنا نہیں لرزتا تھا جتنا کہ خود ان کے خوف سے لرز جاتا تھا ۔ تنک مزاجی اپنی جگہ لیکن جو وقار ، رعب و دبدبہ ، تمکنت اور رکھ رکھاؤ ہم نے ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی میں دیکھا کسی اور ڈاکٹر میں نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مریض اپنے مرض کی کیفیت بھی کھل کر ان سے بیان نہیں کرسکتے تھے لیکن پھر بھی ان کے علاج سے صحت یاب ہوجاتے تھے ۔ لگے ہاتھوں آج ہم یہ اعتراف بھی کرنا چاہتے تھے کہ ہماری مزاح نگاری کے ابتدائی مدّاح اور سرپرست ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی ہی رہے ہیں۔ ہمارے مزاحیہ کالم کو جس ذوق اور اشتیاق کے ساتھ وہ پڑھا کرتے تھے ۔ اس طرح تو کبھی ہم نے بھی اپنا کالم نہیں لکھا ۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر ادیبوں کو خود اپنی ہی تحریریں پڑھنے سے فرصت نہیں ملتی۔ اس زمانہ کے حیدرآباد میں دو ڈاکٹروں کے طوطی بہت زور سے بولا کرتے تھے ۔ ایک توہمارے ایک اورکرم فرما ڈاکٹر سید عبدالمنان اور دوسرے ہمارے ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی۔ ڈاکٹر عبدالمنان کا طوطی تو خیر اب بھی بولتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر منان خود اپنی بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے ذراکم بولنے لگے ہیں۔ ماشاء اللہ 80 برس کے ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر منان اپنی ملنساری، خوش طبعی ، خوش خلقی ، شائستگی ، ادب نوازی اور ’’ادیب پروری‘‘ کے باعث اردو شاعروںاور ادیبوں میں خاصے مقبول تھے اور اب بھی ہیں۔ (حوالے کیلئے ملاحظہ ہو ڈاکٹر منان کے بارے میں اقبال متین کا معرکتہ الآرا خاکہ) ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں بیماروں کے علاوہ اردو شاعروں کی بھی بھیڑ لگی رہتی تھی۔

جہاں تک ہمارا معاملہ ہے ، ہم دونوں ڈاکٹروں کے پاس جاتے تھے ۔ جب کبھی کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاتے جس میں ڈانٹ ڈپٹ کی گنجائش ہوتی تو ڈاکٹر منان کے پاس جاتے تھے اور بنا ڈانٹ ڈپٹ والی بیماریوں کیلئے ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کا رُخ کرتے تھے۔ بعد میں ہمارے لئے ان کا حسن سلوک بڑھنے لگا تو ڈانٹ ڈپٹ والی بیماریوں کیلئے بھی بلا جھجک ان کے پاس جانے لگے ۔ 1966 ء میں ہمیں ایک عجیب و غریب بیماری ہوگئی ۔ ا یک صبح نیند سے جاگ کر ہم نے بستر سے اُٹھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ بستر سے اُٹھنے کے قابل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کو اطلاع ہوئی تو فوراً آگئے ۔ معائنہ کے بعد پو چھا ’’کہیں تم نے زور سے قہقہہ تو نہیں لگایا تھا ‘‘۔ ہم نے کہا ’’رات میں معظم جاہی مارکٹ کے سامنے کسی دوست کی بات پر زور دار قہقہہ لگایا تو تھا ۔ اتفاق سے اس وقت ہم پان بھی کھا رہے تھے ۔ اسی وقت محسوس ہوا تھا کہ ہمارے بدن کا توازن کہیں بگڑ گیا ہے ‘ بولے ’’تمہارے ایک شش (پھیپھڑے) کو سپاری کے ایک نوکیلے ٹکڑے نے پنکچر کردیا ہے اور اس کی پوری ہوا نکل گئی ہے۔ صرف ایک شُش پر زندہ ہو۔ ذرا سی بے احتیاطی سے اگر تمہارے دوسرے شش کی ہوا بھی نکل جائے (خدانخواستہ) تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ پورے ایک مہینہ تک بستر پر آرام کرو اور بات چیت بالکل نہ کرو ۔ آرام کے سوا اس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے ۔ دوسرے شش میں ہوا خود بخود دھیرے دھیرے بھرجائے گی‘‘۔ اس دن البتہ پہلی بار انہوں نے ہمیں ڈانٹتے ہوئے کہا تھا ۔ مزاح نگار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تم بھی قہقہے لگاتے رہو۔ دوسروں کو ضرور ہنساتے رہو لیکن خود بالکل نہ ہنسو۔ مزاح نگار کو ہمیشہ غمگین اور سنجیدہ رہنا چاہئے ۔ ‘‘۔ ہم نے ان کی اس بلیغ بات کواچھی طرح اپنی گرہ میں باندھ لیا تو آج تک اسے نہیں کھولا بلکہ اس کے بعد تو ہم نے پان کھانا تک چھوڑ دیا ۔ چونکہ ہم پر بات کرنے کی پابندی عائد کی گئی تھی اس لئے ہم پرنظر رکھنے کیلئے ڈاکٹر صاحب بسا اوقات عثمانیہ ہسپتال سے اپنا کام ختم کر کے اپنی موٹر میں سیدھے ہمارے اُس گھر پرچلے آتے تھے جو دبیر پورہ کے فرحت نگر میں واقع تھا اور جو سچ مچ ’’غریب خانہ ‘‘ تھا۔ اُس زمانہ میں حیدرآباد میں موٹریں تو اچھی خاصی آگئی تھیں لیکن ہمارے محلہ میں یہ ذرا کم ہی آتی تھیں۔ جیسے ہی ان کی موٹر ہمارے محلہ میں داخل ہوتی تھی محلہ کے سارے بچے ان کی موٹر کے بمپر پر بیٹھنے کے خود ساختہ مقابلہ میں حصہ لینے کو دوڑ پڑتے تھے  نتیجہ میں آدھے کیلو میٹر کی دوری سے ہی ہمیں پتہ چل جاتا تھا کہ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی بچوں کے جلوس کے ساتھ آرہے ہیں اورہم اُن دوستوں کو فوراً گھر سے بھگادیتے تھے جن سے ہم گپ شپ میں مصروف رہا کرتے تھے ۔
پھر ایک دن ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کی انا کو نہ جانے کیا ٹھیس پہنچی کہ ہم جیسے مریضوں کو چھوڑ کر اچانک حیدرآباد سے نکل گئے ۔ پچھلے تیس برسوں میں وہ جہاں بھی رہے ہمیں خط لکھ کر حیدرآباد کا اور ہمارا حال پوچھتے رہے۔ حیدرآباد سے وہ چلے تو گئے لیکن ان کے خطوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھی انہیں حیدرآباد کے چپہ چپہ سے پیار ہے ۔ وہ اکثر ہم سے حیدرآباد کا حال پوچھتے  رہتے ہیں ۔ اب ہم انہیں کیا بتائیں کہ جس حیدرآباد کو وہ تیس برس پہلے چھوڑگئے تھے وہ حیدرآباد اب ہمارے پاس بھی محفوظ نہیں ہے ۔ یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہم اکثر حیدرآباد آتے جاتے رہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کم از کم ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کے ذہن میں تیس برس پہلے کا وہ حیدرآباد جیوں کا تیوں محفوظ ہے جسے دیکھنے کو اب خود ہماری آنکھیں بھی ترستی رہتی ہیں ۔

ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی ہر خط میں ہمارے لئے نہ صرف امریکی مزاح نگاروںکی تحریروں کے تراشے بلکہ کئی ایک کی قیمتی تصانیف بھی ڈاک کا بھاری خرچ برداشت کر کے بھیجتے رہتے ہیں ۔ نئے نئے موضوعات سے بھی ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ تازہ خط میں بھی انہوں نے مینی سوٹا میں ہوئی ایک نوجوان کی شادی کا حال لکھ بھیجا ہے جسے امرکہ کی پہلی ’’جمہوری شادی ‘‘ کہا جارہا ہے جس میں دولہا کے دوستوں نے رائے دہندوں کی خدمات انجام دیں۔ متوقع دلہوں سے کہا گیا تھا کہ وہ پہلے اپنی نامزدگی کے پرچے داخل کردیں۔ خاتون امیدواروں نے رائے دہندوں کے سامنے اپنے خیالات اور نظریات کا پرچار کیا اور بالآخر دولہا کے دوستوں نے جو اصل میں رائے دہندے بھی تھے ، رائے دہی کے ذریعہ ایک دلہن کا انتخاب کیا ۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی نے ا پنے خط میں لکھا ہے کہ امریکہ میں لوگ عموماً تین شادیاں رچاتے ہیں۔ پہلی شادی بیس سال کی عمر میں کرتے ہیں ۔ جب ان کی عمریں چالیس سال کی ہوجاتی ہیں تب تک ان کے بچے بھی بڑے ہوکر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ نتیجہ میں میاں بیوی ایک دوسرے کی صورت دیکھ دیکھ کر بیزار ہونے لگتے ہیں اور اُکتا کر دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اکتاہٹ کی ایک اور لہر آتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر میں وہ تیسری شادی کرلیتے ہیں جو زیادہ پائیدار ثابت ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خط میں ہم سے خواہش کی ہے کہ ہم اپنے کالم میں اس پر اظہار خیال کریں ۔ آپ بتایئے ہم کیا اظہار خیال کریں ، کیونکہ ہم خود اب ساٹھ برس سے اوپر کے ہوچکے ہیں۔ ماشاء اللہ ہم نے خود بیالیس برس کا عرصہ اپنی اکلوتی بیوی کے ساتھ گزارا ہے لیکن اُکتانے کی نوبت اس لئے نہیں آئی کہ شادی کی پہلی ہی رات کو ہماری اہلیہ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ رات چاہے کہیں بھی گزارو لیکن صبح کو اپنے بستر سے اٹھا کرو۔ اس وعدہ پر اب تک قائم ہیں۔ البتہ ڈاکٹر صدیقی کے طویل خط سے ہی ہمیں امریکہ کی شادیوں کے بارے میں مناسب تبصرہ بھی مل گیا ہے ۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس خط کے لکھنے کے دوران میں انہیں تین مرتبہ اپنے قلم کی ری فل (Re-Fill) کو بدلنا پڑا جس کا اظہار انہوں نے اپنے خط میں بھی کیا ہے ۔ آخر میں ہمارا کہنا صرف اتنا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے ایک خط کو لکھتے ہوئے تین Re-Fill بدلے ہیں، اسی طرح امریکی بھی اپنی بیویاں بدل دیتے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے ۔ یوں بھی امریکی معاشرے میں بیوی اور قلم کے Re-Fill میں بہت کم فرق رہ گیا ہے۔

امریکہ کی ایک اور یاد ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی سے نہ ملنے کے واقعہ سے متعلق ہے۔ 1984 ء میں جب ہم پہلی بار امریکہ گئے تھے تو ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی ہزاروں میل کا ہوائی سفر طئے کر کے ہم سے ملنے کیلئے بطور خاص منی سوٹا سے شکاگو آئے تھے ۔ 2000 ء میں ہم دوسری بار امریکہ گئے تو ہمارے قیام کے دوران میں ہر جگہ سے اُن کے فون آتے رہے۔ وہ منی سوٹا میں سکونت پذیر ہیں اور ہم امریکہ میں جہاں بھی گئے ہمارے اورمنی سوٹا کے درمیان کم از کم ڈیڑھ دو ہزار کیلو میٹر کا فاصلہ ضرور برقرار رہا ۔ جون کے تیسرے ہفتہ میں پتہ چلا کہ وہ کسی تقریب کے سلسلہ میں واشنگٹن آرہے ہیں ۔ اتفاق سے ان دنوں ہمارا بھی واشنگٹن جانے کا پروگرام بن گیا ۔ ہم نے سوچا کہ اب ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی سے ملنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا ہے ۔ دل خوشی سے اچھلنے لگا ۔ واشنگٹن بھی عجیب شہر ہے ۔ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا والا واشنگٹن جو امریکہ ا صل صدر مقام ہے ، چھوٹے سے علاقہ پر پھیلا ہوا ہے لیکن یہ چاروں طرف سے میری لینڈ اور ورجینیا کی ریاستوں سے گھرا ہوا ہے ۔ واشنگٹن ڈی سی میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ میری لینڈ اور ورجینیا میں ہی رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی نے بتایا تھا کہ وہ ورجینیا میں اپنے دوست کے گھر مقیم رہیں گے  اور ہم میری لینڈ میں مقیم تھے جن کے بیچ بڑی مشکل سے چالیس پچاس کیلو میٹر کا فاصلہ تھا ۔ اُس دن ہمارے پرانے دوست احمد اللہ قادری نے (جو کسی زمانہ میں عثمانیہ یونیورسٹی کے حلقوں میں اپنی شرارتوں کی وجہ سے بڑے استاد کے نام سے جانے جاتے تھے) ہماری خاطر چھٹی لے رکھی تھی۔ ان سے طئے تھا کہ وہ صبح صبح ہمارے پاس آجائیں گے اور ہم دونوں وہاں سے ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کے ہاں جائیں گے ۔ ڈاکٹر صدیقی نے کہہ رکھا تھا کہ ہم اُن کے پتے کے آس پاس پہنچ کر کہیں سے فون کردیں تو وہ بھی شاہراہ پر آجائیں گے اور ہمارے منتظر رہیں گے ۔ ہم ٹھیک وقت پر نکلے ۔ اُن کے بتائے ہوئے پتے کے آس پاس پہنچ کر فون کیا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر صدیقی کا فون خراب ہوگیا ہے ۔ امریکہ میں فون کبھی خراب نہیں ہوتے لیکن اسے ہماری بدقسمتی نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ احمد اللہ قادری نے ہر گیس اسٹیشن پر جاکر سلومن ڈرائیو  Solomon Driveاور کنگ ڈیوڈ ایونیو کے محل وقوع کے بارے میں جاننے کی کوشش کی لیکن ہر جگہ مایوسی ہوئی ۔ کئی مرتبہ فون کیا لیکن ہر بار یہی معلوم ہوا کہ فون اب بھی خراب ہے ۔ غرض ڈھائی گھنٹوں تک ان کا پتہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔ دوسری طرف ہمارے خضرِ راہ احمد اللہ قادری کے بارے میں بھی ہمیں یہ اندازہ ہوگیا کہ موصوف برسوں سے امریکہ میں رہنے کے باوجود اب بھی حیدرآباد ہی میں رہتے ہیں۔ تھک ہار کے احمد اللہ قادری کے گھر گئے ۔ بہت ساری باتیں ہوئیں ۔ ان کا کلام ہی نہیں مجموعہ کلام بھی سنا۔ شکیلہ بانو بھوپالی کے بارے میں ان کی ایک نظم بھی سنی جسے انہوںنے پینتیس برس پہلے شکیلہ بانو بھوپالی کا کوئی پروگرام دیکھنے کے بعد لکھا تھا ۔ آج بھی وہ یہ نظم پڑھتے ہیں تو ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہں ۔ ان سب باتوںکے باوجود ہمارے دل میں یہ خلش سی رہ گئی کہ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی سے اتنا قریب پہنچنے کے بعد بھی ان سے ہماری ملاقات نہ ہوسکی ۔ امریکہ نے بس اسی ایک معاملہ میں ہمیں مایوس کیا ۔ ان کے فون کی خرابی کے پس منظر میں ہمیں یہ ماننے میں اب بھی تامل ہوتا ہے کہ امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔ اگر ترقی یافتہ ملک ہے تو اس دن ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی کا فون کیوں خراب ہوگیا تھا ۔ سولہ برس کے بعد ان سے ملنے کا ہمیں کتنا اشتیاق تھا اس کا حال ہم کیسے بیان کریں۔ ہم شام کو میری لینڈ واپس ہوئے تو ان کا فون آیا ۔ بہت کوفت میں مبتلا تھے ۔ کہنے لگے امریکہ میں فون عموماً خراب نہیں ہوتے لیکن آج نہ جانے کیا ہوگیا ۔ ہونا کیا تھا اس دن ہماری قسمت خراب ہوگئی تھی ۔ ہزاروں میل دور جاکر بھی اپنے ایک کرم فرما سے ملاقات کے نہ ہونے کی یہ خلش ہمیں ہمیشہ یاد رہے گی۔
(اکتوبر2000 ء)