چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پراجیکٹ میں امریکہ کی شمولیت کا خیرمقدم

صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کا دورۂ چین تاریخی نوعیت کا حامل ہوگا
چین اور امریکہ اب عملی تعاون کے میدان میں
3 تا 14 نومبر ٹرمپ کا دورۂ جاپان، جنوبی کوریا ، ویتنام اور فلپائن
چینی سفیر متعینہ امریکہ کی پریس کانفرنس
واشنگٹن۔ 31 اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) اب جبکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ ماہ چین کے دورہ پر روانہ ہونے والے ہیں۔ چین کے سفیر متعینہ امریکہ نے امریکہ کے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) انیشیٹیو میں حصہ لینے کا خیرمقدم کیا ہے اور یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک اس پراجیکٹ پر کچھ عملی تعاون بھی کرسکیں گے۔ چینی سفیر متعینہ امریکہ کوئی تینکائی نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو دراصل عالمی سطح پر ترقی کا ایک مطالبہ ہے اور اسے باہمی تبادلہ خیال اور تعاون کے ذریعہ ترقی کی منازل سے گذارا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ صدر چین ژی جن پنگ نے بی آر آئی کے ذریعہ ترقی کی حکمت عملی کی تجویز پیش کی تھی تاکہ ’’یوریشین‘‘ ممالک کے دوران باہمی ربط و تعاون کا سلسلہ جاری رہے۔ اس انیشیٹیو کو ہم نے جغرافیائی طور پر محدود نہیں کیا ہے بلکہ یہ دنیا کے تمام ممالک کے لئے کھلا ہے لہذا اب اگر امریکہ نے اس میں شمولیت کی ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ آج ایسے ہزاروں سیاسی ماہرین اور انٹرپرینرس ہیں جو اس انیشیٹیو میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان میں سے کچھ کے ساتھ ہم نے گفت و شنید بھی کی ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسٹر کوئی نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ اس انیشیٹیو کے ذریعہ ہم اپنے تعلقات اور مواصلات کو مزید گہرائی تک لے جائیںگے۔ چین اور امریکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے ذریعہ اب عملی تعاون کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ انہوں نے البتہ وضاحت کی کہ چین اور امریکہ کے درمیان حکمت عملی کی مسابقت نہیں ہوگی کیونکہ دونوں ممالک کے پھلنے پھولنے کے پورے مواقع موجود ہوں گے اور اس طرح رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی چین یا امریکہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے اور یہی راستہ ہمیں تلاش کرنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نام نہاد ’’چائنا ماڈل‘‘کو جس طرح پیش کیا گیا ہے،

اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کو ترقی کے لئے ایک مخصوص وضع یا شکل کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ملک اپنے قومی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی کی جانب پیشرفت کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ہر ملک کا ایک روایتی ترقیاتی ماڈل بھی ہونا چاہئے۔ بس اسی کا نام چائنا ماڈل ہے جس کے ذریعہ دنیا کے تمام ممالک کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے جغرافیائی اور قومی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی کریں۔ مسٹر کوئی نے کہا کہ انگریزی میں ایک اصطلاح ہے ’’تمام راستے روم کی طرف جاتے ہیں‘‘ لہذا ہر ملک کو صرف وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جو اس کے لئے مناسب ہو۔ انہوں نے کہا کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کا دورۂ چین تاریخی نوعیت کا ہوگا۔ یاد رہے کہ چین میں حال ہی میں 19 ویں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کانگریس کے انعقاد کے بعد ٹرمپ چین کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے۔ اس کانگریس کے انعقاد کے بعد آئندہ کچھ دہوں میں چین کی زبردست ترقی کا بلیو پرنٹ تیار ہوچکا ہے۔ بہ الفاظ دیگر آئندہ کچھ دہوں میں چین کی مزید ترقی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ کانگریس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ چین پرامن ترقی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اسی راستہ پر گامزن رہے گا جبکہ دیگر ممالک کو بھی وِن۔ وِن (برابری کا موقع) موقف عطا کرتے ہوئے ان کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گا جبکہ اس کے ذریعہ دیگر طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو بھی اہمیت دی گئی ہے لہذا چین میں اس وقت جو صورتحال ہے، اس کے تحت یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا دورۂ چین انتہائی کامیاب ہوگا۔ مجھے اُمید ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک چین اور امریکہ جو دنیا کی پہلی اور دوسری اعظم ترین معیشتیں ہیں، ایک ایسا روڈ میاپ تیار کریں گے جس کے تحت بین الاقوامی برادری میں اپنا مناسب رول ادا کرتے ہوئے تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے جن میں عالمی سطح پر پائے جانے والے چیلنجس کا سامنا کرنا بھی شامل ہے۔ ٹرمپ، جاپان، جنوبی کوریا، چین، ویتنام اور فلپائن کا 3 تا 14 نومبر دورہ کریں گے جو اس خطہ میں بحیثیت امریکی صدر ان کا پہلا سرکاری دورہ ہوگا۔