چین نے امریکہ کا چین و سکون چھین لیا …

محمد ریاض احمد
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ایسا لگتا ہے کہ شدت اختیار کرگئی ہے جس کے اثرات یقینا عالمی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کا انتظامیہ چین پر حقوق اختراع کے سرقہ کا الزام عائد کرتا ہے۔ ٹرمپ کو امریکہ اور چین کے درمیان پائے جانے والے تجارتی خسارہ پر بھی کافی تشویش ہے۔ انہیں اس بات پر برہمی ہے کہ چین ۔ امریکہ کو فروخت زیادہ کرتا ہے۔ اس سے خریدتا بہت کم ہے۔ دونوں ملک کی باہمی تجارت اگرچہ بہت اچھی ہے لیکن ان کی درآمد و برآمد کے درمیان کافی فرق پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین سے امریکہ جتنا سامان یا اشیاء برآمد کرتا ہے اتنا سامان یا اشیاء چین امریکہ سے نہیں خریدتا۔ اس باہمی تجارت میں چین کے مقابل امریکہ کو شدید تجارتی خسارہ کا سامنا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ چینی سامان امریکی سامان کی بہ نسبت سستا ہوتا ہے۔ امریکہ میں چینی سامان کی بہت مانگ بھی ہے۔ اس کے برعکس چین میں امریکی سامان کی زیادہ مانگ نہیں ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان گزشتہ سال فروری تک تجارتی خسارہ 285 ارب ڈالرس کے لگ بھگ تھا اس فرق نے تو ٹرمپ انتظامیہ کی نیندیں حرام کردیں۔ اپنی پریشانی دورکر نے کا ٹرمپ نے ایک طریقہ نکالا اور وہ چینی اشیاء پر زیادہ سے زیادہ محصول یا ٹیکس عائد کرنا ہے۔ ویسے بھی امریکہ عالمی سطح پر چین کی بڑھتے اثر و رسوخ سے کافی پریشان ہے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں چین کے باعث امریکی ساکھ داو پر لگی ہوئی ہے۔ امریکہ کا ماننا ہے کہ چینی حقوق اختراع کے سرقہ میں ملوث ہیں وہ ڈیزائن اور مصنوعات کے آئیڈیاز کی چوری کا بھی چین پر الزامات عائد کرتا ہے، لیکن امریکہ کو اندازہ نہیں کہ اس کے اور چین کے درمیان اصل میں صلاحیتوں اور مفادات کا ٹکراو ہے۔ حال ہی میں وائٹ ہاوس نے برسر عام کہا ہے کہ اس نے ایک ہزار سے زائد مصنوعات کی فہرست تیار کی ہے جن پر 25 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک چین سے ٹرمپ کی تجارتی جنگ چھڑنے کا سوال ہے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی وہ چین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ان کا یہی دعویٰ تھا کہ چین امریکہ کے خلاف غیر منصفانہ تجارتی پالیسی اپنا رہا ہے۔ اگرچہ ساری دنیا جنگ کی مخالفت کرتی ہے لیکن ٹرمپ وہ واحد شخص ہیں جن کے خیال میں تجارتی جنگ آسان اور بہتر ہے اور انہیں چینی اشیا پر محصول میں اضافہ کرنے میں کوئی جھجھک بھی نہیں ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران انہوں نے ہندوستان پر بھی اس کی تجارتی پالیسی پر تنقید کی تھی۔ آپ کو بتادیں کہ ٹرمپ جس ٹیرف یا ٹیکس نافذ کرنے کی بات کررہے ہیں یہ دراصل بیرونی ملکوں میں تیار کی جانے والی اشیاء پر عائد کیا جانے والا ٹیکس ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ جس سامان پر چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی زیادہ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تو اس کی قیمت میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔ ٹرمپ کی اس اقتصادی جنگ کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت میں خدمات کے شعبہ کا حصہ 90 فیصد ہے۔ ایسے میں خود امریکی ٹرمپ کی اس چیخ و پکار کو پسند بھی نہیں کررہے ہیں۔ جہاں تک تجارتی تحفظ پسندی Protectionism کا سوال ہے۔ ہر ملک اپنے ملک کی صنعتی ترقی کا خواہاں رہتا ہے۔ تحفظ پسندی اسے غیر ملکی صنعتی مسابقت سے بچاتی ہے، لیکن صرف تحفظ پسندی کے نام پر دوسرے ملکوں سے تجارتی تعلقات خراب کرلینا موجودہ دور میں جبکہ دنیا ایک عالمی گاوں میں تبدیل ہوچکی ہے دانشمندی کی علامت نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جب سے عہدہ صدارت پر فائز ہوئے ہیں عجیب و غریب اقدامات کررہے ہیں۔ آئے دن وہ اپنے وزراء مختلف ایجنسیوں کے سربراہوں اور وائٹ ہاوز کے ارکان عملہ میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اقدامات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ القدس یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کرکے بھی ٹرمپ نے عالم اسلام اور دنیا کے انصاف پسند عوام میں امریکہ کو ذلیل و خوار کردیا ہے۔

اس کی ساکھ متاثر کرکے رکھ دی ہے۔ شاید ٹرمپ کو اندازہ نہیں کہ موجودہ دور میں حکمرانوں اور حکومتوں کی نہیں بلکہ عوام کو اہمیت حاصل ہے۔ جب بعض عرب ملکوں کی حکومتوں حکمرانوں اور سرکاری اداروں نے عوام پر ظلم و جبر کیا رشوت خوری کو فروغ دیا تب 2011 میں بہار عرب کی سونامی نے ان کے اقتدار، رعب و دبدبہ اور شخصی پہچان کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔ مصر میں30 سے زائد برسوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے حسنی مبارک کو ذلت آمیز زوال سے دوچار ہونا پڑا۔ تیونس میں 24 برسوں سے اقتدار پر رہ کر داد عیش دینے والے زین العابدین بن علی کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکا۔ عوام کے غیض و غضب نے یمن میں کئی دہوں پر محیط صدر علی عبداللہ صالح کے اقتدار کا خاتمہ کردیا، عوام جب ظلم و بربریت ناانصافی سے تنگ آئے تو لیبیا میں کرنل معمر قذافی کو نہ صرف اپنے 42 سالہ اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ایک ذلت آمیز موت بھی ان کا مقدر بن گئی وہ زندگی کی بھیک مانگتے رہے اور جواب میں ان کے سر میں گولیاں داغ دی گئیں۔ ان کے جسم پر موجود لباس تار تار کردیا گیا۔ اُن طاقتور حکمراں کے عبرت ناک انجام ہر اس حکمراں کے لئے نازیانہ عبرت ہے جو اقتدار اور دولت و طاقت کے نشہ میں چور ہوکر انسانیت کی دھجیاں اڑا رہاہے۔ جانبداری کے ذریعہ ظالم کی مدد اور مظلوم سے ناانصافیوں کو یقینی بنا رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کے معاملہ میں ایسی ہی پالیسی اختیار کی ہے۔ ٹرمپ کو یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ ان کا ملک کئی ایک ضروری اشیاء کے لئے دوسرے ملکوں پر انحصار کرتا ہے جس میں مختلف دھاتیں بشمول فولاد بھی شامل ہیں۔ اگر بڑی جنگ چھڑ جاتی ہے تو امریکہ کے یہاں اتنا فولاد نہیں کہ وہ کثیر مقدار میں اسلحہ اور گاڑیاں تیار کرسکے۔

یہی وجہ تھی کہ مارچ کے اوائل میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹیل کی درآمدات پر 25 اور المونیم کی درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسٹیل کی درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے سے کینیڈا جیسے ممالک امریکہ سے ناراض ہوئے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے امریکہ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ کار اور طیارہ و جہاز ساز کمپنیاں خام مال کی قیمتوں میں اضافہ پر اپنی مصنوعات میں بھی اضافہ پر مجبور ہو جائیں گی اور قیمتوں میں اضافہ سے کوئی حکومت نہیں بلکہ عام صارفین متاثر ہوں گے۔ اس سے امریکہ میں مہنگائی بڑھے گی۔ ویسے وہاں بیروزگاری بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ٹرمپ دوسرے ملکوں سے آنے والی اشیا پر ٹیکس عائد کرنے یا ٹیکس میں اضافہ کی جو باتیں کررہے ہیں اس سے عالمی معیشت پر ضرور اثر پڑے گا اور فراخدلانہ یا آزاد تجارت کے نظام کو نقصان پہنچے گا۔ ٹرمپ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ فی الوقت افغانستان میں امریکی فوج بری طرح پھنس چکی ہے۔ مسئلہ فلسطین پر اس کی خارجہ پالیسی سے عالم اسلام برہم ہے، شمالی کوریا سے بھی امریکہ نے تعلقات بگاڑ لئے ہیں۔ چین کے خلاف تجارتی جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ ان حالات میں مخالف کو کمزور سمجھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ چینی قیادت نے سلجھے ہوئے انداز میں ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب دیا ہے۔ اس نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ تجارتی جنگ کا خواہاں نہیں ہے ہاں اگر امریکہ نے اس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو وہ پاکستان یا دوسرے ملکوں کی طرح خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ’’عقلمند کو اشارہ کافی‘‘ ٹرمپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ چین کو تجارتی جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں جو پاکستان یا کوئی اور مسلم ملک نہیں ہے وہ چین ہے چین جو پہلے ہی سے مختلف شعبوں میں امریکہ کا سکون چین چھین چکا ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (عالمی مالیاتی ادارہ) اور عالمی تنظیم تجارت نے تو کھلے عام ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرنے امریکیوں کو شرمندہ کردیا ہے۔ ان دونوں تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے امریکہ کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کی معیشت بھی ناقابل تصور نقصانات سے دوچار ہو جائیں گی۔ ٹرمپ سالانہ 800 ارب ڈالرس کے تجارتی خسارہ کا رونا رو رہے ہیں جبکہ ہر ملک تجارتی خسارہ برداشت کرتا ہے اور عالمی معاشی و تجارتی نظام کا یہ ایک حصہ ہے۔ انہیں یہ بھی تو غور کرنا ہے کہ امریکہ کو دوسرے ملکوں سے تجارتی خسارہ سے کہیں گنا زیادہ فائدہ بھی ہو رہاہے۔ واضح رہے کہ 2017ء میں امریکہ اور چین کی باہمی تجارت 580 ارب ڈالرس سے تجاوز کرگئی تھی۔ ٹرمپ نے اگرچہ دوسرے ملکوں کی مصنوعات پر محاصل عائد کرنے یا محاصل میں اضافہ کا اعلان کیا ہے اس کا جواب چین سے پہلے یوروپی یونین نے دے دیا ہے۔ یوروپی یونین کے رکن ممالک کی حکومتوں نے امریکہ سے آنے والی درآمدات پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ چینی حکومت نے امریکہ سے چین درآمد کی جانے والی 128 مصنوعات پر ڈیوٹی وصول کرنے کا اعلان کیا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com