چیف منسٹر کی افطار پارٹی

 

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں دوبارہ اقتدار کی خواہش میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ خود کو عوام کا خدمت گار یا خادم کہلانے میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔ سماج کے ہر طبقہ کو خوش رکھنا مشکل امر ہے پھر بھی انھوں نے اس مشکل امر کو امربنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کیلئے بہت کچھ کرنے کا منصوبہ رکھنے والے چیف منسٹر نے ہر سال کی طرح اس سال بھی مسلمانوں کیلئے فتح میدان پر بڑے اہتمام کے ساتھ افطار پارٹی رکھی ہے۔ پہلی مرتبہ اس افطار پارٹی کے خلاف مفاد عامہ کی درخواست داخل کی گئی ہے۔ درخواست گذارکو شکایت ہے کہ حکومت نے غیر ضروری افطار پارٹی کے ذریعہ ریاستی خزانہ پر لاکھوں روپئے کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ چیف منسٹر کی انتظامی صلاحیتیں بلا شبہ تعریف کے قابل ہیں وہ کسی مخالف کو بھی وقت آنے تک موقع دیتے ہیں اور اپنی افسر شاہی سے کام کروانا بخوبی جانتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب وہ دوسری میعاد کے لئے منتخب ہوں گے تو تلنگانہ میں ان کے ترقیاتی کاموں اور ان کی انتظامی صلاحیتوں کے باعث تیزی سے ترقی کی اُمید کی جاتی ہے۔ افطار پارٹی کے ذریعہ وہ یا کسی بھی پارٹی کا لیڈررمضان المبارک کے موقع پر مسلمانوں کو قریب کرنے کے ایک اچھے موقع سے استفادہ کرتا ہے۔

آر ایس ایس کی فرقہ پرستی سے سب واقف ہیںاور اس کی مسلم دشمنی عیاں ہے اس کے باوجود آر ایس ایس کے آدمیوں نے حیدرآباد میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا۔ افطار پارٹی سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے تو اس کے انتظامات بھی سیاسی طرز کے ہی کئے جاتے ہیں مگر جو افطار پارٹیاں خالص روزہ داروں کے لئے پاکیزگی سے دی جاتی ہیں ان محفلوں کی رونق ہی الگ دکھائی دیتی ہے۔ لب سڑک سیاسی افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو بعض سماجی تنظیموں نے ایسی لب سڑک افطار پارٹیوں کے خلاف مہم شروع کی ہے۔ مگر رمضان المبارک کے موقع پر ایسی پارٹیاں صرف ایک ماہ کی مصروفیت سمجھنے والے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ افطار پارٹیوں کیلئے موثر انتظامات کرنے والے خانگی اداروں کی تعدد بھی بڑھ رہی ہے کسی کو افطار پارٹی کا انتظام کرنا ہے تو آپ صرف آرڈر دیجئے سارا انتظام خود بخود ہوجائے گا۔ آپ کی جیب سے کریڈٹ کارڈ سویپ کردیجئے اور مہمانوں کیلئے افطار کے لوازمات سربراہ کردیئے جائیں گے۔ جن کو اعتراض ہے وہ خود کو اس معترض ماحول میں مصروف رکھتے ہیں جن کو افطار پارٹیوں سے استفادہ کرنا ہے وہ سیر ہوکر افطار کرتے ہیں۔
افطار کے وسیع و عریض دستر خوان، رب ذوالجلال کی عطاء کردہ انواع و اقسام کی نعمتوں سے سجے ہوتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر اجتماعی دستر خوان کا اہتمام بندگان خدا کیلئے بھی ہوتا ہے جن میں ہر مذہب کا فرد حصہ لے کر روزہ داروں کے ساتھ خود بھی افطار کے لوازمات سے سیر ہوتا ہے۔ اس ماہ کی فضیلت تمام سال نہیں ملتی، اس لئے مسلمان تو اس ماہ کی رحمتوں، برکتوں اور عبادتوں اور سعادتوں کے حصول میں عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔ دیگر بندگان خدا ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کو سلام کرتے ہیں، اس سلام کے حصہ کے طور پر افطار پارٹی کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ یہ ایک جذبہ خیرسگالی کا اظہار ہے۔ تلنگانہ میں بالخصوص حیدرآباد میں رمضان المبارک کی برکتیں، سعادتیں الگ دکھائی دیتی ہیں۔ ہر مسلم دل اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کا غلام بن جانے پر آمادہ ہوتا ہے اور ہردست صدقات، خیرات اور زکوٰۃ دینے پر مائل نظر آتا ہے۔ قلب اور ذہن کی اس کیفیت کا ماحول بھی بھرپور ساتھ دیتا ہے۔ حیدرآباد میں زکوٰۃ دینے کا عمل وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف حیدرآباد کے مسلمان سالانہ 1000 کروڑ روپئے زکوٰۃ دیتے ہیں۔ حیدرآباد کی سڑکیں، گلی کوچے، محلے رمضان کے دوران ایک منفرد روح پرور منظر پیش کرتے ہیں۔ حکومت نے بھی تلنگانہ کے مستحق مسلمانوں کیلئے رمضان کٹس جاری کئے ہیں۔ حکومت سے ہٹ کر مسلم خانگی ادارے اور اہل خیر حضرات بھی راشن کی تقسیم اور عید گفٹ کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں۔

تراویح کا خاص اہتمام، یک شبی شبینہ، دو شبی شبینہ اور سہ شبی شبینہ کی محافل، قرأت کی صدائیں اور مخصوص مساجد میں خواتین کیلئے علحدہ تراویح کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ شہر حیدرآباد عبادات، صدقات، خیرات کے معاملے میں دیگر شہروں سے آگے ہے، اس لئے ملک بھر کے غرباء، فقراء ہر سال رمضان میں شہر کا رُخ کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں مسلم اکثریتی آبادی ہونے کی وجہ سے بھی یہاں جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے غرباء بھی رمضان میں زکوٰۃ، خیرات، فطرہ حاصل کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ حیدرآباد میں غرباء کی مدد کرنے والے ادارہ، یتیم خانے چلانے والے اور دیگر تنظیمیں ایک ماہ کے اندر اہل خیر حضرات سے زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات وصول کرکے سال بھر کے خرچ کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ 100 سے زائد بڑے خیراتی ادارے کام کررہے ہیں۔ رمضان المبارک نے امت مسلمہ کو بہت سے پیغام دیئے ہیں جن میں افضل ترین پیغام شکر و صبر کا جذبہ، قناعت اور تحمل سے کام لینے کی تلقین ہے۔ خدمت کی راہ دکھائی جاتی ہے اور دوسروں کے کام آنے کا درس بھی ملتا ہے لیکن دعوت افطار کا جھگڑا جب عدالت پہنچادیا گیا ہے تو پھر افطار کے تقدس کو دنیا کی مالی اور اخلاقی برائی کی موجد سیاسی مفاد پرستی ہے جہاں سے نئی نئی کہانیاں اور مسائل ایجاد کئے جاتے ہیں۔ کسی پر طنز کرنا، کسی کو تنازعہ میں گھسیٹنا یا کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا معاشرہ کی پہچان بن چکی ہے۔ لوگ تو اپنے مطلب اور مفاد کی بات پر ہی توجہ دیتے ہیں، اپنے حق میں اچھا ہے تو یہ اچھا ہی ہوگا اور اگر حق میں نہ ہو تو اسے برا کہا جائے گا۔ رمضان میں مولوی صاحبان کی بھی خوب چل پڑتی ہے، گناہ، دوزخ اور جنت کے بارے میں ان سے بہتر کون درس دے سکتا ہے۔ شرارتاً لڑکی مولوی صاحب کو آزمانے کیلئے پہنچی اور پوچھا : اگر میں کسی لڑکے سے محبت کروں تو کیا یہ گناہ ہوگا…؟ مولوی صاحب بولے ارے کمبخت توبہ کر ورنہ سیدھا دوزخ میں جاؤ گی… لڑکی بولی اور اگر مولوی صاحب آپ سے محبت کروں تو… ؟ مولوی صاحب خوشی سے تمتاتے ہوئے چہرے کے ساتھ بولے بہت شریر ہے، جنت میں جانے کا ارادہ ہے…!

حکومت کی دعوت افطار ہو یا گورنر کی افطار پارٹی یہ روایتی و باہمی اتحاد و بھائی چارگی کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس میں جب غیر متوقع طور پر آر ایس ایس کے لوگ دعوت افطار کا اہتمام کرتے ہیں تو یہ مشکوک ہوجاتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی دعوت افطار کی لت کسی کو لگ جاتی ہے تو وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ بہر حال سیاست اقتدار کا کھیل ہوتا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیئے۔ مختصر یہ کہ جس خدمت سے غرض وابستہ ہوجائے وہ خدمت نہیں بلکہ صرف سیاست بن جاتی ہے۔ چیف منسٹر صاحب عوام کے خادم ہیں، ان کی خدمت کررہے ہیں اور خود کو خادم اعلیٰ یعنی وزیر اعلیٰ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ سال 2019 پر نظر ہے اور خادم کے پکے ووٹروں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے وعدوں کی اسپیڈ اتنی تیز ہے کہ اب تک کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ رمضان میں برقی سربراہی بد سے بدتر ہورہی ہے اور بلا خلل برقی سربراہی کا وعدہ پورا نہیں ہوا ہے۔
kbaig92@gmail.com