چیف منسٹر کی آج دعوت افطار، علماء و مشائخین اُلجھن کا شکار

مسجد یکخانہ پر مقامی جماعت کی خاموشی، دعوت کو کامیاب بنانے عہدیدار متحرک
حیدرآباد۔یکم جون، ( سیاست نیوز) مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کی شہادت کے مسئلہ پر مسلمانوں میں پائی جانے والی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے مذہبی جماعتوں کے ذمہ دار اور علماء و مشائخین 2 جون کو چیف منسٹر کی دعوت افطار میں شرکت کے بارے میں اُلجھن کا شکار ہیں تو دوسری طرف حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کی اس دعوت کو کامیاب بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ سوشیل میڈیا پر حکومت کی تائید کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین سے عوام مسلسل اپیل کررہے ہیںکہ وہ افطار پارٹی میں عدم شرکت کے ذریعہ مسجد کی شہادت پر اپنی ناراضگی کا اظہار کریں۔ حکومت کی حلیف جماعت کی اس مسئلہ پر خاموشی مسلمانوں میں بحث کا موضوع بن چکی ہے۔ مکہ مسجد میں جمعۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطاب میں مقامی جماعت کے صدر نے قومی اور بین الاقوامی مسائل کا احاطہ کیا لیکن شہر میں مسجد کی شہادت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا جس سے مسلمان مایوس ہیں۔ مقامی جماعت نے ابتداء میں مسجد کی دوبارہ تعمیر کیلئے رسمی احتجاج کیا لیکن بعد میں خود کو اس تحریک سے علحدہ کرلیا۔ اب جبکہ چیف منسٹر کی دعوت افطار میں مذہبی شخصیتوں کی شرکت اہمیت کی حامل ہے مقامی جماعت نے اپنی گودی تنظیموں پر دباؤ بنانا شروع کردیا ہے کہ وہ اپنے ذمہ داروں کو دعوت افطار میں شرکت کیلئے مجبور کریں۔ خود حلیف جماعت کے صدر بھی شرکت کرسکتے ہیں۔ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں ٹی آر ایس کی کھل کر تائید کرنے والی مذہبی جماعتیں اور علماء و مشائخین مسلمانوں کی ناراضگی سے فکر مند ہیں۔ انہیں ایک طرف حکومت تو دوسری طرف شہر کی مقامی جماعت کے دباؤ کا سامنا ہے۔ 8000 مدعوئین میں سے مسجد کے مسئلہ پر کسی کی جانب سے احتجاج کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے پولیس کے خصوصی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ بعض مذہبی شخصیتوں نے بائیکاٹ کے بجائے افطار پارٹی میں شرکت کرتے ہوئے چیف منسٹر سے نمائندگی کی تجویز پیش کی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کونسی تنظیم چیف منسٹر کو مسجد یکخانہ کی شہادت کے خلاف اور اس کی دوبارہ تعمیر کے حق میں یادداشت پیش کرنے کی پہل کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرے گی۔ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین بھی دعوت افطار کے طریقہ کار سے ناراض ہیں۔ وزیر داخلہ نے شہر کے اقلیتی قائدین اور مختلف سرکاری اداروں کے صدور نشین کو اہم شخصیتوں کو لانے کی ذمہ داری دی ہے۔ وزیر داخلہ کے طلب کردہ اجلاس میں پارٹی قائدین کے اختلافات کھل کر منظر عام پر آگئے۔ یہ پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کے کسی حساس مسئلہ کے باوجود چیف منسٹر نے کوئی تیقن نہیں دیا اور اپنی حلیف جماعت کے سہارے دعوت افطار کا اہتمام کررہے ہیں۔