چیف منسٹر کو مرکز سے قریب ہوکر رہنے میں دلچسپی

 

تلنگانہ ، اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
صدارتی امیدوار کیلئے مرکز کی این ڈی حکومت کی نامزد کردہ شخصیت رامناتھ کووند کو حکومت تلنگانہ کی تائید اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی رامناتھ کووند کی پرچہ جات نامزدگی کے ادخال کے وقت موجودگی کے فیصلہ سے مرکز۔ ریاست تعلقات کو مستحکم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح صدارتی امیدوار کو متفقہ طور پر منتخب کرنے میں ناکام مرکزی بی جے پی حکومت کو ریاستوں کے لیڈروں اور علاقائی پارٹیوں کی تائید پر انحصار کرنا پڑے گا تو تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو مرکز سے قریب ہوکر کام کرنے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے بھی صدارتی امیدوار کووند کی حمایت کی ہے۔ دو تلگوریاستوں نے ایک دلت امیدوار کو اپنی تائید کا اعلان کیا ہے جبکہ اپوزیشن کانگریس نے سابق اسپیکر لوک سبھا میرا کمار کو این ڈی اے امیدوار رامناتھ کووند کے مقابلہ امیدوار نامزد کیا ہے اور پھر دلت لیڈروں کے درمیان انتخابات کی دوڑ بلا شبہ الکٹورل کالج کی اہمیت سے آگے بڑھے گی۔ بہر حال مرکز اور ریاستوں کے درمیان صدارتی انتخابات کے لئے جاری کوششوں کے درمیان حکومت تلنگانہ کو داخلی طور پر اُٹھنے والی پریشانیوں سے بے خبر رہنا نہیں ہے کیوں کہ جیسے جیسے سال 2019 قریب آرہا ہے عام انتخابات میں ٹی آر ایس کے خلاف مورچہ بندی کرنے والی سیاسی، سماجی تنظیموں نے اپنا زور تیز کردیا ہے۔ تلنگانہ جے اے سی چیرمین پروفیسر کودنڈا رام نے سنگاریڈی میں ضلع ہیڈکوارٹرس سے سپرتھی یاترا شروع کرتے ہوئے تلنگانہ تحریک کے دوران شہید ہونے والوں کے مقاصد کو حاصل کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ پر الزام عائد کیا کہ وہ عوام کے مسائل کو چھوڑ کر اپنے فارم ہاوز اور پرگتی بھون تک ہی خود کو محدود رکھا ہے۔ چیف منسٹر نے تلنگانہ کے حصول کیلئے جدوجہد کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ غریب دلتوں کو 3 ایکر اراضی دیں گے۔

مرکز میں صدر جمہوریہ کے لئے ایک دلت لیڈرکی حمایت میں مودی حکومت کا ساتھ دینے والے چیف منسٹر کو اپنی ریاست کے دلتوں سے کئے گئے وعدہ کی فکر نہیں ہے۔ چیف منسٹر نے جب وعدہ کیا تھا کہ اراضی دی جائے گی تو سرکاری اراضیات موجود تھیں، اب وہ یہ عذر پیش کررہے ہیں کہ دلتوں کو دینے کیلئے ارضیات نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہزاروں ایکڑ اراضی اپنی ہی پارٹی کی سیاسی طاقتوں میں تقسیم کردی گئی ہے۔ تلنگانہ بنائے جانے کے بعد سے ایک فرد کو بھی ملازمت نہیں دی گئی ۔ سرکاری ملازمت کی امید میں ہزاروں نوجوان حیدرآباد میں مختلف کورسیس سیکھ رہے ہیں۔ قرض لیکر تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن یہ حکومت عام آدمی تک پہنچنے میں ناکام ہوئی ہے۔ عام انتخابات کے قریب آنے تک حکومت کے خلاف کئی محاذ کھل جائیں گے، ایسے میں چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کو اپنی حکومت اور 5 سالہ کارکردگی کے بارے میں عوام کے سامنے سچائی کے ساتھ پیش ہونے کی ضرورت ہوگی۔ ملازمتوں کی فراہمی اور ان پانچ سال کے دوران انجام دیئے گئے کاموں اور تقررات کے بارے میں بھی تفصیلات پیش کی جاسکتی ہیں۔ حکومت نے ریاست میں فاریسٹ بیٹ آفیسرس FBOs کی 1857 جائیدادوں پر تقررات کیلئے احکامات جاری کئے ہیں ۔ اس طرح محکمہ پولیس میں بھی ہزاروں مخلوعہ جائیدادوں کیلئے تقررات عمل میں لائے جارہے ہیں۔ ٹی آر ایس کو اپنی حکومت کی دوسری میعاد کو یقینی بنانا ہے تو اپوزیشن کی انتخابی تیاریوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔ دلت کو صدارتی امیدوار کیلئے نامزد کرنے اور اس کی تائید کرنے ٹی آر ایس کے فیصلہ سے تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو دلتوں کی ہمدردی اور تائید ضرور حاصل ہوگی۔ لیکن اپوزیشن کانگریس نے تلنگانہ میں ایس سی اور ایس ٹی نشستوں کو جیتنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کردیا ہے۔
کانگریس نے ’’ مشن 31 ‘‘ پروگرام کو روبہ عمل لاکر پنجاب ماڈل کو دوہرانے کا منصوبہ بنایا ہے کیونکہ پنجاب میں دلتوں، قبائیلیوں اور درج فہرست ذاتوں کے قریب ہونے کی پالیسی نے کانگریس کو اقتدار پر پہنچادیا ہے۔ تلنگانہ میں بھی ’’ مشن 31‘‘ کے تحت علاقائی قیادت کو خاص کر ایس سی، ایس ٹی کی قیادت کو مضبوط بنانا ہے۔ تلنگانہ کی 31 محفوظ نشستیں برائے ایس سیز اور ایس ٹیز کو حاصل کرنا کانگریس کیلئے اہم ہے۔ کانگریس کی حکمت عملی بھی غور طلب ہے۔ اس کے منصوبہ کے مطابق وہ دلت طبقہ کے علاوہ دیگر ذاتوں کے اندر قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افرادکو قیادت سونپ کر انھیں پارٹی کے حق میں کام کرنے کے لئے مقرر کیا جائے گا۔ ریاست تلنگانہ کے درج فہرست ذاتوں اور قبائیلوں کے لیڈروں کو بھاری ذمہ داریاں دی جائیں تو یقیناً ووٹ فیصد میں اضافہ ہوگا۔ تلنگانہ میں اراضی اسکام کے الزامات سے دوچار پارٹی ارکان کو اپوزیشن کے شدید حملوں کا بھی شکار ہونا پڑیگا۔ آندھرا پردیش میں بھی اراضی اسکام نے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی شبیہہ کو مشکوک بنادیا ہے، اب اپوزیشن کو اچھا موقع ہاتھ آیا ہے۔ تلنگانہ کے ضلع میں دو اراضی اسکام ہوئے ہیں۔ آندھرا پردیش کے ضلع وشاکھاپٹنم میں ایک اسکام ہوا ہے۔ تلنگانہ میں 692 ایکڑ اراضی کا گھپلہ اور آندھرا میں 270 ایکڑ اراضی ہڑپ لی گئی۔ تلنگانہ میں اراضی اسکامس کے سلسلہ میں کہا جارہا ہے کہ دراصل یہ برائی اور خرابی تلگودیشم حکومت کے دور میں ہی شروع ہوئی۔ اسکام کا ’’ بیج ‘‘ تلگودیشم نے بویا تھا اور اس کی آبیاری کانگریس کے دور میں ہوئی۔ ٹی آر ایس کو ایک پھل دار درخت مل گیا ہے تو وہ اس سے استفادہ کررہی ہے۔

ٹی آر ایس کے مطابق وہ تلگودیشم اور کانگریس حکومتوں کے دور میں ہوئے اسکام سے ہٹ کر ایک نئی نظیر قائم کی ہے کیونکہ اراضی کو ٹی آر ایس کے مضبوط لیڈروں میں ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ بہر حال اپنے 3 سالہ ہنی مون کے مزے لوٹنے والے چیف منسٹرکے چندر شیکھر راؤ کو آئندہ عام انتخابات غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ اسمبلی میں 90 فیصد نشستیں جیتنے کے دعویٰ کے ساتھ میدان میں اُتر رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ٹی آر ایس کی پانچ سالہ حکمرانی سے خوش ہوکر عوام کی بڑی تعداد ٹی آر ایس کو ہی ووٹ دے گی۔ ٹی آر ایس نے مختلف اسکیمات کے ذریعہ تمام رائے دہندوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ کے سی آر کو توقع ہے کہ ان کی حکومت کی اسکیمات سے فائدہ حاصل کرکے جملہ 60 لاکھ خواتین میں سے تقریباً 30 لاکھ خواتین کے ووٹ حاصل ہوں گے۔ آسرا پنشن، تنہا رہنے والی خاتون کو وظیفہ، حاملہ خواتین کو امداد، کے سی آر کٹس، کلیان لکشمی اور شادی مبارک اسکیم سے خواتین کو ٹی آر ایس کا حامی بنادیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس طرح کی مزید اسکیمات پیش کی جائیں گی تو ریاست کی خواتین کی بڑی تعداد ٹی آر ایس کیلئے ہی ووٹ دے گی۔ بہرحال رمضان المبارک کے مقدس ماہ کے اختتام کے ساتھ ہی میٹھی عید کی پُرمسرت گھڑی قریب آچکی ہے۔ روزہ داروں کے ساتھ روزہ خور بھی عید کی تیاری میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں۔ چاند رات کی رونق، پتھر گٹی کی گہما گہمی کے درمیان چھوٹا بڑا خوشیوں کو دوبالا کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ نت نئے ایجادات نے اگرچہ ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردی ہیں لیکن ملاوٹ شدہ دودھ سے اس سال کی عید اور شیر خرمہ کی اصلیت پر شک و شبہ پیدا کردے گا۔ پہلے ہم سب عید مبارک کے کارڈ روانہ کرتے تھے اب واٹس ایپ، ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی عید کی مبارکباد روانہ کرتے ہیں اور وقت کی دھول میں گم عید کی محبتوں بھری روایات اب صرف ایس ایم ایس اور واٹس ایپ تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ آپ تمام قارئین کو عید کی مبارکباد کے ساتھ یہ خواہش کی جاتی ہے کہ ایس ایم ایس کے ذریعہ اپنی شرکت کو یقینی بنانے کے بجائے راست مل کر عیدکی مبارکباد دینے کو ترجیح دیں، بغلگیر ہوکر عید ملنے کا لطف اور محبت منفرد ہوتی ہے۔
kbaig92@gmail.com