چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی دلی والی آنکھچیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی دلی والی آنکھ

تلنگانہ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ

چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو یہ نسخہ معلوم ہوا ہے کہ خوشامد اور وزارت پکی کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں ۔ مودی حکومت کو خوش کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ سال 2019 کے انتخابات آنے سے پہلے ہی کانگریس پارٹی بھی میدان کی ہاری ہوئی بازی بن چکی ہے ۔ جن سنگھی اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ والے جی ایس ٹی کے ذریعہ سارے ملک پر راج کرنے کی پالیسی کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہونے کی بنیاد ڈال رہے ہیں ۔ چیف منسٹر صاحب سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ذرا بچ کے ۔ دھیان رہے کہیں یہ آپ اپنے دام میں صیاد آگیا والی بات نہ ہوجائے کیوں کہ آپ تو دہلی میں صدارتی امیدوار کے حق میں نمائندگی کر کے اپنی آنکھ کا آپریشن کروا کر دلی کی آنکھ سے تلنگانہ کی حکمرانی کررہے ہیں تو پھر یہ کہا جائے گا کہ مودی کی حکومت کو بچانے کی خاطر اپنی حکومت کو کنویں میں ڈھکیلنے کے جال میں پھنس جائیں ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد اس نئی ریاست میں 3026 کسانوں نے خود کشی کی ہے تو یہ حکومت خود کو کسان دوست حکومت کہنے کے حق سے محروم ہوجاتی ہے ۔ تلنگانہ کے بنیادی حقائق کچھ اور ہی ہیں ۔ مگر چیف منسٹر دلی کی آنکھ سے اپنی حکومت کی دوسری میعاد کو دیکھ رہے ہیں ۔ آندھر پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو بھی اپنی حکومت کی دوسری میعاد کی فکر ہے ۔ دونوں چیف منسٹروں نے خود کو دہلی میں مصروف رکھ کر علاقائی طاقت کو مرکزی طاقت کا مطیع بنادیا ہے تو آگے چل کر وفاقی ڈھانچہ کو مسمار کرنے کا منصوبہ رکھنے والی بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت کا کام آسان ہورہا ہے ۔ جی ایس ٹی کے ذریعہ جس پالیسی کو روبہ عمل لایا گیا ہے یہ سراسر علاقائی اختیارات کو سلب کردینے کی کوشش ہے ۔ صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار کی حمایت نے ٹی آر ایس اور بی جے پی میں قربت کو آشکار کردیا ہے ۔ اب ٹی آر ایس کے لیے اپنے سیکولر رائے دہندوں کے سامنے یہ جوابدہ ہوتا ہے کہ آیا اس سے اپنا سیکولر مکھوٹا اتار پھینکا ہے یا آئندہ انتخابات میں اسے برقرار رکھا جائے گا ۔ تلنگانہ بی جے پی یونٹ نے کل تک ٹی آر ایس کے خلاف بیان بازی کو عادت بناچکی تھی اب ٹی آر ایس کی ستائش کرنا شروع کردیا ہے ۔ یعنی دونوں پارٹیوں کی قربت آئندہ اسمبلی انتخابات میں خفیہ معاہدہ کا اشارہ بھی ہوسکتا ہے ۔ تلنگانہ میں چونکہ دوسری مضبوط پارٹی باقی نہیں رہی اس لیے بی جے پی اور ٹی آر ایس کا ہنی مون کچھ نہ کچھ رنگ لائے گا جہاں تک کانگریس کا سوال ہے یہ پارٹی بری طرح تباہی کے دہانے پر ہے ۔ کانگریس کے اندر اقتدار کی رسہ کشی نے اس پارٹی کی رہی سہی ساکھ کو بھی داؤ پر لگادیا ہے کیوں کہ تلنگانہ کانگریس کے قائدین میں چیف منسٹر کا عہدہ ہر لیڈر کو عزیز معلوم ہورہا ہے ۔ اس لیے سینئیر جونیر ہر کوئی اس عہدہ کا متمنی ہونے کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ لامحالہ پارٹی کی اصلیت اور اہمیت گھٹ رہی ہے ۔ اب اسمبلی انتخابات کے لیے 2 سال رہ گئے ہیں ۔ کانگریس کے سینئیر قائدین خود کو پارٹی کا چیف منسٹر امیدوار بتاکر پیش کررہے ہیں ۔ گذشتہ ماہ سنگاریڈی میں کانگریس نائب صدر راہول گاندھی کے جلسہ عام کی کامیابی سے حوصلہ پاکر پارٹی کے سینئیر قائدین نے آئندہ اقتدار کا خواب دیکھنا شروع کردیا ہے ۔ اس لیے پارٹی کے دو اہم قائدین نے خود کو چیف منسٹر امیدوار ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے اگرچیکہ پردیش کانگریس صدر اتم کمار ریڈی اور سی ایل پی لیڈر کے جانا ریڈی پارٹی کے سینئیر قائدین ہیں اور سیاسی تجربہ کے اعتبار سے یہ لوگ پارٹی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ مگر وقت سے پہلے ہی خود کو بڑے عہدہ کی دوڑ میں شامل کر کے سیاسی قد کو چھوٹا کررہے ہیں ۔
مگر کانگریس کے اصل قیادت نے تلنگانہ میں درج فہرست ذاتوں اور قبائیلیوں کو قریب کرنے ان طبقات کے اہم قائدین کو اہم عہدے دینے پر غور کیا ہے ۔ چیف منسٹر اپنے سامنے کی خاص مضبوط اپوزیشن کی عدم موجودگی کا ضرور فائدہ اٹھائیں گے ۔ اب تو انہیں دہلی سے اچھی روشنی مل چکی ہے ۔ آنکھ کا آپریشن کرانے کے بعد وہ اپنی حکمرانی پر خاص نظر رکھیں گے اور آئندہ انتخابات بھی ان کی دہلی کی نظر سے کرائیں جائیں گے ۔ چیف منسٹر اپنی سرگرمیوں کو لوگوں کی نظروں سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں مگر خود اچھی روشن آنکھوں کے ساتھ نظم و نسق پر نظر رکھنے کی تیاری کررہے ہیں ۔ چیف منسٹر کا یہ فیصلہ بھی شاید اپنے ہر کام سے عوام کی نظروں کو دور رکھنے کی پالیسی کے تحت ہی کیا گیا ہوگا ۔ انہوں نے اپنے بیگم پیٹ کیمپ آفس کو عوام کی نظروں سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹین شیڈ ڈلوا دئیے ہیں تاکہ عام آدمی اپنے لیڈر کے گھر کا دور سے بھی نظارہ نہ کرسکے ۔ اس کیمپ آفس کے نئی سیکوریٹی انتظامات کے طور پر میٹل شیٹس کھڑے کئے گئے ہیں ۔ یہ کیمپ آفس 50 کروڑ روپئے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے ۔ 4 ایکڑ کی اراضی پر نیا شاندار محل انٹلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی میں ہے ۔ سیکوریٹی فل پروف ہے ۔ اب انٹلی جنس عہدیداروں نے پڑوسی عمارتوں سے عوام کے نظارہ کا بھی نوٹ لیا ہے ۔ پڑوسی عمارتوں میں رہنے والے لوگ اپنی بلند بالا فلیٹس کی کھڑکیوں ، چھت سے چیف منسٹر کی صبح کی چہل قدمی اور آفس میں بیٹھک کا نظارہ کررہے تھے ان کو اس نظارہ سے دور رکھنے کیلئے کیمپ آفس کے اطراف بلند میٹل شیٹس لگائے گئے ہیں ۔ ایسا اس لئے بھی کیا گیا ہے ایک عوامی شخصیت کی سیکوریٹی ضروری ہے ۔ ماویسٹ یا دہشت گرد حملوں کے خطرات کے پیش نظر سیکوریٹی ایجنسیوں کو احتیاطی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں ۔ تلنگانہ پولیس نے بتایا کہ اپنے حالیہ سیکوریٹی جائزہ میں انٹلی جنس عہدیداروں کو پتہ چلا کہ چیف منسٹر کیمپ آفس کے اطراف بلند عمارتیں ہیں جن میں خانگی عمارتوں کے علاوہ ہوٹل ، پلاریڈی بلڈنگ بھی ہے جہاں سے نئے سی ایم کیمپ آفس میں جاری سرگرمیوں کو آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا ۔ پڑوسی عمارتوں میں رہنے والے چیف منسٹر کی چہل قدمی یا آفس میں کام کاج کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔ چیف منسٹر عوام کی نظروں سے تو بچ رہے ہیں مگر وہ اپنے ناقدین کے تعاقب سے کس طرح بچ سکیں گے ۔ ان کی سیاسی صلاحیتوں پر منحصر ہے ۔ بظاہر ان میں حریفوں کو مات دینے کی خوبیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس لئے اب تک انہوں نے حریفوں کو منہ کی کھانی کے لئے چھوڑ دیا ہے مگر ان کے کٹر حریف پروفیسر کودنڈا رام نے بھی تہہ کرلیا ہے کہ وہ حکومت کی خرابیوں کو آشکار کر کے عوام کو بیدار کریں گے اپنے دوسرے مرحلہ کی یاترا شروع کرنے کے لئے سیاسی طور پر اہم دوسرے ضلع کا انتخاب کیا ہے ۔ پروفیسر کودنڈا رام کے دوسرے مرحلہ کی یاترا ضلع سرسلہ سے شروع ہوگی جہاں سے وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ نمائندگی کررہے ہیں ۔ اتفاقی طور پر سدی پیٹ بھی دونوں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور وزیر آبپاشی ٹی ہریش راؤ کا آبائی حلقوں میں آتا ہے ۔ پہلے مرحلہ کی یاترا میں عوام کو چیف منسٹر کے خلاف بیدار کرانے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں یہ واضح نہیں ہے ۔ دوسرے مرحلہ کی یاترا کا پروگرام بھی چیف منسٹر کی شہرت و مقبولیت کو ماند نہیں کرسکے گا ۔۔kbaig92@gmail.com