چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کے نام کھلا خط

  آنجہانی چندرشیکھر کی طرح وزیراعظم بننے کے حالات نہیں
   غیرکانگریس، غیربی جے پی اتحاد سے فرقہ پرستوں کو مدد ملے گی
   بی جے پی اور کانگریس میں کیا فرق رہ گیا، سوائے آر ایس ایس؟
   12 فیصد تحفظات کے وعدے سے توجہ ہٹانا پڑسکتا ہے مہنگا!
عرفان جابری
چیف منسٹر کلواکنتلا چندرشیکھر راؤ صاحب  ……  آداب!
آپ نے حالیہ 3 مارچ کو بڑا دلچسپ، معنی خیز سیاسی بیان دیا کہ ہندوستان کی آزادی کے 70 سال بعد بھی ملک کے مجموعی حالات دِگرگوں ہیں ، جس کیلئے کانگریس اور بی جے پی کی حکومتیں ذمے دار ہیں۔ چنانچہ آنے والے عام انتخابات میں قوم کو ’’غیرکانگریس، غیربی جے پی‘‘ محاذ تشکیل دینا ضروری ہے۔ نیز یہ کہ آپ ،وزارتِ عظمیٰ کیلئے موقع ملتا ہے تو ملکی مفاد میں یہ ذمے داری قبول کرنے تیار ہیں، کیونکہ آپ ہندی اور انگریزی زبانوں سے بھی واقف ہیں ۔ وزیراعلیٰ صاحب! مجھے آپ کے مستقبل کے سیاسی عزائم ’’خوش فہمی ، غلط فہمی اور مشکوک ایجنڈہ‘‘ کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ حیدرآباد، تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے مسلم ہندوستانی شہری کے طور پر مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے، اِس پر روشنی ڈال رہا ہوں۔ برائے مہربانی، اِسے ملاحظہ کیجئے گا۔
15 اگست 1947ء کو آزادی کے وقت ہندوستان کی مجموعی صورتحال کیسی تھی، پھر اولین وزیراعظم ہند جواہر لعل نہرو کی 27 مئی 1964ء تک مختلف میعادوں کی حکومت میں قوم کی ملک و بیرون ملک حالت کس قدر بدلی ، یہ باتیں مجھ (سن پیدائش 1970ئ) سے بہتر آپ (سن پیدائش 1954ئ) جانتے ہیں۔ ملک کے دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری (1964-66ئ) کے دیہانت نے انھیں اپنی میعاد پوری کرنے کا موقع نہ دیا۔ جنوری 1966ء سے اندرا گاندھی کا دَور شروع ہوا، جو ایمرجنسی جیسے ’ناپسندیدہ سیاسی اقدام‘ (1975-77ئ) کی وجہ سے تقریباً دو سالہ غیرکانگریسی حکومتوں (مارچ 1977ء تا جنوری 1980ء کے دوران مرارجی دیسائی اور چرن سنگھ کی حکومتیں) کے وقفے کو چھوڑ کو مجموعی طور پر لگ بھگ 17 سال پر محیط رہا، اور 31 اکٹوبر 1984ء کو اُن کے قتل کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ مقتولہ وزیراعظم کے بڑے فرزند راجیو گاندھی جو ہندوستان میں اسکولی تعلیم ، پھر لندن کے کالجس و یونیورسٹی سے فراغت کے بعد 1966ء میں وطن واپسی پر سرکاری ملکیتی انڈین ایئرلائنز کے پروفیشنل پائیلٹ بن چکے تھے، انھیں اُس وقت کے ہنگامی حالات میں ’ہمدردی کی لہر‘ نے جنرل الیکشن میں شاندار کامیابی (542 کے منجملہ 411 لوک سبھا نشستوں کا حصول) دلائی۔
صاف ستھرے امیج کے حامل مگر سیاسی طور پر ناتجربہ کار راجیو گاندھی کی حکومت (1984-89ئ) کے دوران چند متنازع واقعات ؍ فیصلے (جیسے بھوپال گیس سانحہ، شاہ بانو کیس، ایودھیا میں شیلانیاس، سری لنکا کو لبریشن ٹائیگرز آف ٹامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے خلاف امن بردار فوجی دستے بھیجنا، اور بوفورس اسکینڈل) پیش آئے، جس کے تناظر میں راجیو حکومت کے وزیر فینانس اور وزیر دفاع رہ چکے وشواناتھ پرتاپ سنگھ نے عملاً بغاوت کردی۔ انھوں نے پہلے اپنے معاونین ارون نہرو اور عارف محمد خان کے ساتھ مل کر اپوزیشن پارٹی ’جن مورچہ‘ تشکیل دیا۔ پھر اسے جنتا پارٹی، لوک دل اور کانگریس (ایس) کے ساتھ ضم کرتے ہوئے ’جنتادل‘ کی بنیاد ڈالی۔ نیز علاقائی پارٹیوں بشمول ڈی ایم کے، تلگودیشم، آسام گن پریشد کو ساتھ لے کر اپوزیشن مخلوط ’نیشنل فرنٹ‘ بنایا، جس نے 1989ء کے عام انتخابات بی جے پی اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی انتخابی مفاہمت کے ساتھ لڑے اور سادہ اکثریت پائی جبکہ کانگریس کو کراری شکست ہوئی اور اس طرح راجیو گاندھی کو نہرو۔گاندھی خاندان کا تاحال آخری وزیراعظم کہا جاسکتا ہے۔
اگست 1990ء میں وزیراعظم وی پی سنگھ نے جب بی پی منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کی کوشش کی ، تو سڑکوں پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگئے۔ ویسے منڈل کمیشن 1979ء میں مرارجی دیسائی زیرقیادت حکومت نے تشکیل دیا تھا تاکہ سماجی یا تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کی شناخت کرتے ہوئے عوام میں ذات پات پر مبنی امتیاز کو دور کرنے کی خاطر ریزرویشن اور کوٹہ مختص کیا جاسکے۔ تاہم، وی پی سنگھ کی کوشش کے خلاف اس قدر شدید احتجاج رونما ہوا کہ آزاد ہند کی تاریخ میں ایسا کم ہوا ہے۔ چنانچہ جنتادل لیڈر کو وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑا۔
وی پی سنگھ نے راجیو گاندھی حکومت کے خلاف ’کرپشن‘ (بوفورس) کو بڑا موضوع بنایا، اچھا کیا  …  لیکن کرپشن سے کہیں بڑھ کر غلطی خود اُن سے سرزد ہوئی کہ فرقہ پرست بی جے پی کو قومی سیاست میں ’تنکے سے چٹان‘ بناگئے۔ ہندوستان جیسے ہمہ رنگی، ہمہ لسانی، ہمہ تہذیبی، ہمہ مذہبی ملک میں ترقی کیلئے ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ کی برقراری لازمی ہے۔ میرا منشاء بدعنوانی (کرپشن) اور فرقہ وارانہ ماحول کے منافی حالات (فسادات) کے معاملے میں انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کی تائید اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی مخالفت کا ہرگز نہیں، کیونکہ یہی دو موضوعات ہیں جس میں شاید یہ دونوں پارٹیاں ایک سکے کے دو رُخ باور کی جاسکتی ہیں۔ جہاں کانگریسی دَور میں بھاگلپور فسادات (1989ئ) ، گجرات فسادات (1969ئ) اور ملک بھر میں اَن گنت دَنگوں سے اقلیتوں کو جس قدر نقصان پہنچا، وہیں بی جے پی حکمرانی میں گجرات فسادات (2002ء ) نے ایک ہی جھٹکے میں پوری کسر نکال لی! اسی طرح بدعنوانی کے معاملے میں دونوں طرف اسکینڈلوں، اسکام، عوامی رقومات کو ہڑپ لینے کی اَن گنت مثالیں ہیں۔
وزیراعلیٰ صاحب! اِس پس منظر میں آپ کا ’کانگریس و بی جے پی‘ کے خلاف موقف اختیار کرنا میرے لئے قابل فہم ہے۔ تاہم، آپ دونوں نیشنل پارٹیوں کے درمیان بہت بڑے فرق ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ کو نظرانداز کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کا ’’ہندو راشٹر‘‘ کا نظریہ اور بی جے پی کو بھرپور سرپرستی کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ وی پی سنگھ کے استعفے کے بعد اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر راجیو گاندھی نے شاید اپنی ’پہلی شاطرانہ سیاسی چال‘ میں جنتادل لیڈر کے کٹر مخالف سابق کانگریسی و نوتشکیل شدہ سماجوادی جنتا پارٹی ؍ جنتا دل (سوشلسٹ) کے لیڈر چندرشیکھر کا وزارت ِ عظمیٰ پر فائز ہونا یقینی بنایا، حالانکہ انھیں محض 64 ایم پیز کی حمایت حاصل تھی! یہ تلخ حقیقت ہے کہ چندرشیکھر بحیثیت وزیراعظم (10 نومبر 1990ء تا 21 جون 1991ئ) قوم کیلئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پائے۔ پی وی نرسمہا راؤ کی بھرپور میعاد (1991-96ئ) کے بعد بلاشبہ ایچ ڈی دیوے گوڑا (1996-97ئ) اور اندر کمار گجرال (1997-98ئ) جیسے وزیراعظم بھی رہے، جنھوں نے مخلوط حکومتوں کی قیادت کی۔ تب سے آج تک ہندوستان کی سیاست نے کس طرح کروٹیں لئے، جگ ظاہر ہے۔
کے سی آر صاحب! اس طرح کے مجموعی حالات میں آپ جیسا سیاسی بصیرت کا حامل لیڈر کیونکر توقع رکھ سکتا ہے کہ آپ مجوزہ ’غیرکانگریس، غیربی جے پی‘ محاذ کو کامیابی دلاتے ہوئے وزیراعظم بن کر عوام اور قوم کے مسائل حل کرپائیں گے۔ مجھے تو صاف نظر آرہا ہے کہ اقلیتوں کے ووٹوں کے علاوہ تمام سکیولر ووٹ بھی کانگریس اور مجوزہ فرنٹ میں منتشر ہوں گے، اور اس کا بالواسطہ فائدہ وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی، اور آر ایس ایس کو ہوگا، جو بے تاب ہیں کہ انھیں کسی طرح پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے ، جس کے بغیر دستورِ ہند میں ترامیم نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ وہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ، جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی تنسیخ، ایودھیا میں منہدمہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر  …  ان سب سے بڑھ کر تشویشناک ’’ہندو راشٹرا‘‘ کے قیام کو اپنے ’خفیہ‘ ایجنڈے میں شامل رکھا ہوا ہے؟ یہ سب باتیں ذمہ دار مسلم ہندوستانی شہری کے طور پر میرے اور میرے جیسے کروڑوں ہندوستانیوں کیلئے یقینا باعث تشویش ہیں!
آپ بخوبی واقف ہیں کہ آنجہانی ڈاکٹر ایم چنا ریڈی نے دہا 1960ء کے اواخر میں تلنگانہ تحریک چلائی تھی جو علحدہ ریاست کے حصول میں تبدیل نہ ہوئی۔ بلاشبہ 2001ء میں مسئلہ تلنگانہ پر آپ نے اُس وقت کے چیف منسٹر آندھرا پردیش نارا چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی کے ساتھ ساتھ ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کے عہدہ کو چھوڑا، اور 27 اپریل 2001ء کو تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) تشکیل دی۔ زائد از تیرہ سال بعد 2 جون 2014ء کو ملک کی نوخیزترین ریاست کے اولین چیف منسٹر بننے کا موقع مرکز میں اُس وقت کی کانگریس زیرقیادت یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس(یو پی اے) حکومت کے دستوری اقدام اور اپوزیشن این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کی طرف سے پارلیمنٹ میں بی جے پی کی طرف سے بھرپور تائید و حمایت کے نتیجے میں ہی فراہم ہوا۔ مگر اندرون چار سال آپ بڑی آسانی سے کہہ گئے کہ ’غیرکانگریس، غیربی جے پی‘ اتحاد کیلئے جدوجہد کریں گے؟
اِدھر نئی ریاست کے اسمبلی الیکشن میں ٹی آر ایس کو مسلمانوں کے ووٹ ملنے کی بڑی وجہ آپ کا یہ وعدہ رہا کہ تلنگانہ میں اپنی حکومت کی تشکیل کے اندرون چار ماہ ریاستی آبادی میں تناسب کے اعتبار سے 12 فیصد مسلم تحفظات کو یقینی بنائیں گے۔ میرا یا میرے آجرین (’سیاست‘) کا سماجی و معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کے حق میں ریزرویشن کیلئے آواز اُٹھانے میں کچھ نجی فائدہ نہیں، بلکہ مقصد یہی ہے کہ سینکڑوں مستحق نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو تعلیمی میدان اور سرکاری و کارپوریٹ شعبے کی نوکریوں میں ’سہارا‘ مل جائے گا؛ پھر وہ ہزاروں افراد پر مشتمل اپنے خاندانوں کا ’سہارا‘ بن سکیں گے۔ اس معاملے میں بڑی رکاوٹ موجودہ مرکزی حکومت ہے۔ آپ کا مجوزہ ’غیرکانگریس، غیربی جے پی‘ محاذ فرقہ پرستانہ قوتوں کی بالواسطہ مدد کا موجب بنے گا تو یہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے حق میں بہت نقصان دہ ثابت ہوگا!
اُمید ہے آپ مسلمانوں کے ووٹ کی طاقت اور مسلم لیجسلیٹرز کی تائید و حمایت کے اثر کو کمتر نہیں جانیں گے۔
خیراندیش!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com