چیف منسٹر وں کے درمیان ترقیات کے بجائے فیس بُک مسابقت

تلنگانہ … اے پی ڈائری     خیر اللہ بیگ
ابن صفی کی جاسوسی کہانیاں اور جیمس بانڈ کی فلمیں دیکھ کر لطف اندوز ہونے کے دن ختم ہوگئے ، فیس بُک، واٹس اَپ، ٹوئٹر اب نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ بن گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس واٹس اَپ کی کہانیاں اور پوسٹس کو سناتے اور ہنستے رہنے کے درمیان ملک اور ریاستوں کے سربراہوں نے بھی ٹوئٹر، فیس بُک اور واٹس اَپ کو اپنالیا ہے۔ حال ہی میں چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ٹوئٹر کا آدمی قرار دیا تھا۔ ہماری ریاست تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹروں کے درمیان بھی فیس بک پر دوستی کرنے اور اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے کی مسابقت یا جنگ شروع ہوگئی ہے۔ ماضی کے لیڈروں کو اپنی تفریح کیلئے محفلِ غزل اور سینما تھیٹر میں لگی فلمیں کافی تھیں، آج کے لیڈرس اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنی کار سے اُتر کر چیمبر تک جانے کے دوران بھی واٹس اَپ کے پیام پڑھتے دیکھا جاتا ہے۔ واٹس اَپ نے تمام سرکاری اداروں اور اعلیٰ عہدیداروں کو بھی مصروف رکھا ہے۔ پولیس اسٹیشنوں میں جاکر دیکھیئے سرکل انسپکٹر ہوں یا سب انسپکٹر عوام کی کم سنیں گے واٹس اَپ کے پیامات اور پوسٹس کو دیکھنے میں وقت لگادیں گے۔ کل تک حکمراں طبقہ سے لے کر تمام سرکاری عہدیداروں کی تفریح مختصر ہوا کرتی تھی لیکن اب انٹر نیٹ نے اس تفریح کا تمام سامان جیب میں رکھ دیا ہے۔ ایک دور تھا جب سیاستداں اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت تفریح کیلئے نکالتے تھے، سابق چیف منسٹر ٹی انجیا کے دور میں محفلِ غزل اور فلموں کا شوق تھا۔ انہوں نے بطور خاص فلم ’’ امراؤ جان‘‘ دیکھنے کا اہتمام کرتے ہوئے اسوقت کی مہیشوری تھیٹر میں 3گھنٹے گذارے تھے۔ عابڈس پر واقع سنتوش ٹاکیز کے افتتاح کیلئے تھیٹر کے مالک شنڈے نے شہرہ آفاق اداکار دلیپ کمار کو مدعو کیا تھا اور اسوقت کے چیف منسٹر ڈاکٹر چنا ریڈی مہمان خصوصی تھے، لیکن دلیپ کمار کی آمد میں تاخیر پر ڈاکٹر چنا ریڈی کو کافی دیر تک تھیٹر میں انتظار کرنا پڑا تھا۔ رشی کپور کی فلم ’’ قرض‘‘ دیکھنے کیلئے چنا ریڈی نے اپنی مصروفیات ترک کردی تھی لیکن اب حکمرانوں کو بھی اس تفریح کی ضرورت نہیں رہی ان کیلئے فیس بُک، ٹوئٹر اور واٹس اَپ ہی تفریح گاہ بن گئی ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اور چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو کے درمیان فیس بُک پر حامیوں کی تعداد بڑھانے کی مسابقت چل پڑی ہے، یہ دونوں چیف منسٹرس ایک دوسرے کی ترقیاتی سرگرمیوں کو پیش کرنے کے لئے فیس بُک کا استعمال کررہے ہیں۔ مشہور سوشیل نٹ ورکنگ سسٹم پر اس وقت کے سی آر کے فالوورس میں 2.7لاکھ افراد ہیں جبکہ سیاسی زندگی میں اپنی مہارت، فراست اور ترقیاتی کاموں کے باعث عوام میں مقبولیت رکھنے والے چندرا بابو نائیڈو کے فیس بُک پر صرف 32ہزار فالوورس ہیں جبکہ نائیڈو کے ایک اور سرکاری پیج tdp.ncbn.officialپر ان کے چاہنے والوں کی تعداد 4.54لاکھ ہے۔ اس طرح ٹوئٹر پر چیف مسٹر کے سی آر اور چندرا بابو نائیڈو کے علی الترتیب 809 ہزار اور 31.6 ہزار حامی ہیں۔ تلنگانہ کے سی ایم او فیس بک پیج کو آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے چلایا جاتا ہے جس میں کے سی آر کی مصروفیات اور اسکیمات و حکومت کے فیصلوں کی اطلاع دی جاتی ہے، روزانہ کی اساس پر حکومت کی سرگرمیوں کو نمایاں پیش کیا جاتا ہے۔ جو لوگ تلنگانہ سے نسبت رکھتے ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں مقیم ہوں کے سی آر کے بنائے گئے صفحہ کو بار بار ملاحظہ کرتے ہیں اور اپنی دلچسپی کا اظہار کرکے اسے لائیک کرتے ہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے فیس بک Pageکو دیکھنے والوں میں برطانیہ، آسٹریلیا، امریکہ، خلیجی ممالک وغیرہ میں مقیم این آر آئیز کی کثیر تعداد شامل ہے۔ فیس بُک کا استعمال تلنگانہ تحریک کے دوران مارچ 2010ء میں کامیاب رہا تھا

اور اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے تھے کیونکہ تلنگانہ تحریک کے لئے تشدد اور بند کے واقعات نے حیدرآباد میں آئی ٹی کمپنیوں کے قیام کی راہ مسدود کردی جارہی تھی اور بنگلور کے سلیکان ویالی کی جانب رُخ کردیا جارہا تھا لیکن اب حیدرآباد تمام بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے لئے پسندیدہ مقام بن گیا ہے اس لئے یہاں گوگل، امیزان، آئی کے ای اے نے سرمایہ کاری شروع کی ہے۔کے سی آر نے حال ہی میں اپنے فیس بک پیج پر 19سالہ لڑکی سے ملاقات کی تصویر شائع کی تھی جو اپنی سوتیلی ماں کے ظلم کا شکار تھی۔ 18جولائی کو ایل بی نگر کے ایک دواخانہ میں اس سے ملاقات کرکے کے سی آر نے فیس بُک پر اپنے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرلیا تھا، اس Pageکو 12,271 لوگوں نے پسند کیا اور 1588 افراد نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اس کے برعکس چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے فیس بک پیج اور ان کے سرکاری ویب سائیٹ سے لوگوں کو اُلجھن ہورہی ہے۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کے چاہنے والوں میں فرق پیدا ہورہا ہے تو یہ عارضی بھی ہوسکتا ہے یا مستقبل میں اس کے منفی سیاسی اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ تلنگانہ کو اناج پیدا کرنے والی سب سے بڑی ریاست بنانے کا عزم رکھنے والے چیف منسٹر کو فیس بُک پر ہی مصروف دیکھا جائے تو ناکافی بارش کی وجہ سے تلنگانہ میں پیدا ہونے والی صورتحال سے وہ کس طرح نمٹیں گے۔ بارش کی کمی سے تلنگانہ کا معاشی مستقبل ابھی سے ہی دھندلا دھندلا نظر آنے لگا ہے۔ کے سی آر کو آنے والے مسائل کا ادراک کرنے کیلئے فیس بُک کا سہارا لینا پڑے تو پھر عوام کا حال بھی فیس بُک بن کر رہ جائے گا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ریاست کے مسائل بے شمار اور بہت ہی پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں،

یقینا عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں مگر جہاں صاف و شفاف نظام لانے کا وعدہ ہی پورا نہ ہو تو پھر حالات کیا کروٹ لیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاریخی عمارتوں کے پیچھے پڑنے والے چیف منسٹر کو تاریخی حقیقت  سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کے اضلاع حضور نظام میر عثمان علی خاں کی حکمت و دانش اور ویژن سے ترقی حاصل کرچکے تھے، یہاں کی تاریخی عمارتیں بہتری کی منتظر ہیں توڑپھوڑ کی نہیں۔ حکومت نے عثمانیہ دواخانہ کے انہدام کے فیصلہ کی کو موخر کرنے کا ارادہ تو ظاہر کردیا ہے۔ اب حالات نے خود ایسا انتظام کردیا ہے کہ تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اپنی فکری استعداد کو بروئے کار لانے کا موقع ملے گا اور وہ نئی انتظامیہ سامنے لانے میں کامیاب ہوں گے تو ہی عوام کو مسائل سے چھٹکارا ملے گا۔ کے سی آر اور چندرا بابو نائیڈو کواپنی اپنی ریاستوں میں عوام کی خدمت کیلئے فیس بُک سے زیادہ اپنی نئی سوچ اور قوت عمل کے ذریعہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ چیف منسٹر کے چند رشیکھر راؤ بظاہر شہر حیدرآباد کو مزید ترقی دینے کی فکر صحیح رکھتے ہیں تو انہیں تاریخی عمارتوں کی تباہی سے زیادہ اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ شہر حیدرآباد میں31ہزار کروڑ لاگتی پراجکٹس شروع کرناچاہتے ہیں مگر یہ پراجکٹس کب شروع اور ختم ہوں گے یہ غیر واضح ہے۔
kbaig.92@gmail.com