چہلم کے دن نئے کپڑے پہننا

سوال :   انتقال کے 40 دن بعد چہلم کرنا ضروری ہے ، کیا ہمیں یہ کرنا چاہئے ؟ اس دن مرحوم کے والدین یا اولاد کو نئے کپڑے پہننا چاہئے ؟ کیا یہ ضروری ہے ، کیا ہم کسی زندہ شخص کے لئے کسی قسم کا ثواب جاریہ کرسکتے ہیں ؟ مرحوم کیلئے میں جانتا ہوں کہ مسجد کی تعمیر یا مسجد میں قرآن مجید رکھوائے جاتے ہیں یا مدارس کی رقمی اعانت کی جاسکتی  ؟
نام …
جواب :  فاتحہ چہلم کرنا مباح و جائز ہے، یہ ایصال ثواب کی خاطر کیا جاتا ہے ۔ چونکہ غم کی وجہ وہ نئے کپڑے نہیں پہنتے اس لئے متعلقین کو لباس بنانے کا رواج ہوا، یہ کوئی ضروری و لازمی امر نہیں ۔ جس طرح اموات کے لئے ایصال جائز ہے اسی طرح زندہ افراد کے لئے بھی جائز ہے بلکہ ہر مسلم خود ایسے نیک کام کرے جو آئندہ جاری رہے ۔ کنواں کھدوانا ، کسی کو علم سکھانا ، مسجد بنادینا وغیرہ تو اس کو ا پنی زندگی کے علاوہ بعد وفات بھی ثواب ملتا رہے گا ۔ جس مسجد میں ضرورت ہو وہاں قرآن رکھوائیں، ورنہ کئی ہزار کی تعداد میں قرآن رہتے ہیں لیکن پڑھے نہیں جاتے۔

سسرال والوں کی خدمت
سوال :  بیوی پر شوہر کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی خدمت ازروئے شرع لازم ہے یا نہیں، نیز شوہر  کے والدین اوربہنوں کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں بیوی علحدہ رہائش کا مطالبہ کرسکتی ہے یا نہیں ؟ لڑکی شادی کے بعد مہینے میں کتنی مرتبہ اپنے والدین سے ملاقات کے لئے آسکتی ہے ؟
حافظ کامران احمد، ریڈہلز
جواب :  شرعاً بیوی پر شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے، شوہر کے ماں باپ کی خدمت شوہر پر ہے، اس کی بیوی پر نہیں۔ اگر بیوی شوہر کے ماں باپ اور سسرال والوں کی خدمت کرتی ہے تویہ اس کا حسن سلوک ہے، لیکن سسرال والوں کی خدمت پر اس کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر شوہر بیوی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ رکھتا ہے اور کچھ کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو بیوی علحدہ مکان میں سکونت کا مطالبہ کرسکتی ہے تاہم اگر شوہر اپنے مکان میں ایک مستقل حجرہ بیوی کے رہنے اور اس کے مال و متاع کی حفاظت کیلئے معہ قفل و کنجی دیتا ہے تو پھر علحدہ مکان کا مطالبہ درست نہیں۔لڑکی کو شادی کے بعد اپنے ماں باپ سے ملنے کیلئے ہفتہ میں ایک بار یا جیسا طریقہ ہو جانے کا حق ہے۔ اگر ماں باپ کے پاس جانے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو شوہر کو منع کرنے کا حق ہے، اس کے والدین آکر مل سکتے ہیں تو شوہر منع نہیں کرسکتا۔
نافرمان بیوی کا نفقہ
سوال :  مفتی صاحب سے دریافت کرنا یہ ہے کہ ہمارے بھائی کی بیوی ا پنے شوہر کی مسلسل نافرمانی کرتی ہے ۔ منع کر نے کے باوجود بے پردگی، حقوق زوجیت بھی ادا نہیں کرتی۔ شوہر کے بغیر اجازت گھر سے نکلتی ہیں، اب تو کسی انسٹی ٹیوٹ میں بغیر اجازت شوہر داخلہ بھی لے لیا ہے اور ا پنے والدین کے گھر رہنے لگی ہے لیکن نفقہ کا مطالبہ کر رہی ہے تو کیا ایسی خاتون کو ا پنا نفقہ طلب کرنے کا حق ہے براہ کرم بتلائیں ؟
جمیل قادری، پھسل بنڈہ
جواب :  جو عورت بلا اجازت شوہر ، شوہر کے گھر سے چلی جائے اور بلانے پر بھی نہیں آرہی ہے و نیز بے پردگی اور حقوق زوجیت ادا نہیں کرتی۔ شرعاً اسے ’’ ناشزہ‘‘ کہتے ہیں اور ناشزہ کا نفقہ جب تک وہ شوہر کے گھر واپس آکر اطاعت نہ کرے، شوہر کے ذمہ واجب نہیں ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب النفقات ص : 545 ۔ وان نشزت فلا نفقۃ لھا حتی تعود الی منزلہ۔ پس آپ کے بھائی پر ان کی بیوی کا نفقہ ان کے واپس آنے تک واجب نہیں اور نہ بیوی کو مطالبہ کا حق ہے ۔

آیت الکرسی پڑھنا
سوال : آپ سے سؤال کرنا یہ ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ’’ آیۃ الکرسی‘‘ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ۔ میرے علم میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم تین آیات تلاوت کرنی چاہئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھ سکتے۔ کیا یہ صحیح ہے ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جلد سے جلد آگاہ فرمایئے۔ تاکہ جو کوئی بھی غلطی پر ہے وہ درست کرسکے۔
روبینہ انجم، ٹولی چوکی
جواب :  سورہ فاتحہ کے بعد تین مختصر آیتیں یا ایک طویل آیت پڑھنے کا حکم ہے ۔ آیت الکرسی ایک آیت ضرور ہے مگر طویل ہے۔ اس لئے نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھ سکتے ہیں۔

کریڈٹ کارڈ پر خریدے گئے سونے پر زکوٰۃ،سود کی لعنت
سوال :   مجھ کو ا یک فتوے کی ضرورت ہے ۔ میں حنفی و سنی ہوں۔ ایک سال پہلے میں نے سونا خریدا تھا ’’ کریڈٹ کارڈ ‘‘ پر اور اب تک میں اس میں سے کچھ بھی رقم ادا نہیں کرسکا ۔ میری مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اور میں تین لاکھ روپئے کا مقروض بھی ہوں جو میں نے سود پر لیا تھا تو کیا مجھ کو اب بھی (یعنی ایسے حالات میں) زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا ؟
برائے مہربانی میری مالی حالت بہتر ہونے کے لئے دعا فرمائیے۔ یہ ایک سبق ہے  حالات سے سیکھا ہوا اور میں اب آئندہ ہرگز کبھی بھی سود پر رقم نہیں لوں گا ، انشاء اللہ میں قرضہ دار سے رقم لیکر بہت خراب حالات کا سامنا کرچکا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس طرح کے کاموں کے خطرے سے محفوظ رکھے۔
ای میل
جواب :  آپ کے پاس جو سونا ہے وہ اگر 60 گرام 755 ملی گرام ہے یا اس سے زائد ہے تو آپ اس کی قیمت معلوم کر کے اس میں سے ا پنا قرض منہا کردیجئے ۔ اس کے بعد جو بچ رہے وہ اگر 425 گرام 285 ملی گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ نکالئے ، اگر اس سے کم ہو تو زکوٰۃ نہیں ہے۔
آپ ہمیشہ باوضو رہیئے ، نماز کی پابندی کر کے نماز فجر کے بعد پانچ مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر گیارہ مرتبہ درود شریف کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ  سے قرض کی ادائی کیلئے بارگاہ رب عزت میں دعاء مانگیئے۔

جادو سے بچنے کیلئے وظیفہ
سوال :  میری بہن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ ہمیشہ ہر وقت بیمار رہتی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی نے غلط چیزیں ان پر کرادی ہیں۔ جیسے جادو ‘ ٹونا وغیرہ۔ برائے مہربانی کچھ قرآن کی آیتیں عنایت فرمائیں تاکہ ہم ہماری بہن کی حفاظت کرسکیں۔ برائے مہربانی جتنا جلد ممکن ہوسکے بھیجئے ۔
نام …
جواب :   مریضہ ہمیشہ با وضو رہنے کی کوشش کرے۔ نماز پابندی سے پڑھے اور نماز فجر کے بعد اول آخر گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ ’’ لا یفلح الساحر حیث اتی‘‘  (یعنی جادوگر جہاں کہیں سے آئے وہ کامیاب نہیں ہوگا)  ایک تسبیح پڑھ کر دم کرلے۔

مساجد میں کرسیوں کی کثرت
سوال :  ایک اہم سوال آپ کی خدمت میں ارسال ہے کہ آج کل ہماری مساجد میں روز بروز کرسیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے مصلیوں میں اختلافات بھی ہورہے ہیں۔ بعض ایسے حضرات جو خود چلکر مسجدکو آتے ہیںلیکن کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں اورنماز کے بعد اپنے دوست احباب کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر اطمینان سے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ صبح walking کو بھی جاتے ہیں ۔ گھر کے کام کاج بھی کرتے ہیں لیکن مسجد میں آتے ہیں تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ اپنے لئے کرسی کے مقام کو متعین کرلیتے ہیں تو آپ سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو حضرات قیام پر قادر ہوں اور زمین پر بیٹھ بھی سکتے ہوں۔ سجدہ بھی کرسکتے ہوں تو کیا ایسے حضرات کا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں۔ ہاں جن کو عذر ہے وہ تو معذور ہیںجن کو عذر نہیں ان کا عمل کیسا ہے ؟
محمد قادر محی الدین، کرما گوڑہ
جواب :   آیت قرآنی قوموا للہ قانتین (سورۃ البقرہ 238 ) (تم فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے لئے قیام کرو) سے تمام مفسرین کے اجماع کے مطابق نماز میں قیام مراد ہے اور قیام ہر اس شخص پر فرص ہے جو قیام پر قدرت رکھتا ہے۔ قیام نماز کا اہم رکن ہے ۔اس کے بغیر نماز ادا ہی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی شخص قیام پر تو قدرت رکھتا ہے لیکن رکوع اور سجوع پر قادر نہیں ہے تو ایسے شخص کو کھڑے یا بیٹھ کر دونوں طریقے سے نماز پڑھنے کا اختیار ہے۔ تاہم اس کا بیٹھ کر پڑھنا بہتر ہے ۔اگرچہ وہ قیام پر قدرت رکھتا ہو لیکن کوئی شخص قیام ‘ رکوع سجود پر قادر ہو ۔ بلاوجہ کرسی پر بیٹھ کر یا محض آرام کیلئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو ایسی صورتمیں قیام کو ترک کرنے کا وجہ جوکہ فرص ہے اس کی نماز ادا ہی نہیں ہوگی۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے البحر الرائق جلد اول ص : 509 )

قول و فعل میں یکسانیت
سوال :  آج کل مسلم معاشرہ میں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے کہ لوگ جو کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے اور اس انداز میں پیش کرتے ہیںکہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر بہت زیادہ عمل پیرا ہیں جبکہ اسلام نے ایسی عملی منافقت سے سخت منع کیا ہے۔ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں یگانگت پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو بہت بہتر ہوگا تاکہ ہماری مسلم قوم میں بیداری پیدا ہو اور وہ قول و عمل میں یکسانیت اور موافقت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
عبدالقدوس بیگ، تالاب کٹہ
جواب :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا یہ وصف نمایاں حیثیت رکھتا ہے کہ آپؐ کے قول و فعل میں مکمل یکسانیت تھی اور آپؐ نے جو کہا اسے سب سے پہلے خود کر کے دکھایا اورپھر دوسروں کو اس کا حکم دیا ۔ نماز کا حکم ملا تو سب سے پہلے آپؐ نے خود نماز پڑھی اور پھر دوسروں کو اس کی تاکید فرمائی۔ قرآن مجید کے احکام پر سب سے پہلے خود عمل کرتے اور پھر دوسروں کو دعوت عمل دیتے۔ اسی بناء پر اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ نے آپؐ کی زندگی کو مجسم قرآن قرار دیا۔ (ابن سعد : الطبقات ‘ 364:1 )۔ قرآن کریم میں آپؐ کی طرف سے بار بار یہ اعلان دہرایا گیاہے: ان اتبع الا مایوحی الی (6 (الانعام) : 5 ) ‘ میں (خود) انہی احکام کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کئے جاتے ہیں۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین‘‘ (6 (الانعام) : 162 ) یعنی کہہ دو کہ میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور موت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ آپؐ کے پختہ اور غیر متزلزل یقین کا اظہار ہوتاہے۔
آپؐ قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ کی مجسم تصویر ہیں‘ جس میں ارشاد ہے : ’’ یاایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون ‘‘ (61 (الصف) : 2 ) ‘ یعنی اے اہل ایمان ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ ایک اورجگہ کہا گیا :’’ اتأمرون الناس بالبروتنسون انفسکم ‘‘ (2 (البقرۃ) : 42 ) ‘ یعنی کیا تم دوسروں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلا دیتے ہو‘‘ آپؐ کے دشمنوں کو بھی یہ تسلیم تھا کہ آپؐ مجسمۂ عہد و وفا اور پیکر مہر و محبت ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آپؐ نے اپنے پرانے دشمنوں سے جو سر جھکائے آپؐ کے فیصلے کے منتظر کھڑے تھے۔ پوچھا : تمہیں اب (مجھ) سے کیا توقع ہے ؟ سب نے کہا : ہم آپؐ سے بھلائی ہی کی توقع رکھتے ہیں‘ کیونکہ آپؐ ایک شریف النفس باپ کے شریف النفس بیٹے ہیں (الواقدی : المغازی ‘ 835:2 ) لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرتے ہوئے قول و فعل میں یگانگت پیدا کریں اور قول و عمل میں تضاد سے بچیں۔