چھوٹے بچے پر سجدۂ تلاوت

سوال :  میرا پوترا میرے پاس روزانہ قرآن مجید پڑھتا ہے۔ اب وہ سکینڈ کلاس میں ہے ۔ اس کی عمر آٹھ سال ہے ۔ تلاوت کے دوران کبھی آیت سجدہ آجاتی ہے ۔ میں بعد میں سجدہ کرلیتی ہوں ، اس وقت نہیں کرتی کیونکہ ذرا ہٹتے ہی بچے کھیلنے میں لگ جاتے ہیں ۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کم عمر بچے بھی جب آیت سجدہ کی تلاوت کریں تو ان پر بھی سجدۂ تلاوت لازم ہوگا یا نہیں ؟
فاطمہ بیگم ، فلک نما
جواب :  سجدہ ، در حقیقت نماز کے ارکان کا ایک جز ہے جس طرح نماز کے فرض ہونے کے لئے مسلمان ہونا ، عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لئے بھی عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے ۔ الجرالرائق جلد 2 ص : 211 میں ہے ۔ لان السجدۃ جزء من اجزاء الصلوۃ فیشترط لو جوبھا اھلیۃ وجوب الصلاۃ من الاسلام و العقل والبلوغ و الطھارۃ من الحیض والنفاس حتی لا تجب علی کافروصبی و مجنون و حائض و نفساء ۔
لہذا آپ کا پوترا نابالغ ہے اس لئے اگر وہ آیت سجدہ کی تلاوت کرے تو ازروئے شرع اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں۔ تاہم معلومات کے لئے اور عادت ہونے کے لئے اس کو سجدۂ تلاوت کی ترغیب دی جانی چاہئے ۔

دوران عدت مہندی لگانا
سوال :   نومبر میں ہمارے عزیز کا انتقال ہوا ، وہ بہت بیمار تھے ۔ دو سال سے ان کے افراد خاندان نا امید ہوچکے تھے لیکن قضاء و قدر کے سامنے سب  عاجز و بے بس ہیں۔ ان کی سالی کی شادی فروری کے پہلے ہفتہ میں طئے ہے۔ لڑکا بیرون ملک سے آرہا ہے اور لڑکی کی بہن یعنی مرحوم کی بیوہ عدت میں ہے اور اس وقت تک بھی ان کی عدت ختم نہیں ہوگی۔ آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ بیوہ اپنی عدت وفات کے آخری ایام میں مہندی وغیرہ لگاسکتی ہے یا نہیں ؟
محمد عابد حسین، فرسٹ لانسر
جواب :  بیوہ کو عدت کے دوران زیب و زینت اور خوشبو و غیرہ کا استعمال منع ہے اور مہندی کو بھی خوشبو اور زینت میں شامل کیا گیا ہے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت گزارنے والی خاتون کو مہندی کا خضاب لگانے سے منع کیا ہے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی المعتدۃ ان تختضب بالحناء (ابوداود فی السنن کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ المعتدۃ فی عدتھا۔
اور ایک روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہندی کو خوشبو قرار دیا ہے ۔ ’’الحناء طیب‘‘ ۔
لہذا بیوہ کو ایام عدت کے اواخر میں بھی مہندی لگانے کی شرعاً اجازت نہیں رہے گی۔

قبرستان میں دنیوی گفتگو کرنا
سوال :  عموماً نماز جنازہ کے لئے وقت باقی رہے تو لوگ گفتگو کرتے ہیں اور قبرستان میں میت کے قریبی عزیز و اقارب تدفین میں مصروف رہتے ہیں اور دیگر رشتہ دار و احباب باتیں کرتے رہتے ہیں، وہ بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کوئی خاص ذکر اس وقت مسنون ہے تو بیان کیجئے ؟
حافظ محمد فاروق ، کالا پتھر
جواب :   نماز جنازہ میں شرکت کرنا تدفین میں شریک رہنا موجب اجر و ثواب ہے۔ اسی طرح کسی کا انتقال کرجانا دنیا کی بے ثباتی پر دلالت کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور ہمارے بدن میں موجود ہماری روح ایک دن اس بدن کو چھوڑ کر روانہ ہوجائے گی پھر اس جسم میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ شخص جو مانباپ کا منظور نظر تھا ، اولاد کا محبوب تھا، دوست و احباب کا دلعزیز تھا ، وہی ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب اس کے بے جان جسم کو جلد سے جلد زمین کے نیچے کرنے کی فکر کریں گے اور اس کے بعد کے منازل اس کو اکیلے ، تنہا طئے کرنے ہوں گے ۔ اس کے ماں باپ ، اولاد ، دوست و ا حباب ، رشتہ دار قبر تک ساتھ آئیں گے پھر واپس چلے جائیں گے ۔ قبر میں تنہا چھوڑ جائیں گے۔ نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مونس پاس ہوگا ۔ بس وہ ہوگا ، اس کے اعمال ہوں گے اور خدا کا فضل ہوگا ۔ اسی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی تر غیب دی کیونکہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔
بناء بریں حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 401 میں ہے : جنازہ کے ساتھ جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور غور و فکر کرے کہ میت کو کیا حالات درپیش ہوں گے اور اس دنیا کے انجام و نتیجہ پر غور کرے اور اس موقعہ پر بالخصوص لا  یعنی بے فائدہ گفتگو سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر و شغل اور نصیحت حاصل کرنے کا وقت ہے ۔ تاہم بلند آواز سے ذکر نہ کرے اور ایسے وقت میں غافل رہنا نہایت بری بات ہے اور اگر وہ ذکر نہ کرے تو اس کو خاموش رہنا چاہئے ۔ وفی السراج یستحب لمن تبع  الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکراللہ تعالیٰ والتفکر فیما یلقاہ المیت وان ھذا عاقبۃ أھل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام فان ھذا وقت ذکر و موعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فان لم یذکراللہ تعالیٰ فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقراء ۃ ولا بالذکر۔

معیشت کی تنگی کے سبب سود پر قرض لینا
سوال :   میرے داماد کا کاروبار بہت اچھا تھا لیکن کسی بدخواہ کی شاید نظر لگ گئی کہ دیکھتے دیکھتے ان کا پورا کاروبار ٹھپ ہوگیا ۔ نقصان پہ نقصان ہوگیا ۔ قرضے ہوگئے ۔ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ اپنی محنت جاری رکھی  اور دوسرا کاروبار انہوں نے اپنے پرانے کاروبار کے ساتھ شروع کیا ۔ لیکن پرانے قرضے باقی ہیں ۔ لوگ تقاضہ کر رہے ہیں۔ اب وہ معیشت سے تنگ آکر سود پر قرضہ لینا چاہتے ہیں اس لئے آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں تاکہ آپ اپنے سوال جواب کے کالم میں ہماری رہنمائی کریں کہ اس طرح سود پرقرضہ لینا درست ہے یا نہیں کیونکہ معاشی مجبوری ہے ۔
عبدالسبحان، ملک پیٹ
جواب :  سود دینے والا شرعاً گنہگار ہے ، اور حدیث شریف میں سود کھانیوالے ، کھلانے والے ، اس  معاملے کو لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے اشخاص پر لعنت وارد ہوئی ہے ۔ عینی شرح بخاری جلد 5 ص : 436 کتاب البیوع فصل موکل الربا میں ہے : ان موکل الربا واکلہ آثمان۔ فتاوی کمالیہ ص : 282 کتاب الحظر والا باحۃ میں ہے ۔ وقدورد فی ذم آکل الربا من الاحادیث مالا یحصی فمنھا : لعن اللہ آ کل الربا و مؤکلہ و کاتبہ و شاھدہ کلھم فی اللعنۃ سواء ۔
معاشی تنگدستی و مجبوری سود کے لین دین اور دیگر شرعی حرام کردہ اشیاء کو قطعا جائز نہیں کرتی البتہ جبکہ کسی انسان پر فاقہ کشی کی وجہ ’’ مخمصہ‘‘ یعنی جان جانے کی حالت آجائے تب اس کے لئے جان بچانے کے موافق حرام چیز کا کھانا جائز ہے ۔ اس کے علاوہ نہیں۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 5 ص 222 کتاب الحظر والا باجۃ میں ہے : (الاکل) للغذاء والشرب للعطش ولو (من حرام او میتۃ اومال  غیرہ ) وان ضمنہ (فرض) یثاب علیہ بحکم الحدیث ولکن (مقدار ما یدفع ) الانسان (الھلاک عن نفسہ و ماجور علیہ )
پس دریافت شدہ مسئلہ میں آپ کے داماد کا معاشی مجبوری کی بناء سودی قرض لینا شرعاً جائز نہیں۔

مسجد اور طہارت خانہ کی تعمیر
سوال :  کیا جہاں نماز پڑھی گئی وہاں طہارت خانے بنائے جاسکتے ہیں یا وہ مقام ہمیشہ نماز ہی کیلئے رہے گا ۔ایک مسجد کی تنگی کی وجہ نماز پڑھی جاتی تھی، اب مسجد کو کشادگی کی بناء وہاں طہارت خانے بنائے گئے ہیں۔ برائے کرم جواب دیں تاکہ مسجد کی کمیٹی کی رہبری ہوسکے ؟
محمد سرفراز خان، ملے پلی
جواب :  مسجد تا قیامت مسجد رہے گی ، اب اس پر نماز کے علاوہ کسی دوسرے مقصد میں اس کا استعمال شرعاً درست نہیں۔ البتہ مسجد میں تنگی کی وجہ سے نماز کے لئے متعینہ حصے کے علاوہ مسجد کی متصلہ اراضی پر یا صحن مسجد میں نماز ادا کی گئی ہو تو اس متصلہ اراضی یا صحن مسجد میں امام مؤذن کے لئے کمرے یا طہارت خانہ بنانا شرعاً جائز ہے۔
درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد 1 ، کتاب الصلاۃ میں ہے : و کرہ تحریما الوط ء فوقہ والبول والتغوط لانہ مسجد الی عنان السماء ۔ رد المحتار میں ہے : و کذا الی تحت الثری (و اتخاذہ طریقا بغیر عذر) و صرح فی القنیۃ لفسقہ با عتبارہ (وادخال نجاسۃ فیہ و علیہ)
لہذا نماز کے لئے مختص حصے میں بوقت توسیع طہارت خانہ بنانا شرعاً مکروہ تحریمی ہے اور اگر وہ اراضی مسجد سے متصل ہو یا صحن مسجد میں ہو لیکن تنگی کی وجہ اس میں نماز ادا کی گئی ہو تو شرعاً متصلہ اراضی یا صحن مسجد میں طہارت خانہ بنانا درست ہے۔

نماز جنازہ ، سنتوں کے بعد پڑھنا
سوال :  میں بنجارہ ہلز کی ایک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک رہا، وہاں عشاء کے فوری بعد ، سنتوں سے قبل نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ بعد ازاں بعض نے سنتیں اور وتر ادا کی اور بعض جنازے کے ساتھ چلے گئے ۔ واضح رہے کہ اس وقت میت میں پھولنے پھٹنے یا کوئی تبدیلی کے آثار نہ تھے، پوچھنا یہ ہے کہ فرض نمازوں کے وقت جنازہ  آجائے تو نماز جنازہ سنت و نوافل ادا کر کے پڑھائی جائے یا فرض کے ساتھ ہی نماز جنازہ ہو ؟
محمد عبدالقیوم خان، بیگم پیٹ
جواب :   صورتِ مسؤل عنہا میں فرض نماز کی جماعت کے بعد سنت ادا کر کے نماز جنازہ پڑھی جائے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔ در مختار برحاشیہ ، ردالمحتار جلد اول ص : 611 میں ہے۔ الفتوی علی تاخیر الجنازہ عن السنۃ وأقرہ المصنف کأنہ الحاق لھا بالصلاۃ اور ردالمحتار میں ہے (قولہ الحاق لھا) أی للسنۃ بالصلاۃ أی صلاۃ الفرض اور ردالمحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص 658 میں ہے ۔ الفتوی علی تقدیم سنتھا علیھا ۔

بعد تدفین دعاء کرنا
سوال :  آج کل ایک فیشن بن گیا ہے کہ نماز جنازہ مسجد کے پیش امام صاحب کے بجائے کسی اور سے پڑھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے پیش امام صاحب کی اجازت کے بغیر پڑھائی گئی نماز جنازہ ادا ہی نہیں ہوتی۔ تدفین کے بعد 40 قدم کی دوری پر جو دعا کی جاتی ہے ، اس کے شرعی احکام کیا ہیں ؟
جنید خان، نامپلی
جواب :  جب مسجد کے مقررہ امام موجود ہوں تو وہی امامت کریں گے۔ ان کی موجودگی میں ان سے قابل اور متقی موجود ہو تب بھی امام ہی بوجہ تعین امامت کریں گے اور اگر امام صاحب ان کو امامت کیلئے کہیں تو وہ امامت کریں گے۔ امام کی بلا اجازت کسی عالم کو آگے بڑھادیا جائے تو نماز ہوجائے گی لیکن امام سے اجازت لے لینا چاہئے کیونکہ وہ مقررہ ہیں۔ بعد تدفین قبر کے پاس کھڑے ہونا اور قرآن کی تلاوت کرنا اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرنا اور منکر و نکیر کے سوال میں اس کے ثابت قدم رہنے کی اللہ سے دعاء مانگنا مستحب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے دفن کے بعد سورہ بقرہ کی پہلی آیتیں اور ختم آیتیں یعنی ’’ الم ‘‘ سے ’’ مفلحون‘‘ تک اور ’’ آمن الرسول‘‘ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب فرمایا (تفصیل کے لئے در مختار باب الجنائز مطلب فی دفن المیت)  عالمگیری  جلد اول باب الجنائز فصل  سادس میں ہے، و یستحب اذا دفن المیت ان یجلسو اساعۃ عندالقبر بعد ا لفراغ بقدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا یتلون القرآن و یدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ النیرۃ ۔ لہذا بعد تدفین کچھ فاصلہ پر میت کی مغفرت اور ثبات قدمی کے لئے دعاء کی جائے تو شرعاً کوئی حرج نہیں ۔