چکن بریانی یا مٹن بریانی

میرا کالم سید امتیاز الدین

بنگلور سے ایک عجیب خبر آئی ہے ، جسے پڑھ کر ہمیں ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ بریانی ایک ایسی ڈش ہے جو ہر ضیافت کی رونق ہوتی ہے ۔ شادیوں کے موقع پر تو اہمیت کے اعتبار سے دلہا دلہن کے بعد بریانی کا نمبر ہوتا ہے ۔ اخبار میں ایک شادی کا حال لکھا ہے جو محض بریانی کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ۔ ویسے تو اس خبر میں دلہا اور دلہن (جو دلہا دلہن نہ بن سکے) کے نام بھی لکھے ہیں ، لیکن ہم رازداری کے خیال سے اُن کے ناموں کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں ۔ شاید بنگلور کی ایک مسجد میں ہونے والی تھی ۔ استقبالیہ بنگلور کے گولڈن ہیرٹیج شادی محل میں ہونا طے پایا تھا ۔ دلہن والے عشائیے میں اور لوازمات کے ساتھ چکن بریانی رکھنا چاہتے تھے لیکن دلہا والوں نے اصرار کیا کہ مٹن بریانی رکھی جائے ۔ اس اختلاف پر دونوں گھرانوں میں بحث و تکرار ہوگئی ۔ دونوں طرف کے بزرگوں نے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ دلہن والوں نے سوچا کہ ابھی شادی تو ہوئی نہیں لیکن چکن اور مٹن کوشاخسانہ بنا کر ایسی توُ توُ میں میں ہوگئی ۔ اگر ایسے گھر میں بیٹی دیں گے تو نہ جانے اور کیا کیا فتنے برپا ہوں گے ۔ ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ رشتہ ہی توڑ دیا جائے چنانچہ انھوں نے شادی ہی منسوخ کردی ۔

اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو ہماری ہمدردیاں دلہن والوں کے ساتھ ہیں کیونکہ انھوں نے شادی کے انتظامات ، شادی خانے کی بکنگ ، رقعوں کی طباعت کے متفرق اخراجات بہرحال برداشت کئے ہوں گے ۔ پھر شادی کی منسوخی سے تھوڑی بہت بدنامی تو ہوتی ہی ہے ۔ ان تمام باتوں کو انھوں نے گوارا کیا لیکن مجبوری کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ شادی ہی منسوخ کردینے کا اقدام کرڈالا ۔ دوسری طرف اگر دلہے والے مٹن بریانی کے اتنے ہی دلدادہ تھے تو وہ اپنے ولیمے میں جی کھول کر مٹن بریانی رکھ سکتے تھے ۔

کہا جاتا ہے کہ شادی کے جوڑے قسمت سے بنتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس لڑکے اور لڑکی کی قسمت میں رشتۂ ازدواج تھا ہی نہیں لیکن اس واقعے کی تشہیر سے کئی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں ۔ مسلم سماج کے لئے بھی یہ ایک شرم کی بات ہے کہ معمولی باتوں پر بنی بنائی بات بگڑ سکتی ہے جیسے شادی زندگی بھر ساتھ نبھانے کا نام نہیں اپنی پسند کی بریانی کھانے کا نام ہے ۔
شادی کے انتخاب میں جن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے ان میں بالعموم صورت شکل ، خاندانی شرافت ، تعلیم ، لڑکے کی آمدنی ، لڑکی کی سلیقہ مندی وغیرہ شامل ہیں ۔ جو لوگ ظاہری شان و شوکت یا لین دین پر نظر رکھتے ہیں ان کو صحیح مسرت کبھی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ مٹن بریانی کی ضد تو اب چھڑی ہے کیا پتہ اور طرح کے تقاضے اور اختلافات سامنے آنے لگیں ۔ اکثر لوگ اپنی لڑکیوں کے لئے پہلے سے ہی زیور بنوالیتے ہیں تاکہ وہ زیور تقاریب میں بھی کام آئے اور شادی کے موقع پر نئے سرے سے خریدنے کی ضرورت نہ پڑے ۔

مان لیجئے کہ دلہن والوں نے زیور خرید لئے لیکن عین شادی سے ذرا پہلے لڑکے والے کہنے لگیں کہ ہم کو فلاں فلاں زیور چاہئے ، آپ کے پہلے سے خریدے ہوئے زیور یا تو خود پہن لیں یا فروخت کردیں ۔ شادی میں صرف ہماری پسند کا زیور چاہئے ۔ اسی طرح بعض لوگ چاہتے ہیں کہ شادی کی تقریب ایسے شادی خانے میں ہو جو شہر کا سب سے شاندار اور مہنگا شادی خانہ کہلاتا ہے ۔ ہم کئی ایسی شادیوں میں شرکت کرچکے ہیں جو محل وقوع کے اعتبار سے دلہا دلہن کے گھروں سے کوسوں دور تھا ۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ آمد و رفت میں مدعوئین کو کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔ نکاح وقت پر نہیں ہوتا کیونکہ دلہا ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوتا ہے ۔ اکثر شادیاں جو محض روپے پیسے کی چکاچوند سے متاثر ہو کر کی جاتی ہیں پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں ۔ آج سے چند برس پہلے تک بھی حیدرآباد میں ایک فضول سی رسم عام تھی جس کو عرف عام میں ’’دھنگانہ پکڑنا‘‘ کہتے تھے ۔ جونہی دلہے کی گاڑی آتی ، دلہن کے رشتہ دار شادی خانے کی پھاٹک بند کردیتے تھے ۔ مطالبہ ہوتا تھا کہ اتنی رقم دو تو پھاٹک کھلے گی ۔ ہماری جان پہچان میں ایک رشتہ طے ہوا ۔ لڑکے کے بارے میں مشہور تھا کہ نہایت پڑھا لکھا اور دولت مند ہے ۔ دلہے کو کسی نے دیکھا نہ تھا بس درمیانی لوگ بات چیت میں پیش پیش تھے ۔دلہا میاں عین شادی کے دن پہنچے ۔ بارات دھوم دھام سے آئی ۔ دھنگانے کی رسم انجام پائی ۔ دلہا میاں نے فوراً مطلوبہ رقم دے دی جس سے دلہن کے بھائیوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ دلہا میاں اپنے کسی پہلوان نما عزیز کی گود میں سوار ہو کر شادی کے منڈپ میں پہنچے ۔ وہ اس قدر گھٹا ٹوپ سہرا باندھے ہوئے تھے کہ کوئی ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ جب نکاح کی کارروائی مکمل ہوگئی تو اصرار ہو کہ سہرا ہٹا کر ایک نظر اپنا رخِ زیبا دکھلایئے ۔ جب انھوں نے سہرا ہٹایا تو پتہ چلا کہ میاں نوشہ تقریباً اپنے خسر کے ہم عمر تھے ۔ سب نے سر پیٹ لیا لیکن اب کیاہوسکتا تھا ۔ میں کیا کروں رام مجھے بڈھا مل گیا والی بات ہوگئی ۔

پچھلے جمعہ کو ہماری مسجد کے خطیب صاحب نے خطبے سے پہلے جو تقریر کی اس سے ہماری آنکھیں کھل گئیں ۔ ہمارے خطیب ایک ممتاز عالم دین ہیں ۔ ان کے پاس کئی مسلم گھرانوں کے مسائل آتے رہتے ہیں ۔ انھوں نے بڑے افسوس کے ساتھ بتایا کہ اکثر مسلم گھرانوں میں تعلیم کی کمی اور مالی بدحالی کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ اتنی بڑھ گئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کی نوبت آجاتی ہے ۔ شوہر جب شام میں گھر آتا ہے تو انتہائی خوشگوار ماحول ہونا چاہئے لیکن بعض لوگ اتنے سخت مزاج ہوتے ہیں کہ ان کے آتے ہی دہشت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ۔ بچے کونوں میں دبک جاتے ہیں ، بیوی دم سادھ کے رہ جاتی ہے ۔ انھوںنے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث سنائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ۔ پھر آپؐ نے خوش اخلاق آدمی کا معیار یہ بتایا کہ اس کا رویہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ محبت آمیز ہو ۔

ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہم اپنے افسروں کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں کیونکہ یہاں افسری اور ماتحتی کا معاملہ ہوتا ہے ۔اسی طرح دوستوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی برتتے ہیں کیونکہ اگر ان کے ساتھ بے رخی برتیں تو وہ بھی دور دور رہیں گے ، لیکن بیوی بچوں کا معاملہ رعایا کی طرح کا ہوتا ہے ۔ اس لئے اُن کے ساتھ حسن اخلاق اصل امتحان ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ جس گھر میں میاں بیوی کے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں اس گھر کے بچوں کی ذہنی نشو ونما صحیح طور پر نہیں ہوپاتی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام شوہر ظالم ہوتے ہیں یا تمام بیویاں مظلوم ہوتی ہیں ۔ خود ہمارے ایک دوست کی بیگم نہایت سخت گیر خاتون ہیں ۔ وہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو شوہر کی پوری تنخواہ اپنے قبضے میں کرلیتی ہیں اور ایک چھوٹی سی رقم شوہر کو بطور پاکٹ منی دے دیتی ہیں ۔ ہم نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اتنی مختصر پاکٹ منی میں تمہارا گزارہ کس طرح ہوتا ہے تو وہ مسکراکر کہنے لگے کہ ماہانہ غلہ اور روزانہ سودا سلف میں لاتا ہوں جس سے میرے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح ہم نے ایک صاحب کے بارے میں سنا تھا کہ جب ان سے ان کی خوشگوار شادی شدہ زندگی کاراز پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان میں اور ان کی بیوی میں ایک معاہدہ ہوگیا تھا کہ گھر کے تمام اہم فیصلے وہ کریں گے اور غیر اہم معاملات کے فیصلے ان کی بیگم کریں گی ۔ ان صاحب نے بتایا کہ شادی کے پچیس سال مکمل ہوگئے لیکن ابھی تک کوئی اہم معاملہ پیش نہیں آیا ۔ تمام معاملات غیر اہم تھے اور سب فیصلے ان کی بیوی کے تھے ۔

بہرحال ، اب جب کہ ہر جگہ شادی کو سادگی سے منانے کی تحریک چل رہی ہے ۔ چکن بریانی یا مٹن بریانی جیسی معمولی باتوں پر برہمی ناراضگی کا اتنا بڑھنا کہ شادی ہی منسوخ ہوجائے نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ دوسروں کی نظر میں مسلم سماج اور ہمارے آپسی اختلافات کو تنقید اور ملامت کا نشانہ بنانے کا سبب بنتا ہے ۔