چڑیا اڑگئی پُھر سے …!

سدرہ نے صحن میں بنے مرغی کے ڈربے کو کھولا تو مرغی کے ساتھ اُس کے بچے بھی پھڑ پھڑاتے ہوئے باہر آگئے۔ سدرہ نے اُن کو دانہ ڈالا وہ دانہ چگنے لگے، اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا نجانے کہاں سے آکر بیٹھ گئی اور دانہ چگنے لگی۔ مرغی نے جو دیکھا تو مٹکتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور چڑیا کو ٹھونک مار کر کہنے لگی ،
’چلو جاؤ یہاں سے میرے بچوں کا دانہ کھانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ سدرہ کی مانو بلی نے مرغی سے کہا ’’ارے بہن مرغی! کیوں بے چاری کو مار رہی ہو، مہمان گھر آئے تو اُس کی خاطر تواضع کرنی چاہئے نہ کہ بھگانا چاہئے یہ کہہ کر وہ ننھی چڑیا کی طرف لپکی، بے چاری چڑیا تو تھر تھر کانپنے لگی، اسے بلی کی آنکھوں میں اپنی موت نظر آئی، وہ ڈر کر پھدکی اور طاق کے ایک گوشے میں جا بیٹھی۔ تھوڑی دیر میں وہاں ایک خوفناک کتا آ نکلا، اُس کی لال لال انگارہ آنکھوں سے چڑیا کو دیکھا، چڑیا کا خوف سے بُرا حال تھا۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کررہی تھی کہ ’’یا اللہ ! مجھے اس مصیبت سے نکال‘‘۔ دن بھر چڑیا طاق میں بھوکی پیاسی بیٹھی خوف سے کانپتی رہی۔ رات ہوگئی، آسمان پر ستارے جھلملانے لگے لیکن ننھی چڑیا اپنی جگہ سے نہ ہلی، پیاس سے اُس کا بُرا حال تھا لیکن وہ باہر نہیں نکل رہی تھی کہ کہیں بلی اُسے اپنا نوالہ نہ بنالے۔ آخر خدا خدا کرکے رات ختم ہوئی اور دن کا اُجالا ہر طرف پھیلنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ایک لڑکا اسکول جانے کے لئے گھر سے نکلا تو اتفاق سے اُس کی نظر چڑیا پر پڑی جو خوف سے دبکی بیٹھی تھی، اُسے اس پر بہت ترس آیا اور بولا ’’اوہ ! بے چاری چڑیا کا شاید کوئی پَر ٹوٹ گیا ہے، اسی وجہ سے یہ اُڑ نہیں سکتی اور یہاں دبک کر بیٹھی ہے، یہ کہہ کر وہ اسکول چلا گیا۔ لڑکے کے منہ سے ’پَر‘ کا نام سن کر چڑیا نے خوشی سے چیخ ماری اور اپنی بے عقلی پر بڑا غصہ آیا اور پھر وہ پُھر سے آسمان کی طرف اُڑی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی۔