چوہوں کا کانٹریکٹ

 

میرا کالم سید امتیاز الدین
سرکاری دفاتر اور اداروں کے خرچے بھی عجیب اور ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ کبھی دو چار روپیوںکا اُلٹ پھیر ہوجائے تو برسوں آڈٹ کے سوال جواب ہوتے رہتے ہیں اور کبھی لاکھوں کی ہیرا پھیری ہوجائے تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ایک ہفتہ پہلے ہم نے ایک انگریزی اخبار میں سرخی دیکھی۔ سرخی تھی ’’ہسپتال میں میں سو چوہوں کو پکڑنے کیلئے ساٹھ لاکھ روپئے خرچ ہوئے‘‘ ۔ ہم نے خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ کرنول کے گورنمنٹ ہاسپٹل میں جون 2016 ء سے لے کر جون 2017 ء تک تین سو چوہوں کو پکڑنے کیلئے کانٹریکٹ دیا گیا تھا جس پر ساٹھ لاکھ روپئے خرچ ہوئے ۔ کنٹراکٹر نے بڑی محنت سے اس عرصہ میں چوہوں اور گھونسوں کا خاتمہ کیا جن کی مجموعی تعداد تین سو تھی ۔ ہم نے بچپن میں پائیڈ پایپر (Pied Piper) کی کہانی پڑھی تھی کہ کسی شہر میں چوہوں کی کثرت ہوگئی تھی تو ایک شخص ایک طرح کی بانسری بجاتا ہوا نکلا اور اُس بانسری کی لے پر تمام چوہے اُس کے پیچھے پیچھے ہولئے اور شہر سے باہر نکل گئے ۔ آج کل ایسے ماہر بانسری بجانے والے ملتے کہاں ہیں۔ چوہے مار کنٹراکٹر نے دواؤں سے یا پھر کس طریقے سے چوہوں کا خاتمہ کیا ۔ معلوم ہوا ہے کہ چوہوں نے ہسپتال کا فرش بھی کھودویا تھا ۔ اب جبکہ چوہوں کے خاتمے کے بعد ہسپتال کا اسٹاف اور مریض اطمینان کی سانس لے رہے ہوں گے۔ فرش کی مرمت کا کانٹراکٹ تیار ہورہا ہوگا ، پتہ نہیں کتنے لاکھ کا ۔ ہم کو اُس سے فی الحال کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ انگریزی اخبار نے چوہے پکڑنے کی خبر چھاپتے ہوئے انتہائی تعجب کا اظہار کیا ہے کہ چوہے پکڑنا اتنا مہنگا کیوں ثابت ہوا ۔ ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ نے یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیا ہے کہ چوہوں نے کئی اہم فائلیں اور قیمتی سامان بھی تباہ کردیا تھا اور یہ کنٹراکٹ متعلقہ وزیر کی منظوری سے دیا گیا تھا ۔ دنیا ترقی کر رہی ہے اس لئے چوہے مارنے کیلئے بھی کانٹریکٹ دیئے جارہے ہیں ورنہ چوہے ما رنے کا کام ایک زمانے میں بلیاں انجام دیتی تھیں۔ فی چوہا بیس ہزار روپئے خرچ ہوئے ۔

آج کل انسانوں کی فطرت میں نمایاں تبدیلی آرہی ہے ۔ انسانوں میں انسانی خصوصیات باقی نہیں رہیں۔ بلیوں میں بھی بلی کی خصوصیات نظر نہیں آرہی ہیں ۔ ہم نے بارہا اپنے گھر میں دیکھا ہے کہ بلی آرام کر رہی ہے ، سامنے سے چوہا گزرا ۔ بلی نے آنکھ کھولی اور ایک ادائے بے نیازی سے آنکھ بند کرلی ۔ دراصل بلی کی نظر گھر کی پکی ہوئی غذاؤں پر زیادہ رہنے لگی ہے ۔ صبح جب دودھ والا دودھ کے پیکٹ کھڑکی میں رکھ کر جاتا ہے تو ہم اپنی ڈھلتی ہوئی عمر کا خیال کئے بغیر بلی سے پہلے دودھ کے پیکٹ اٹھانے کیلئے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ اگر ہم سے ذرا سی بھی غفلت ہوجائے تو بلی ہم سے پہلے پہنچ جاتی ہے اور اس کا ایک پنجہ آدھے لیٹر دودھ کے پیکٹ کو ایک سکنڈر میں فرش پر بکھیر دیتا ہے ۔ جب بلی آدھا لیٹر دودھ دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر جائے تو تو پھر اس کے معدے میں چوہے کی گنجائش کہاں رہے گی ۔ اس لئے کرنول کے ہسپتال نے فی چوہا بیس ہزار کے دام سے تین سو چوہے ساٹھ لاکھ روپئے میں ختم کروائے ہیں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔ بلی اور چوہے کا اردو زبان سے بھی گہرا تعلق ہے اور ہماری زبان کے کئی محاورے ان دو جانوروں کی دین ہیں جیسے کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔ نو سو چوہے کھاکر بلی حج کر نے چلی ۔ ہماری بلی ہم سے میاوں و غیرہ ۔چوہوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن سے ہم کو ڈر لگتا ہے ۔ چھچوندر اور گھونس ۔ اگر یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک گھرمیں آنے لگیں تو ہم ان کو ما رنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ چھچھوندر کا بھی ہماری زبان سے تعلق ہے ۔ ہم کو اس محاورے کے معنیٰ آج تک سمجھ میں نہیں آئے ، چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل ۔ اگر ہم کواس محاورے کے معنی معلوم ہوتے تو ہم کہیں نہ کہیں ضرور استعمال کرتے ۔ اسی طرح ہم سمجھتے تھے کہ گھونس کوئی غیر فصیح لفظ ہے اور صرف حیدرآباد میں بولا جاتا ہے ۔ پچھلی بار جب محترم ضیاء الدین شکیب تشریف لائے تھے تو ہم نے اُن سے پوچھا تھا کہ گھونس کے لئے صحیح لفظ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گھونس بالکل صحیح لفظ ہے اور بطور سند میر تقی میر کا ایک شعر پڑھا جس میں گھونس کا ذکر ہے ۔ اب ہم کو وہ شعر یاد نہیں ہے اور شکیب صاحب بھی علیل اور فریش ہیں۔

ہم نے اپنے کالم کے شروع میں لکھا تھا کہ دفتروں میں عجیب عجیب خرچے ہوتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین صاحب نے اس سلسلے میں ایک دلچسپ قصہ سنایا ۔ ایک بار سکریٹریٹ میں بھی ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا ۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب رشید قریشی صاحب اسسٹنٹ سکریٹری تھے اور بھارت چند کھنہ صاحب کسی محکمے میں ڈپٹی سکریٹری تھے ۔ دونوں نہایت شریف اصحاب تھے اور حسن اتفاق سے مزاح نگار تھے ۔ ایک دن رشید قریشی صاحب اپنے کمرے میں کام کرتے بیٹھے تھے کہ اُن کے کمرے میں ایک سانپ رینگتا ہوا آگیا ۔ سانپ کو دیکھ کر رشید قریشی کا جو حال ہوا ہوگا اس کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے ہیں۔ وہ بمشکل باہر آئے اور مدد کیلئے اپنے چپراسی کو پکارا ۔ چپراسی فوراً ایک سپیرے کو پکڑ کر لایا جس نے سانپ کو پکڑا اور ٹوکرے میں بند کیا ۔ سپیرے کی فیس سو روپئے دفتر سے ادا کی گئی ۔ کچھ دنوں بعد پھر رشید قریشی صاحب کے کمرے میں سانپ برآمدہوا ۔ رشید قریشی کے اوسان پھر خطا ہوئے ۔ چپراسی کے ذریعہ سے پھر سپیرا بلایا گیا ۔ سانپ سے نجات حاصل کی گئی اور دفتر سے سو روپئے فیس پھر دی گئی ۔ کچھ دنوں بعد رشید قریشی کے کمرے میں سانپ پھر نکلا۔ سانپ کی ان ریگولر ویزٹس (Regular Visits) سے رشید قریشی صاحب کو دال میں کچھ کالا معلوم ہوا ۔ انہوں نے اچھی خاصی تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ یہ چپراسی اور سپیرے کی سانٹھ گانٹھ تھی کہ سانپ میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں کے مصداق رشید قریشی صاحب کے کمرے میں آرہا تھا اور سپیرا اور چپراسی مزے اُڑا رہے تھے ۔

خیر ! ہم بات کر رہے تھے کرنول گورنمنٹ ہاسپٹل کی ، جہاں ساٹھ لاکھ روپئے میں تین سو چوہے مارے گئے ۔ ہمارے ملک میں جب کوئی کام ایک بار ہوتاہے تو اسی قبیل کے اور کام بار بار ہونے لگتے ہیں۔ حشرات الارض کی ہمارے ملک میں کمی نہیں۔ سردیوں اور برسات میں مچھر لاکھوں کی تعداد میں پھیل جاتے ہیں۔ برسات میں مکھیاں بے حساب پھیل جاتی ہیں اور کھانے پینے کی چیزوں پر بیٹھنے لگتی ہیں۔ ہیضہ ، ملیریا ، سوائن فلو ان موسموں میں چوطرف انسانی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ چوہوں کے کانٹریکٹ کی طرح مکھیاں مارنے کا کانٹریکٹ ، مچھر مارنے کا کانٹریکٹ بھی دیا جاسکتا ہے ۔ پہلے گھروں پر چوہے دان دیئے جاتے تھے جن میں چوہوں کے کھانے کی چیزوں رکھی جاتی تھیں۔ اب وہ سارے طریقے پرانے ہوگئے ہیں۔ ہر چیز کا کانٹریکٹ بننے لگا ہے ۔ ایک چوہا مارنے کی اُجرت اگر بیس ہزار روپئے ہے تو ایک مچھر کی قیمت پانچ سو یا ہزار سے کم کیا ہوگی ۔ ہمارے ملک میں کسی بھی کانٹریکٹ کیلئے جو رقم مختص کی جاتی ہے کام مکمل ہونے تک وہ رقم چوگنی ہوجاتی ہے ۔ آج سے سو سال یا کم از کم ستر ، اسی سال پہلے تک بھی ہر کام کفایت سے ہوتا تھا اور دیرپا ہوتا تھا ۔ ایک بار ہم نے ایک ماہر آثار قدیمہ کا لکچر سنا تھا ۔ اس لکچر میں انہوں نے بتایا تھا کہ معظم جارہی مارکٹ کی تعمیر کیلئے ساڑھے تین لاکھ روپئے کا بجٹ بنا تھا اور معظم جاہی مارکٹ تین لاکھ ستائیس ہزار 3,27,000 میں مکمل ہوگئی تھی اور باقی رقم سرکاری خزانے میں داخل کردی گئی تھی ۔ اب ایسی باتیں ناقابل یقین لگتی ہیں۔ ہر سال پابندی سے سڑکوں کی مرمت ہوتی ہے لیکن ہر سال پہلی بارش کے بعد ہی سڑکوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ گاڑی چلانا تو دور کی بات ہے پیدل چلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔ لگتا ہے پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں میں چل رہے ہیں۔ اگر ہم گرین حیدرآباد یا سوچھ بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں تو پہلے ہم کو ایمانداری اور ذمہ داری سے کام کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہئے ۔