چندرا بابو نائیڈو تلگودیشم کے خودساختہ قومی صدر، صدی کا سب سے بڑا مذاق

تلنگانہ اسمبلی کے تحلیل کرنے کے اعلان کا خیرمقدم، قائد اپوزیشن تلنگانہ کونسل محمد علی شبیر کا بیان
حیدرآباد ۔ 30 مئی (سیاست نیوز) قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل مسٹر محمد علی شبیر نے مسٹر این چندرا بابو نائیڈو کو خودساختہ قومی جماعت تلگودیشم کے خودساختہ قومی صدر نامزد کرنے کو صدی کا سب سے بڑا مذاق قرار دیا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کا بیان دینے کا خیرمقدم کیا۔ گریٹر حیدرآباد کے انتخابات میں مجلس سے گلی نکڑ پر آر پار کی لڑائی لڑنے کا اعلان کیا۔ آج سی ایل پی آفس اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر محمد علی شبیر نے کہا کہ تلگودیشم کے مہاناڈو پروگرام میں تلگودیشم کو قومی جماعت قرار دیتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو نے اپنے آپ کو خود ساختہ صدر کی حیثیت سے نامزد کرلیا ہے جبکہ قومی جماعت کا اعزاز حاصل کرنے کیلئے کسی بھی جماعت کو ملک کے 4 ریاستوں میں ہونا اور ملک کے جملہ ووٹوں میں 6 فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ تبھی الیکشن کمیشن کسی بھی جماعت کو قومی جماعت کا درجہ دیتی ہے۔ مسٹر محمد علی شبیر نے کہا کہ اترپردیش سے اترانچل کی علحدگی کے بعد بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی نے اترانچل میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اس طرح بہار سے جھارکھنڈ کی علحدگی کے بعدآر جے ڈی نے جھارکھنڈ میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ آندھراپردیش سے تلنگانہ کی علحدگی کے بعد تلنگانہ میں تلگودیشم کا ناقص مظاہرہ رہا ہے۔ 2019ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ سے تلگودیشم کا نام و نشان ختم ہوجائے گا۔ آندھراپردیش میں بھی گمراہ کن وعدوں سے اقتدار حاصل کرنے والی تلگودیشم پارٹی کو آندھراپردیش کے عوام دریائے گوداوری میں پھینک دیں گے۔ حیدرآباد کی 425 سالہ تاریخ سے حیدرآباد کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے کا دعویٰ کرنے والے چندرا بابو نائیڈو حیدرآباد کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو کے پیدا ہونے سے قبل حیدرآباد کا دنیا کے شہرت یافتہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ ہاں البتہ چندرا بابو نائیڈو کو بانی تلگودیشم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے اور ان سے اقتدار چھین لینے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہری کرشنا کو پارٹی میں نظرانداز کرنے اور لکشمی پاروتی کو بے یار و مددگار کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کے 9 سالہ دورحکومت میں ریاست کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ زرعی بحران سے سینکڑوں کسانوں نے خودکشی کی، اریگیشن ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کانگریس کے 10 سالہ دورحکومت میں کسانوں کو مفت برقی سربراہ کرنے کے علاوہ 13 ہزار کروڑ روپئے کے قرضہ جات معاف کئے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں کا جال بچھا دیا گیا۔ فیس ری ایمبرسمنٹ اور اسکالر شپس کے ذریعہ طلبہ کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی گئی۔ مسٹر محمد علی شبیر نے چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی جانب سے ٹی آر ایس کے لیجسلیچر پارٹی اجلاس میں اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کرنے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ جب انتخابات کرائے جائیں گے، کانگریس پارٹی بھاری اکثریت سے اقتدار حاصل کرے گی۔ ٹی آر ایس کو ووٹ دے کر تلنگانہ کے عوام پچھتا رہے ہیں۔ مجلس اور ٹی آر ایس کی دوستی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے قائد اپوزیشن کونسل نے کہا کہ مجلس کو وفاداریاں تبدیل کرنے کی عادت ہے۔ کانگریس اقدار میں تھی تو کانگریس کے ساتھ تھی اب ٹی آر ایس اقتدار میں ہے تو اس کی بانسری پر ڈانس کررہی ہے۔ گریٹر حیدرآباد کے انتخابات میں کانگریس مجلس سے گلی نکڑ میں آر پار کی لڑائی لڑے گی۔