چراغ خود نہیں بجھتے بجھائے جاتے ہیں

سی بی آئی کا بحران … عدلیہ کی برتری
مودی بجھے بجھے … راہول بَہار میں

رشیدالدین
جمہوریت میں مقننہ عاملہ اور عدلیہ کو تین اہم ستون کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی کمزور ہوگا تو جمہوریت کی بنیاد متزلزل ہوجائے گی۔ ان تینوں اداروں میں توازن ضروری ہے۔ توازن کا بگڑنا جمہوریت کیلئے نقصاندہ ہے۔ یوں تو ہندوستان میں تینوں اداروں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے جس کے نتیجہ میں جمہوری نظام پوری آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے۔ حکومت میں شامل افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اداروں کی آزادی اور وقار کا تحفظ کرے۔ اکثر دیکھا گیا کہ ان اداروں میں جب کبھی سیاسی مداخلت ہوئی، اس وقت توازن بگڑ گیا اور اداروں کی کارکردگی متاثر ہونے لگی، جس کا منفی اثر جمہوریت پر پڑا۔ ہر دور میں سیاستدانوں نے عاملہ پر کنٹرول کی کوشش کی۔ کسی نے کم تو کسی نے زیادہ ۔ اس طرح کی مداخلت کے نتیجہ میں کئی باوقار اداروں کے عہدیداروں میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ جب سے اہم عہدوں پر تقررات میں سیاسی مداخلت اور میرٹ کے بجائے سفارش چلنے لگی تب سے زائد صحتمندانہ مسابقت نے کئی اداروں کی امیج کو متاثر کردیا جس کی تازہ مثال سی بی آئی میں جاریہ بحران اور عہدیداروں کا ٹکراؤ ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے بحران کو لوگ بھولے نہیں کہ سی بی آئی میں عہدیداروں کی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی نے اس کی غیر جانبداری اور ایمانداری پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر میں مداخلت کرتے ہوئے تنازعہ کی یکسوئی کے بجائے آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے عہدیدار کے خلاف کرپشن کے معاملہ میں تحقیقات کے آغاز نے حکومت میں ہلچل پیدا کردی۔ وزیراعظم کے دفتر نے دونوں عہدیداروں کو جبری رخصت پر روانہ کردیا اور کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو تبدیل کردیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کو ایک کرپٹ عہدیدار کو بچانے میں دلچسپی کیوں ؟ اس عہدیدار کو بچانے کیلئے نریندر مودی سی بی آئی کے وقار کو داؤ پر لگانے تیار ہوگئے ۔ انہیں تحقیقات تک انتظار کرنا چاہئے تھا۔ اگر عہدیدار واقعی بے قصور ہوتے تو تحقیقات میں کلین چٹ مل جاتی۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب بی جے پی قائدین سی بی آئی کو سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے بجائے کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن کہتے تھے۔ اب جبکہ نریندر مودی نے ادارہ کے معاملات میں مداخلت کی ہے تو کیا سی بی آئی کا نام بدل کر MBI یعنی مودی بیورو آف انویسٹی گیشن رکھ دیا جائے ؟ حالیہ عرصہ میں اپوزیشن کی جانب سے بارہا شکایت کی گئی کہ بی جے پی نے سیاسی مخالفین کے خلاف سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا استعمال کیا ہے۔

ملک کو ہزاروں کروڑ کا چونا لگاکر راہ فرار اختیار کرنے والے صنعت کاروں کے خلاف ان اداروں نے آج تک کوئی ٹھوس کارروائی شائد اس لئے نہیں کی کیونکہ یہ صنعت کار بی جے پی اور نریندر مودی سے قربت رکھتے ہیں۔ عاملہ اور مقننہ میں سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کے بعد عوام کا بھروسہ عدلیہ پر مستحکم ہوا ہے۔ انصاف کے حصول کیلئے عوام عدلیہ سے رجوع ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب عاملہ اور مقننہ سے انصاف کی امید نہ رہے تو عدلیہ کے سوا کوئی اور راستہ بھی نہیں بچا ہے لیکن اب عدلیہ بھی سیاسی مداخلت سے مستثنیٰ نہیں۔ چند ماہ قبل ججس کے درمیان اختلافات اس قدر شدید ہوگئے کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیٹنگ ججس نے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی، ان پر مقدمات کی سماعت کیلئے ججس کے ساتھ جانبداری کا الزام عائد کیا گیا ۔ ان سب کے باوجود بھی عدلیہ کا وقار ، عاملہ اور مقننہ سے بلند ہے۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو چاہے وہ سیاسی ، سماجی اور مذہبی کیوں نہ ہو عدلیہ سے رجوع کیا جارہا ہے۔ مذہبی عقائد کے معاملات میں بھی عدالت فیصلے صادر کر رہی ہے اور حکومت عمل آوری کی پابند ہے۔ سی بی آئی کا جھگڑا بھی سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی جانب سے جس انداز میں فیصلے صادر کئے جارہے ہیں اور عاملہ اور مقننہ پر غیر معلنہ برتری حاصل کرلی ہے، اسے مبصرین کی زبان میں جوڈیشیل Activism بھی کہا جاسکتا ہے۔ عاملہ اور مقننہ کو موجودہ نظام میں ثانوی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ عدالت کے فیصلوں کے آگے عاملہ بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حالیہ عرصہ میں کئی اہم فیصلے صادر کئے گئے جن میں شادی کے بغیر ہی زائد رشتوں کی برقراری کی اجازت دی گئی ہے۔ بے حیائی کو لائسنس دیئے جانے سے متعلق اس فیصلہ پر حکومت اور خواتین کی تنظیمیں بھی خاموش ہوگئیں۔ ایس سی ، ایس ٹی ایکٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر کرنے کیلئے پارلیمنٹ نے قانون سازی کی۔ ٹاملناڈو میں جلی کٹو رسم کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا لیکن عوامی احتجاج کے آگے عدالت کا فیصلہ از خود بے اثر ہوگیا۔ سبری ملا مندر میں خواتین کے داخلے کی اجازت سپریم کورٹ نے دیدی لیکن صدیوں قدیم روایات کا حوالہ دے کر خواتین کو داخلہ سے روک دیا گیا ہے۔ الغرض سپریم کورٹ ملک کے ہر اہم معاملہ میں فیصلے صادر کر رہا ہے۔ سی بی آئی کے بحران سے مرکزی حکومت کی امیج بھی متاثرہوئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی پر سی بی آئی کے امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا گیا۔ رافیل جنگی طیارے کی ڈیل میں 36,000 کروڑ کے اسکام کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ مودی حکومت کو سی بی آئی کے بحران نے گھیر لیا ہے۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا پھر کچھ اور کہ سی بی آئی بحران کے تار بھی رافیل ڈیل سے جڑ رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سی بی آئی ڈائرکٹر نے رافیل طیاروں کی ڈیل کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔ لہذا ان کے خلاف اچانک کارروائی کی گئی۔ بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت اپنے کسی مخالف کو اہم عہدہ پر دیکھنا نہیں چاہتی ، جو کوئی بھی اصول پسندی کا مظاہرہ کرے گا ، اس کے خلاف کارروائی یقینی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سی بی آئی بحران پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کس کے حق میں آئے گا۔

ایسے وقت جبکہ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی دوبارہ اقتدار کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، قومی سطح پر تنازعات نے وزیراعظم نریندر مودی کو دفاعی موقف میں ڈال دیا۔ نریندر مودی جو اپنے لفاظی اور تک بندی کے ذریعہ اپوزیشن کو نشانہ بنانے کیلئے شہرت رکھتے ہیں، ان دنوں بجھے بجھے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رافیل ڈیل کے بعد زائد رقم کی ادائیگی کا معاملہ منظر عام پر آنے سے مودی حکومت کا دفاع کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ رافیل جنگی طیارے مودی کا جیسے تعاقب کر رہے ہیں۔ تینوں ریاستوں کی انتخابی مہم میں نریندر مودی نے رافیل ڈیل کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس معاملت کا دفاع کرتے سنائی دیئے ۔ اب سی بی آئی کا تازہ بحران نریندر مودی کیلئے نیا درد سر بن چکا ہے۔ دوسری طرف مرکز کے ان تنازعات کو کانگریس کے صدر راہول گاندھی پوری شدت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی کے انداز میں کافی نکھار دیکھا جارہا ہے۔ وہ ایک بہترین مقرر ثابت ہوئے ہیں جو اپنی بات رائے دہندوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ راہول گاندھی کی مہم کا مثبت اثر دکھائی دے رہا ہے۔ کل تک نریندر مودی اپوزیشن پر جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے تھے لیکن آج راہول گاندھی کا موقف جارحانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سروے رپورٹ میں کانگریس کی کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ انتخابی مہم میں مودی فکرمند دکھائی دے رہے ہیں اور وہ کانگریس کے حملوں کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف راہول گاندھی جیسے بَہار میں ہوں۔ تینوں ریاستوں میں عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ نریندر مودی اور راہول گاندھی کی شادی کا مسئلہ بھی رائے دہندوں میں دلچسپی کا باعث بن چکا ہے۔ مودی شادی کے باوجود بیچلر ہیں جبکہ راہول گاندھی کو ریئل بیچلر کہا جاسکتا ہے۔ دو بیچلرس میں سیاسی ٹکراؤ کا نتیجہ کس کے حق میں آئے گا عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ مودی اپنی شریک حیات کو گھر واپسی کی اجازت دیں جبکہ راہول گاندھی اپنا گھر بسالیں۔ 2019 ء عام انتخابات سے قبل آر ایس ایس اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں ملک میں انتخابی ماحول کو بی جے پی کے حق میں موڑنے کیلئے متحرک ہوچکی ہیں۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا جبکہ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے رام مندر کی تائید نہ کرنے پر مسلمانوں کو دھمکی دی ہے۔ ان بیانات کا مقصد تین ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ لوک سبھا چناؤ کیلئے ایجنڈہ طئے کرنا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں نریندر مودی نے کبھی بھی جارحانہ فرقہ پرست عناصر کے خلاف کوئی کارروائی توکجا زبان تک نہیں کھولی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام بیانات دراصل مودی کی منظوری سے دیئے جارہے ہیں۔ موہن بھاگوت کیا اس بات سے واقف نہیں کہ ایودھیا کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے، پھر کس طرح بیان بازی کی جاسکتی ہے۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہاں گناہ ہوا کے چھپائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں بجھتے بجھائے جاتے ہیں