چاند کا مسئلہ

سوال :  میں چاند کے متعلق پڑھا تھاکہ پہلی تاریخ کا چاند مکہ مکرمہ میں ہی دکھائی دے گا ، اس کے بعد دوسرے ممالک میں رویت ہوگی، اس اعتبار سے سعودی عرب کے بعد جن ملکوں میں سورج غروب ہوگا ان ممالک میں چاند نظر آئے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا اور تمام عرب ممالک سعودی عرب کے اعلان کے ساتھ رمضان کے روزے شروع کرتے تھے ۔ لیکن چند سالوں سے اطراف کے علاقہ عمان ، متحدہ امارات میں رؤیت میں فرق پایا گیا اور ہمارے یہاں بھی ام القریٰ کیلنڈر میں الگ تاریخ ہوتی ہے اور بعض دفعہ اخبارات میں الگ تاریخ۔
برائے مہربانی یہ بتلائے کہ اخبار کی تاریخ کو مانیں یا امرالقری کی تاریخ کو ؟ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر ختم کرو۔ ہم ہندوستانی، پاکستانی ، بنگلہ دیشی ، پہلی محرم ، دس محرم ، شب معراج ، شب براء ت کو روزہ رکھتے ہیں۔ اس لئے تاریخ کا تعین کس حساب سے کریں۔
محمود حسین فاروقی، جدہ
جواب :  چاند کا مسئلہ شریعت اسلامی کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے۔ اس کے متعلق ائمہ و فقہاء کے درمیان اختلاف رہا ہے ۔ سب سے آسان اور عام فہم اور قابل اعتمار بات یہ ہے کہ جس ملک و علاقہ میں آدمی مقیم ہوں اس ملک و علاقہ کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق چاند کی تاریخ کا تعین ہوگا۔ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام : الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والاضحی یوم تضحون (ترمذی : باب ماجاء الصوم یوم تصومون)
ترجمہ : روزہ  اس دن ہے جس دن تم روزہ رہو اور روزہ ترک کرنا اس دن ہے ، جس دن تم روزہ ترک کرو اور قربانی اس دن ہے جس دن تم قربانی دو۔ امام ترمذی نے متذکرہ حدیث نقل کرنے کے بعد بعض اہل علم کا قول نقل فرمایا : معنی ھذا الحدیث الصوم والفطر مع الجامۃ و عظیم الناس۔ یعنی روزہ افطار کا حکم مسلمانوں کی اجتماعیت پر منحصر ہوگا۔
پس سعودی عرب میں حکومت کی جانب سے باضابطہ رویت ہلال کمیٹی مقرر ہے۔ اس لئے اس کے اعلان کے مطابق آپ عمل کریں۔ ام القری کیلنڈر کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ نیز آپ سعودی عرب میں مقیم ہیں تو عمان اور متحدہ عرب امارات کے اعلان رویت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور علحدہ دن اس کے اعلان پر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جس ملک  و علاقہ میں مقیم ہے وہاں کی رویت ہلال کے مطابق ہی وہ عمل کرے گا اور دیگر تکلفات میں الجھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

نفل طواف بے وضو کرنا
سوال :  مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ پہنچا، عمرہ مکمل کیا، اس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی ، اجابتیں آنے لگیں اور ریح خارج ہونے لگی ، ان کا گروپ واپس ہورہا تھا ، یہ طواف وداع کرنے لگے۔
دوران طواف ریح خارج ہوئی اور وضو ٹوٹ گیا ، بس میں سارے ساتھی سوار ہوچکے تھے ، ڈرائیور فون کر کے جلدی طواف مکمل کر کے آنے کیلئے کہہ رہا تھا ، وہ بغیر وضو طواف مکمل کر کے وہاں سے روانہ ہوگئے۔
اب ان کو کیا کرنا ہوگا ، کیا اس کیلئے ’’دم‘‘ واجب ہے ؟ اس بارے میں شریعت کے حکم سے آگاہ کریں تو مہربانی۔
عبدالمتین، محبوب نگر
جواب :  اگر طواف قدوم یا طواف وداع یا طواف نفل بے وضو کیا تو ان سب صورتوں میں ڈھائی کیلو جو یا سوا کیلو گیہوں صدقہ دے۔ اگر طہارت کے ساتھ اعادہ کرلے گا تو وہ کفارہ ساقط ہوجائے گا ۔ واضح رہے کہ عمرہ میں طواف وداع واجب نہیں ہے۔
پس جس شخص نے عمرہ کے بعد آخری طواف بے وضو کیا وہ حسب صراحت بالا سوا کیلو گیہوں یا ڈھائی کیلو چاول صدقہ کردے۔ اس کی وجہ سے دم کا وجوب نہیں لیکن ہر حالت میں کعبتہ اللہ کے احترام ملحوظ رکھنا چاہئے اور باوضو طواف کعبہ ادا کرے۔

ساس ، خسر کی خدمت
سوال :  نکاح کے وقت اگر لڑکی کی دینداری کو ملحوظ رکھیں تو شادی کے بعد  ذرا سی نااتفاقی پر اپنی غلطی کی اصلاح کی بجائے فتوؤں کا سہارا لیکر مطالبہ کرتی ہیں کہ رہائش الگ کردی جائے اور کہتی ہیں کہ ساس، سسر کی خدمت کرنا بہو پر واجب نہیں ہے ۔ واجبیت غیر واجبیت کی دلیل و معیار کیا ہے ؟
اکثر خاندانوں میں ماں باپ یا تو کسی ایک بیٹے کے قریب ہوتے ہیں یا بعض میں اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے بیٹے پر ماں باپ کی خدمت و دیکھ بھال کی ذمہ داری آ پڑتی ہے اور کئی جگہ اکلوتی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک ملازمت کی وجہ سے بہو کو ذ مہ داری انجام دینی پڑتی ہے ۔
ایسی صورت میں اگر بیوی شوہر کی ذمہ داری کو ماننے اور اس کے فرائض کی ادائیگی میں مدد کرنے کے بجائے الگ رہائش کا مطالبہ کرے تو کیا یہ مناسب بات ہے جبکہ رشتہ طئے کرتے وقت صرف لڑکے کی قابلیت پر نظر ہوتی ہے نہ کہ اس کی ذمہ داریوں پر۔
کیا نکاح سے پہلے لڑکا یہ شرط رکھ سکتا ہے کہ لڑکی کو اس کے ماں باپ کی خدمت کرنا ہوگا جبکہ لڑکی کو علحدہ کمرہ رہائش کیلئے دیدیا جائے ۔
نام ندارد
جواب :  قاعدہ ، قانون ، الگ چیز ہے اور اخلاق و کردار الگ چیز ہے ، ساس خسر کی خدمت بہو پر اگرچہ فرض و واجب نہیں لیکن یہ بہو کے حسن اخلاق ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کی تعظیم و توقیر کرے۔ نیز ہندوستان کا رواج ہے کہ یہاں بالعموم بہو سے ساس سسر کی خدمت کا پاس و لحاظ کی امید کی جاتی ہے۔ ایسے وقت جب اولاد بیرون ملک ہوں اور کوئی ان کی خدمت کیلئے نہ ہو تو اور زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ یہاں کا عمومی رواج و ماحول ہے۔ اکثر اوقات بہو سسرال میں رہنے اور ساس خسر کی خدمت کرنا چاہتی ہے لیکن ساس سسر کی جانب سے اس کی ہر چیز میں مداخلت کی جاتی ہے ۔ اس کو روکا ٹوکا جکاتا ہے ، وہ سسرال میں غیر محفوظ سمجھنے لگتی ہے ۔ یہ پہلو بھی قابل مذمت ہے۔ بہتر صورت یہی ہے کہ بہو ساس خسر کا احترام کرے ، ان کی خدمت کرے اور ساس خسر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بہو کا لحاظ کریں۔ اس کے معاملات میں مداخلت نہ کرے ، کہیں غلطی نظر آرہی ہے تو بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور نہایت خوش اسلوبی سے اس کی غلطی کو واضح کریں۔ پس لڑکا شادی سے قبل لڑکی سے اپنے ماں باپ کی خدمت کی خواہش کا اظہار کرسکتا ہے لیکن شرط نہیں رکھ سکتا ہے اور اگر شرط رکھے تو یہ انعقاد نکاح پر اثر انداز نہیں۔

خلع کیلئے شوہر کی رضامندی
سوال :  کیا مسلم عورت کو خلع لینے کیلئے شوہر کی مرضی اور رضامندی کی ضرورت ہے ؟ تفصیل بیان فرمائیں تو مہربانی۔
نام…
جواب :  خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ خلع بھی طلاق ہی ہے ، فرق یہ ہے کہ طلاق شوہر کی جانب سے دی جاتی ہے اور خلع معاوضہ کے بدل طلاق کا نام ہے۔شریعت کا قاعدہ کلیہ ہے ۔ ’’الغنم بالغرم،  جو نفع کا مالک ہوگا وہ نفقصان کا بھی ذمہ دار ہوگا ۔ جس کی ذمہ داری اور فرائض زیادہ ہوں گے ۔ اس کے حقوق و مراعات بھی زیادہ ہوں گے ۔ عرب کا مقولہ ہے ۔ تولی بارد الشئی من تولی قارھا جو سختی کا ذمہ دار ہوگا وہی نرمی کا بھی حقدار ہوگا ۔
نکاح اگرچہ عاقد و عاقدہ کی باہمی رضامندی و ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے لیکن شوہر مہر کے ذریعہ مخصوص منافع کا مالک ہوتا ہے اور بیوی کے خورد و نوش ، رہائش و دیگر بنیادی ضروریات و اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ انما الطلاق لمن اخذ بالساق (ابن ماجۃ) عورت پر جس کا حق ہوگا وہی طلاق دینے کا اہل ہوگا۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیں کہ یا رسول اللہ مجھے ثابت بن قیس کے دین اور اخلاق پر اعتراض نہیں ہے لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم ان کے باغ کو واپس کردوگی (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا( انہوں نے عرض کیا ہاں : تو آپ نے حضرت ثابت بن  قیس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا تو آپ نے تعمیل کی اور اہلیہ سے جدا ہوگئے ۔
اخرجھا البخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ان امرأۃ ثابت بن قیس أتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ ثابت بن قیس لا أعتب علیہ فی خلق ولادین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اقبل الحدیفۃ و طلقھا تطلقۃ و فی روایتہ لہ انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال : افتردین علیہ حدیقتہ ؟ فقالت نعم ! فردت علیہ و امرہ ففارقھا۔
مندرجہ بالا حدیث شریف سے واضح ہے کہ عورت بذات خود رشتہ نکاح کو زائل و ختم کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر گزارش کی تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معاوضہ کے بدل شوہر کو طلاق دینے کا حکم فرمایا ۔ اسی کو خلع کہتے ہیں یعنی کسی معاوضہ کے بدل بیوی کی خواہش خلع کو شوہر قبول کرے تو ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں میں تفریق و علحدگی ہوجاتی ہے اور بیوی پر مقررہ معاوضہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے ۔ اور اگر بیوی شوہر سے خلع کی خواہش کرے اور شوہر نہ طلاق دیتا ہو اور نہ خلع قبول کرتا ہو، اور بیوی کو لٹکائے رکھتا ہو تو یہ حقیقت میں ظلم ہے ۔ بیوی کو اختیار ہے کہ وہ ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
واضح رہے کہ طلاق و خلع کے احکام قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ شوہر کو طلاق دینے اور خلع قبول کرنے کا اختیار شریعت اسلامی نے دیا ہے ، یہ کوئی اجتھادی اور قیاسی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس پر قرون اولی سے تاحال امت کا عمل درآمد ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہ حقیقت ہے کہ آج بعض مسلم لڑکیاں شوہروں کے ظلم و ستم کے شکار ہیں۔ نہ طلاق دیتے ہیں ، نہ خلع قبول کرتے ہیں اور نہ ہی نان و نفقہ کا انتظام کرتے ہیں اور قانونی چارہ جوئی بھی آسان نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے شریعت کے احکام بدل نہیں سکتے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگا ۔
بعض گوشوں سے یہ کوششیں جاری ہیں کہ خواتین کو بذات خود خلع کے ذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کرنے کا اختیار دیا جائے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ طلاق و خلع کے مسائل ان مسائل میں سے نہیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ احوال و ظروف کے بدلنے اور ممالک کے اختلاف اور عرف و رواج کے بدلنے سے بدلتے ہوں۔ آج اس مسئلہ کو فقہاء کی تنگ نظری قرار دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیا نامعقول و غیر واجبی وجوہات کی بناء واقع ہونے والے طلاق کے واقعات کی بناء پر طلاق کے واقع ہونے کیلئے بیوی کی رضامندی کو مشروط کیا جکاسکتا ہے ؟ قطعاً نہیں۔
بہر کیف خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے ، اگر وہ ناحق لڑکی کو ستا رہا ہے تو وہ ظالم ہے اور ظا لم کو برداشت نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے خلاف طاقت و قوت اور قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے ۔ بسا اوقات لوگ شوہروں کی ظلم و زیادتی سے تنگ آکر ان کو سزا دینے اور دوسروں کے لئے درس عبرت بنانے کیلئے مختلف کیسس کرتے ہیں اور لاکھوں روپیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یاد رکھئے کہ ظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، ظالم کو سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں دے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھیں تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ وان یتفرقا یغن اللہ کلامن سعتہ و کان اللہ واسعاً حکیما ۔ اگر وہ دونوں (میاں بیوی) جدا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دونوں میں سے ہر ایک کو غنی و مالدار اور ایک دوسرے سے بے بنیاز کردے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت و حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء 130/4 )