چالیس ممالک میں 2014ء میں بغاوت کا خطرہ: رپورٹ

واشنگٹن ، 30 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کے ایک موقر اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں تقریباً 40 ایسے ملک ہیں جہاں 2014ء کے دوران فوجی بغاوت کا خطرہ کافی زیادہ ہے۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ میں جن ممالک میں اس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے اْن میں بعض افریقی ملکوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی بغاوت کسی بھی ملک کیلئے اچھی چیز نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور یہ نظامِ حکومت میں بد نظمی کا باعث بنتی ہے۔ اخبار کے مطابق فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جمہوری اداروں کو نقصان پہنچتا ہے جو ان ملکوں میں تشدد اور ظلم کو جنم دیتا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر جے الفیلڈر گزشتہ تین سال سے ایک ایسے ’ماڈ ل‘ پر کا م کر رہے ہیں جس کی بنا پر دنیا کے تقریباً ہر ملک کے بارے میں یہ پیش قیاسی کرنا ممکن ہے کہ آیا وہاں فوجی بغاوت کا امکان ہے یہ نہیں۔ الفیلڈر نے رپورٹ میں تقریباً ایک درجن اسباب کا حوالہ دیا ہے جن کی بنیاد پر ان کے بقول کسی ملک میں فوجی بغاوت ہو سکتی ہے۔

الفیلڈر نے 1960 سے 2010 تک کے حالات کو اپنے ماڈل پر پرکھا اور اسے مزید بہتر کیا ہے جس کے بعد کسی ملک میں ماضی کی فوجی بغاوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ پیش قیاسی کرنا ممکن ہے کہ کیا اس ملک میں مستقبل میں ایسا ممکن ہے یا نہیں۔ الفیلڈر ’ماڈل‘ کے مطابق فوجی بغاوت کا خطرہ زیادہ تھائی لینڈ میں ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق تھائی لینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جہا ں سب سے زیادہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور یہ ملک آج کل مظاہروں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ پاکستا ن و افغانستان میں بھی فوجی بغاوت کا خطرہ موجود ہے لیکن اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ افغانستان میں اس کی وجہ مختلف نسلی اور سیاسی گروہوں کے درمیان رسہ کشی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں فوج ایک آزاد رائے رکھتی ہے جو بغاوت کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔ لیکن ماڈل کے مطابق کمزور سیاسی ڈھانچہ ان دونوں ملکوں میں اس خطرے کی ایک بڑی مشترک وجہ ہے۔ مصر میں جہاں 2013 ء میں فوجی بغاوت ہوئی وہاں 2014ء میں بھی فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔