چار امیدواروں کیخلاف الیکشن کمیشن کی کارروائی

غضنفر علی خان
الیکشن کمیشن نے موجودہ حالت میں چار بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کو بطور سزا مہم میں تین اور دو دن کے لئے حصہ نہ لینے کی پابندی لگادی ہے۔ ان میں سماج وادی پارٹی کے امیدوار محمد اعظم خان، یوگی آدتیہ ناتھ، منیکا گاندھی اور مایاوتی شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کے خلاف یہ کارروائی دیر سے کی ہے اور یہ قدم الیکشن کمیشن نے عدالت کے اس ریمارک کے بعد اُٹھایا جب کہ کورٹ نے کمیشن سے سوال کیاکہ امیدوار جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں، اُن کے بارے میں وہ خاموش کیوں ہے؟ کیا الیکشن کمیشن اُن کی خلاف ورزیوں کے بارے میں سویا ہوا ہے۔ اِن میں بی جے پی کے چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ، بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی، سماج وادی پارٹی کے اعظم خان کے علاوہ جو پارٹی کے سینئر لیڈرس ہیں، بی جے پی امیدوار منیکا گاندھی شامل ہیں۔ ان چاروں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم میں ایک نہیں بارہا نفرت انگیز تقاریر کیں۔ اعظم خاں نے رامپور کے ایک انتخابی جلسہ میں تو حد کردی، اُنھوں نے ان کے مقابل کھڑی ہوئی امیدوار جیہ پردا پر انتہائی رکیک اور اخلاق سے گرا ہوا یہ ریمارک کیاکہ جیہ پردا کو سمجھنے کے لئے 17 برس لگ گئے لیکن اُنھوں نے 17 دن میں اُن کی اصلیت کو پہچان لیا تھا۔ آگے اُنھوں نے یہ بھی کہاکہ جیہ پردا کے انڈرویر کا رنگ خاکی ہے۔ اس سے زیادہ رکیک اور بے ہودہ ریمارک اور کیا ہوسکتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو بارہا ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو ڈرایا اور دھمکایا، جبکہ بی جے پی امیدوار منیکا گاندھی نے اپنے حلقہ میں انتخابی جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ دھمکی دی تھی کہ وہ کسی قیمت پر بھی انتخابات جیت رہی ہیں جس کے بعد حلقہ کے ووٹرس جو مسلمان بھی ہیں، ان ہی کے پاس آنا پڑے گا۔ اُنھوں نے صاف طور پر کہاکہ وہ مہاتما گاندھی کی جیسی نہیں ہیں کہ کوئی انھیں ووٹ دے یا نہ دے، وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے رہیں گے، اُن کا مطلب یہ تھا کہ مسلم ووٹرس سے ’’اس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘‘ کا معاملہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ صرف اُنھیں ووٹ دینے والوں کی ہی نمائندگی کریں گی۔ ایک پارٹی امیدوار کی حیثیت سے وہ کسی مخصوص طبقہ سے یہ کہنے کا کوئی حق نہیں رکھتیں کہ وہ اُن کی نمائندگی نہیں کریں گی۔ اِسی حلقہ کے نمائندہ بننے کے بعد وہاں کے رکن پارلیمان کو تمام لوگوں کی نمائندگی کرنی پڑتی ہے۔ حلقہ کے تمام لوگ اپنے رکن پارلیمان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اُن کے مسائل کی بھرپور نمائندگی کریں۔ مایاوتی جو دو مرتبہ اترپردیش کی چیف منسٹر رہ چکی ہیں اور جو مسلمانوں کی ہمدرد بنی پھرتی ہیں، یہ کہاکہ ’’میں مسلم سماج کے بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مسلمان اپنے ووٹ کو بٹنے نہ دیں، ایک لحاظ سے اُن کی یہ اپیل مسلم طبقہ سے تعاون حاصل کرنے کی ایک کوشش تھی اُن پر مہم میں دو دن تک حصہ نہ لینے کی پابندی عائد کردی گئی۔ بنیادی طور پر مایاوتی نے یہ نہیں کہاکہ مسلمان بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دیں، اپنی پارٹی کے لئے اُنھوں نے ووٹ نہیں مانگا تھا بلکہ عمومی حیثیت سے مسلم ووٹرس کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے ووٹ مختلف سیکولر پارٹیوں میں بٹنے نہ دیں لیکن الیکشن کمیشن نے اُن پر بھی دو دن کے لئے پابندی لگادی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایسی کئی تقاریر پر غور نہیں کیا، بی جے پی کے تمام امیدوار مسلمانوں کے ووٹوں سے نااُمید ہوگئے ہیں۔ اترپردیش میں تقریباً 125 ایسے حلقے ہیں جہاں مسلمان 20 تا 30 فیصد موجود ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے ووٹ بچاتے ہوئے کسی ایک پارٹی کے امیدوار کو کامیاب بنانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا سنگھ پریوار، بی جے پی اور آر ایس ایس کو ہندوتوا کے نام پر ہندو برادری سے ووٹ مانگنے کا حق ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسی طاقتیں اُبھر گئی ہیں جو مسلمانوں کے ہر اقدام کو فرقہ پرستی سے جوڑ دیتی ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہونے کے ناطے ہندوستانی مسلمان اپنے حقوق کے لئے اگر متحد ہوتے ہیں اور کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو اِس میں کوئی فرقہ پرستی نہیں ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں الیکشن کمیشن نے چیف منسٹر اترپردیش پر شکنجہ نہیں کسا، اُنھوں نے تو ہندوستان کی فوج کو وزیراعظم مودی کی فوج قرار دیا تھا جو ملک اور اس کی مسلح افواج کی کھلی اور سراسر توہین ہے۔ مودی، ہرگز ہندوستان نہیں ہے اور ہمارے ملک سے بڑا کوئی شخص واحد نہیں ہوسکتا۔ یوگی کو تو اُن کے اس ریمارک پر پارٹی سے ہی نکال دیا جانا چاہئے۔ ہم ہندوستانی ہیں اور ہماری فوج سارے ہندوستان کی حفاظت کررہی ہے۔ اتنے بڑے ریمارک پر الیکشن کمیشن نے کان تک نہیں دھرا۔ ہندوتوا کے حامی جو چاہے کہتے ہیں، جہاں چاہے امن کو تہس نہس کرتے ہیں لیکن پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن نظرانداز کردیتا ہے۔ اعظم خان اور منیکا گاندھی کی تقاریر سماج میں پھوٹ ڈالنے کے لئے ہے خاص طور پر منیکا گاندھی جو کبھی کانگریس کی لیڈر تھیں اور سابق صدر کانگریس اندرا گاندھی کی چھوٹی بہو ہیں، وہ مسلمانوں کے تعلق سے ایسی سخت بات کہیں گی جس کی اُمید نہیں تھی، ان کا سیاسی سفر کانگریس سے شروع ہوا لیکن بہت کم عرصہ کے بعد ہی وہ بی جے پی میں شامل ہوگئیں اور اُن کے بیٹے ورون گاندھی بھی بی جے پی کا حصہ بن گئے۔ کئی مسلم سیاسی خاندانوں سے اُن کا میل ملاپ بھی ہے۔ لیکن اس قسم کی مسلمانوں کو دھمکی انتہائی شرمناک بات ہے۔ جہاں تک مایاوتی کا تعلق ہے اترپردیش میں اُن کا ذاتی موقف اور اُن کی پارٹی کا اثر اتنا مضبوط ہے کہ کسی بھی وقت وہ بی جے پی کو پچھاڑ سکتی ہے۔ آج بھی جاریہ انتخابات میں اترپردیش کی حد تک بی جے پی مایاوتی سے بیحد خائف ہے اور پارٹی کو یہ اندازہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں اگر اُس کو زیادہ سیٹیں نہ ملیں تو دوبارہ حکمرانی کا خواب بکھر جائے گا۔ موجودہ مہم میں بھی مایاوتی سب سے آگے ہیں۔ اس پارٹی کا دوسری سب سے بڑی پارٹی سماج وادی سے انتخابی مفاہمت بی جے پی کی نیند اُڑادی ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہ دونوں علاقائی پارٹیاں کیا بی جے پی کو شکست دے سکتی ہیں لیکن ان دونوں پارٹیوں نے بی جے پی کو خوف زدہ کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو بے طاقت ادارہ کسی اور نے نہیں خود الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ خاص کر مودی حکومت کے دور میں الیکشن کمیشن کی طرح کئی دستوری اداروں کو مودی نے مفلوج کردیا ہے۔ ہر وقت یہ شکایت ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن ایک ڈر و خوف کے ماحول میں کام کرتا ہے۔ ابھی تک عدلیہ ہی وہ واحد دستوری ادارہ ہے جو بے خوف ہوکر کام کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ عذر سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیاکہ وہ ایک کمزور ادارہ ہے جس کے پاس نہ تو دانت ہے اور نہ طاقت۔ ایسے اہم ادارہ کو اختیارات دینے میں ایک جمہوری حکومت کو فیاضی سے کام لینا چاہئے کیوں کہ ساری جمہوریت کی بقاء کا انحصار الیکشن کمیشن کی غیر جانبدار کارروائی پر ہے۔ مذکورہ چاروں امیدواروں کو جو سزاالیکشن کمیشن نے دی ہے وہ اب بھی علامتی نوعیت کی ہے۔ الیکشن کمیشن کو رائے دہی کے آئندہ کے تمام مرحلوں پر ہوشیار اور چوکس رہنا چاہئے کیوں کہ ابھی کم از کم پانچ مراحل ہونے ہیں اور ان میں جن ریاستوں اور حلقوں میں رائے دہی ہونا ہے وہ بے حد حساس اور سیاسی اعتبار سے اہم ہیں۔ سب تو نہیں لیکن بعض پارٹیاں خصوصاً بی جے پی پوری طاقت لگارہی ہے اور یہ بات بھی کہی جانی چاہئے کہ بی جے پی نے بعض میڈیا ہاؤز کو خرید رکھا ہے جہاں سے الیکشن نیوز کے نام پر صرف مودی کا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ میڈیا جو خریدا جاچکا ہے اپنی شناخت اورا پنی ساکھ کو بڑی تیزی کے ساتھ کھوتا جارہا ہے۔ اگر اس مسئلہ پر بھی الیکشن کمیشن توجہ کرے تو جمہوریت کے لئے یہ بہتر ہے۔