’چائے والا‘ اب ’چوکیدار‘ بن گیا!

رویش کمار
انتخابی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے۔ ابھی تک کوئی پُراثر نعرہ سننے میں نہیں آیا، بلکہ اسی سبب انھیں پریشانی کا سامنا ہے۔ ہوسکتا ہے اسے مستقبل قریب کیلئے محفوظ رکھا گیا ہے لیکن جو کچھ بھی سامنے آرہا ہے وہ محظوظ کرنے والا نہیں ہے۔ 2014ء کا الیکشن یاد کیجئے۔ ’اچھے دن آنے والے ہیں‘ مہم چلائی جارہی تھی۔ اِس مہم کے دوران ایسی مہم چلائی نہ جاسکی۔ جو کچھ اس نعرہ کی آڑ میں لکھا گیا وہ ووٹروں کے بڑے طبقہ کا گیت بن گیا۔ اُصولاً نعرہ یہ ہوسکتا ہے کہ اچھے دن آچکے، اب مزید اچھے دن آنے والے ہیں۔ ویسے اپوزیشن کا بھی اچھا دن رہا ہے، وہ سوال پہ سوال پوچھتی رہی ہے اور حتیٰ کہ بڑی اپوزیشن پارٹی کو اس سے بوریت ہوچکی ہوگی۔ اگر ایسا ہے کہ ’مودی ہی ممکن ہے‘ تو پھر یہ نعرہ چھیڑا جاچکا۔ اگر وہ راس چکر تک پہنچ چکے تو پھر ’ہاں میں بھی چوکیدار ہوں‘ کی مہم یوں سمجھئے کہ شروع ہی نہیں ہوئی۔ بہرحال 2014ء کا ’چائے والا‘ 2019ء میں ’چوکیدار‘ بن گیا ہے!
اپوزیشن کو اِس الیکشن میں منتشر دکھایا جارہا ہے لیکن بی جے پی کے خلاف سب سے بڑی مہم شروع کی جاچکی اور وہ راہول گاندھی کا عائد کردہ الزام ہے۔ راہول نے وزیراعظم پر رافیل کیس میں الزام عائد کیا کہ ’چوکیدار چور ہے‘۔ رافیل مہم میں انیل امبانی نشانے پر ہیں۔ اس کے جواب میں (آیا) سب امبانی کے چوکیدار ہونے کا اعلان کررہے ہیں؟امبانی بھی خوفزدہ ہوں گے، اس لئے کیا وہ دیوالیہ پن سے گزر رہے ہیں۔ اگر اتنے چوکیدار آجائیں اور کم اُجرتوں کی شکایت کرنے لگیں تو مشکل ہوجائے گی۔ ایک سوال اٹھایا گیا اور وہ یہی معاملہ سے متعلق ہے۔ گزشتہ انتخابات میں وزارت عظمیٰ امیدوار نے کہا تھا کہ دہلی میں وہ چوکیدار ہوں گے۔ پانچ سال میں انھوں نے چوکیداروں کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اگر چوکیدار کو پانچ برس میں پولیس اسٹیشن کو جانا نہیں پڑا تو پھر مطلب ہے کہ سسٹم موقوف ہے۔ اِس الیکشن کا نعرہ حوالدار ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں نعرہ یوں ہونا چاہئے ’اُجرت کیلئے کام روک دیا‘۔
جیسے ہی وزیراعظم نے کہا کہ ’میں چوکیدار ہوں‘، اور اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے نام کے ساتھ چوکیدار جوڑ دیا؛ جواب میں راہول گاندھی نے بھگوڑوں کے ساتھ پی ایم کی تصویر ٹوئٹ کی اور لکھا کہ وہ ان لوگوں کے محافظ ہیں۔ دریں اثناء ایم جے اکبر نے چوکیدار کی حیثیت سے مہم چھیڑی۔ رینوکا شہانے کا ٹوئٹ سامنے آیا کہ اگر آپ چوکیدار ہو تو پھر کوئی عورت محفوظ نہیں۔ بعض رپورٹس آئیں کہ اکبر نے چوکیداری سے دستبرداری اختیار کرلی، لیکن توثیق نہ ہوسکی۔ پھر سلسلہ چل پڑا کہ کون کون وزیر نے خود کو چوکیدار قرار دیا ہے۔ جس طرح ورلڈ کپ اور آئی پی ایل میں ٹیم کی جرسی شائقین کو فروخت کی جاتی ہے، اسی طرح یہ نعرہ بھی اس کے حامیوں میں فروخت ہوا۔ گزشتہ الیکشن میں مودی کا مکھوٹا بیچا گیا۔ اِس مرتبہ مکھوٹے لگائے لوگوں کو چوکیدار بنادیا گیا ہے۔ ویسے انتخابات میں سب کچھ ہوتا ہے۔ اگر آپ ووٹر ہو تو آپ کا کسی کے نعرہ سے متاثر ہونا ضروری نہیں ہے۔ آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مسائل کیا ہیں۔
آنے والے دنوں میں سرکاری نوکریاں کنٹراکٹ پر ہوجائیں گی، جہاں آپ نصف تنخواہ سے کم پر کام کروگے، کچھ سہولت دستیاب نہ ہوگی؛ پتہ نہیں کالج میں لیکچرر بھی ہوگا یا نہیں؟ جب آپ چوکیداروں کی حالت دیکھیں تو حقیقت کا پتہ چلے گا۔ جب شہروں کی تعداد بڑھتی ہے تو سکیورٹی کی ضرورتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ایک مارکیٹ بن گئی اور لاکھوں دیہاتیوں کو رنگ برنگی وردیوں میں سپاہی بنادیا گیا جو بڑی بڑی سوسائٹی اور کالونی کی گیٹ کے باہر 12، 12 گھنٹے کی ڈیوٹی کم تنخواہوں پر کرتے ہیں۔ سکیورٹی گارڈ کہتا ہے کہ وہ چوکیدار نہیں۔ ہمارے معاون سشیل مہاپاترا نے بعض گارڈز سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے چہرے اور شناخت کی تشہیر نہیں چاہتے۔ لیکن حقیقی صورتحال دیکھئے کہ لاکھوں لوگ مذاق بن گئے ہیں۔ چیک پوائنٹس پر تعینات ان گارڈز کو حکومت کی طے کردہ اقل ترین اجرتوں کے مطابق تنخواہیں حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ دہلی میں اقل ترین اُجرت کے مطابق انھیں 14,000 روپئے حاصل ہونے چاہئیں، لیکن انھیں دس ہزار روپئے ملتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 600 روپئے فی یوم دیئے جائیں جو 18,000 روپئے کی ماہانہ تنخواہ ہوتی ہے۔ تاہم، یہ اچھا موقع ہے۔ اگر لاکھوں گارڈز اِس الیکشن میں 18,000 روپئے کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں تو مسئلہ اُبھر آئے گا۔ حقیقی واچمین 10 روپئے کیلئے ٹھہرتا ہے اور کروڑپتی لوگ اِس الیکشن میں چوکیدار بن گئے ہیں!
لاکھوں کی بھیڑ میں حقیقی چوکیدار آپ کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ اب یہ بھی نعرہ سننے میں آرہا ہے کہ وزیراعظم کے ٹوئٹر ہینڈل پر اگر بھینسوں کا ٹیاگ لگایا جائے تو وہ بھی چوری ہوجائیں گے۔ ہم نے نیشنل کرائم برانچ بیورو کا ریکارڈ دیکھا ہے۔ 2014ء اور 2016ء کے درمیان ہندوستان میں سرقہ کے معاملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ 2016ء میں ملک بھر میں چوری کے 4,94,404 کیس درج ہوئے۔ 2015ء میں 4,67,833 معاملے ریکارڈ ہوئے۔ 2014ء میں 4,40,915 کیسوں کو درج رجسٹر کیا گیا۔ وزیراعظم کو واچمین بننے کی ضرورت نہیں ہے۔
وزیر ریلوے پیوش گوئل نے بھی خود کو چوکیدار قرار دیا ہے۔ پیش منظر میں چند ہی وزراء ہیں جنھوں نے وزیراعظم کے ٹوئٹ کو دوبارہ ٹوئٹ کیا ہے۔ گزشتہ سال 10 ستمبر کو نیوز سامنے آئی کہ ریلوے میں سرقہ کے زائد از 55,000 کیس گزشتہ ساڑھے تین سال میں درج رجسٹر ہوئے ہیں۔ یہاں بھی چوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء میں چلتی ٹرین میں سرقہ کے 12,592 کیس پیش آئے۔ 2016ء میں 14,619 اشیاء چوری کی گئیں۔ 2017ء میں 18,936 معاملے درج ہوئے۔ 2018ء کے ابتدائی چھ ماہ میں 9,222 کیسوں کا اندراج ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ سرقہ کے کیس میں ہر سال 3,000 سے زیادہ چور گرفتار کئے گئے ہیں۔ 2005ء میں یو پی اے حکومت نے پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے قانون سازی کی اور پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسی ریگولیٹنگ ایکٹ 2005ء منظور کرایا۔ اس میں گنجائش ہے کہ تمام قواعد کا سکیورٹی گارڈ پر اطلاق ہوگا۔ لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں ایسا معلوم ہوا کہ سارقوں کا حوصلہ بڑھتا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نعروں یا جملہ بازی سے حقیقی زندگی نہیں بدلتی۔ ویسے یہ بات اپوزیشن کے زیادہ تر نعروں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
ravish@ndtv.com