پیٹ بڑا بدکار ہے

میرا کالم مجتبیٰ حسین
آپ نے ایسی خبریں تو ضرور پڑھی ہوں گی کہ ڈاکٹر نے کسی مریض کے پیٹ میں سے رسولی کو نکالنے کی غرض سے پیٹ کی سرجری کی ۔ رسولی کو تو باہر نکال لیا لیکن غفلت میں سرجری کی قینچی پیٹ میں رکھ کر بھول گئے ۔ جب بھولی ہوئی قینچی کی یاد آئی تو تب تک ڈاکٹر صاحب کو یہ یاد نہیں رہا کہ وہ اس قینچی کو کون سے مریض کے پیٹ میں کب اور کہاں رکھ کر بھول گئے ہیں ۔ لہذا پیٹ کے سارے سابق مریضوں کی خدمت میں اپنے کارندے اس پیغام کے ساتھ بھجوائے کہ جناب آپ کے پیٹ میں ہماری قینچی رہ گئی ہوتو براہ کرم واپس کردیں ۔ اس کے جواب میں بعض سمجھ دار مریضوں نے لوٹے لے کر مذکورہ قینچی کی تلاش شروع کردی ۔ جو ناسمجھ تھے وہ کارندوں سے بحث کرنے لگے کہ تمہارے ڈاکٹر صاحب کبھی مریض سے فیس وصول کرنا تو نہیں بھولتے مگر قینچی کو مریض کے پیٹ میں رکھ کر کیسے بھول جاتے ہیں ۔

ایسے میں کارندہ بھی اگر اتفاق سے ناسمجھ ہوتو مریض کو سمجھانے لگتا ہے ’’ میاں ایسا کنگال زمانہ آگیا ہے کہ آدمی آج اپنی کوئی بھی چیز کہیں نہیں بھولتا ، مگر پھر بھی گڑبڑ ہوجاتی ہے ۔ یوں بھی دوسرے کے پیٹ میں اپنی کوئی چیز چلی جائے تو چیز کا مالک کبھی اس صورتحال کو برداشت نہیں کرتا کیونکہ ہر آدمی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس دنیا میں جتنا بھی مال ہے وہ سب اسی کے پیٹ میں جائے۔ تبھی تو ایک دوسرے کا پیٹ کاٹنے کی نوبت آتی جاری ہے ۔ اب اگر ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ تمہارے پیٹ میں ان کی قینچی رہ گئی ہے تو ہوسکتا ہے غلطی سے رہ گئی ہو ۔ پھر وہ اپنی ہی قینچی مانگ رہے ہیں تمہاری قینچی تو نہیں مانگ رہے ہیں کہ تم خفا ہونے لگو ۔ ان دنوں ایک پیسے کی چیز بھی کوئی دوسرے کے پیٹ میں یوں ہی نہیں چھوڑتا ، پھر یہ تو قینچی ہے ۔ دیا سلائی کی ڈبیہ نہیں ہے کہ اسے تمہارے پیٹ میں رہنے دیا جائے ۔ قینچی کو بھولنے کی یہ مثال ہم نے یوں ہی دی ہے ۔ بھولنے کو تو آدمی کچھ بھی بھول سکتا ہے ۔ بشرطیکہ منطقی اعتبار سے اس بھول کا کوئی جواز موجود ہو ۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر اپنے دستانے کسی مریض کے پیٹ میں رکھ کر بھول جائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے موزے بھی مریض کے پیٹ میں رکھ کر بھول جائے ۔

پھر بھی آئے دن ایسی عجیب و غریب خبریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں کہ آپ دنگ رہ جاتے ہیں کیونکہ آپ کو ان کا کوئی منطقی جواز نہیں ملتا ۔ پچھلے دنوں ریاض سے یہ خبر آئی ہے کہ سعودی ڈاکٹروں نے ایک ستر سالہ مریض کے پیٹ میں سے ایک ٹوتھ برش کو برآمد کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس مریض نے 22 برس پہلے اس ٹوتھ برش کو نگل لیا تھا ( کیوں نگلا تھا یہ کسی کو نہیں معلوم ) تب سے یہ ٹوتھ برش وہاں خیریت سے تھا ۔ مریض کو بھی پیٹ میں اس کی موجودگی سے کوئی تکلیف نہیں تھی ۔ تاہم ڈاکٹروں نے غالبا سوچا کہ ایک ٹوتھ برش بیکار میں کیوں کسی کے پیٹ میں پڑا رہے۔ باہر نکلے تو کسی ضرورت مند کے کام آئے گا اور ضرورتمند کے دانت چمکنے لگ جائیں گے ۔ اب ہم اس خبر کو پڑھ کر حیران اور پریشان ہیں ۔ پہلے تو یہ وجہ سمجھ میں نہ آسکی کہ مریض نے 22 برس پہلے اس ٹوتھ برش کو کیوں نگلا تھا ۔ کیونکہ ٹوتھ برش کھانے کی چیز تو ہے نہیں ۔ کسی حد تک ٹوتھ پیسٹ میں ذائقہ ہوتا ہے ۔ اگر یہ اچھی کمپنی کا ہوتو لذیذ بھی لگتا ہے ۔ لیکن ٹوتھ برش میں بذات خود کوئی ذائقہ نہیں ہوتا ۔ پھر اس کی ساخت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے آسانی سے حلق کے نیچے اُتارا نہیں جاسکتا ۔ ٹوتھ برش ، مونگ پھلی یا کاجو کی طرح تو ہوتا نہیں کہ جب جی چاہا منہ میں ڈال لیا اور پیٹ میں پہونچا دیا ۔ ہم تو اس بات پرحیران ہیں کہ یہ پیٹ میں کس طرح پہونچا ۔ آدمی ہمیشہ سے پیٹ میں اچھی اور قیمتی چیزیں ہی داخل کرتا آیا ہے ۔ چٹپٹی اور مرغن غذائیں تو عموما پیٹ میں جاتی ہی ہیں بسا اوقات کسٹم والوں کے ڈر سے سونے کے بسکٹ ، اشرفیاں اور ہیرے جواہرات بھی پیٹ میں داخل کئے جاتے ہیں ۔ کبھی کبھی بچے بھی غلطی سے سکے نگل لیتے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت ہمیں اپنے ایک دوست کی یاد آرہی ہے جن کے بیٹے نے ایک اشرفی نگل لی تھی ۔ ہمارے ان دوست نے سارا ماجرا سنانے کے بعد پریشان ہوکر ہم سے پوچھا تھا کہ کیا تم کسی اچھے اور قابل اعتماد ڈاکٹر کا پتہ بتاسکتے ہو جو میرے بیٹے کے پیٹ میں سے اشرفی کو نکال سکے ۔ اپنی پیچیدہ فطرت کے باعث ہم نے اس سیدھے سے استفسار کا مطلب یہ سمجھا کہ ہمارے دوست کو اصل میں ایک ایسا ایماندار اور نیک نیت ڈاکٹر درکار ہے جو اشرفی کو بچے کے پیٹ میں سے نکالنے کے بعد امانت میں خیانت کئے بغیر اشرفی کو بچہ کے والدین کے حوالے کردے اور فیس کا حوالہ دے کر اسے خود سے ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کرے ۔

اس پر ہم نے کہا ’’ ایسی حالت میں مناسب یہ ہوگا کہ جب ڈاکٹر بچے کے پیٹ میں سے اشرفی کو برآمد کرنے لگے تو اس وقت احتیاطی تدبیر کے طور پر پولیس کو بھی طلب کرلیا جائے تاکہ ڈاکٹر کی نیت خراب نہ ہوجائے ۔ ہمارے اس جواب پر ہمارے یہ دوست ہم سے برسوں ناراض رہے ۔ انہیں یہ شکایت تھی کہ ہم انہیں بھی اپنی ہی طرح کا انسان سمجھتے ہیں ۔ جو خود تو بڑا بے ایمان ہوتا ہی ہے دوسروں کو بھی بے ایمان سمجھتا ہے ۔ اصل میں پیٹ کا معاملہ ہی نازک ہوتا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں کہ پیٹ میں صرف کھانے پینے کی چیزیں ہی داخل ہوں ۔ ایک بار ہم نے خبر پڑھی تھی کہ کسٹم والوں نے ایک مسافر کے پیٹ میں سے کئی سو ڈالر کے کرنسی نوٹ برآمد کئے جو کپسول میں رکھ کر پیٹ میں داخل کئے گئے تھے ۔ یوں بھی آئے دن مسافروں کے پیٹ میں سے سونے کے بسکٹ ، چرس کے پیاکٹ اور ہیرے جواہرات وغیرہ برآمد ہوتے رہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ چیزیں مزیدار اور لذیذ ہوتی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیٹ بڑا بدکار ہے اور یہ آدمی کے جسم کے دوسرے اعضا سے غلط سے غلط کام کرواتا رہتا ہے ۔ پیٹ اتنا بدکار ہے کہ آدمی کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ اپنا ضمیر بیچ دے ۔ اپنی نیت خراب کرلے اور دوسروں کو دھوکہ دینے لگ جائے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس کے بعد صرف مرغن غذائیں اور لذیذ چیزیں کھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ حرام کی کمائی تک کھانے لگ جاتا ہے ۔ پھر تو اُس کا پیٹ ایسی ایسی چیزیں کھانے کا عادی ہوجاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ مثلا آدمی جھوٹی قسمیں کھاتا ہے ، رشوت کھاتا ہے ، گالیاں کھاتا ہے بلکہ جوتیاں تک کھاجاتا ہے ۔

اب ہم ان اشیاء کی فہرست کو کہاں تک طول دیں جنہیں آدمی اکثر کھاتا رہتا ہے ۔ آپ خود اس فہرست میں ان چیزوں کو شامل کرلیں جو آپ آج کے زمانے میںکھانے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ سعودی باشندے کے پیٹ میں ٹوتھ برش کے ملنے پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ ٹوتھ برش کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے رہنے پر کسٹم والوں کو اعتراض ہو ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم اپنا قلم خود کھالیں یا کنگھی کھالیں یا شیونگ برش کھالیں ۔ بھئی ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی والا معاملہ ہے ۔ ہمیں تو وہ ڈاکٹر بھی اچھے معصوم اور سادہ لوح نظر آتے ہیں جو اپنے نشتر ، قینچیاں اور سرجری کے دیگر اوزار مریضوں کے پیٹوں میں بھولے سے رکھ دیتے ہیں ۔ یہ ان کی بڑائی اور اعلی ظرفی نہیں تو اور کیاہے کیونکہ ان دنوں آدمی اپنی کوئی چیز ، چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو ، کسی دوسرے کے پیٹ میں جاتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا ۔ پیٹ ہے ہی ایسی بدکار چیز ، یہ الگ بات ہے کہ آدمی کبھی کبھی بے خیالی میں اپنی چیزیں ادھر اُدھر رکھ کر بھول جاتا ہے ۔ لیجئے ہمیں اس وقت اپنے ایک آرٹسٹ دوست یاد آگئے جن سے ہم نے اپنے دفتر کی ایک کتاب کا ٹائٹل بنوایاتھا ۔ اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرنے کی غرض سے وہ ہمارے پاس آئے تو ہم نے معاوضہ دینے سے پہلے خواہش کی کہ وہ ایک کاغذ پر رسیدی ٹکٹ لگاکر دستخط کردیں ۔ اتفاق سے ان کے پاس اس وقت رسیدی ٹکٹ نہیں تھا ۔ لہذا ہم نے ہی ازراہ عنایت انہیں اپنے پاس سے رسیدی ٹکٹ دے دیا ۔ اس کے بعد پھر بڑی دیر تک ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں ،جب رسیدی ٹکٹ پر دستخط کرنے کی نوبت آئی تو معلوم ہوا کہ رسیدی ٹکٹ کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ کمرے میں ہرجگہ رسیدی ٹکٹ کو تلاش کیا لیکن یہ نہ ملا ۔

ہم خود حیران رہ گئے کہ ابھی پانچ منٹ پہلے جو چیز انہیں دی تھی وہ کیسے غائب ہوگئی ۔ یقین مانئیے پورا ایک گھنٹہ اس رسیدی ٹکٹ کو تلاش کرنے میں ضائع ہوگیا ۔ پھر اچانک ایک کوندے کی طرح ایک خیال ہمارے ذہن میں آیا اور ہم نے اپنے آرٹسٹ دوست سے کہاکہ وہ ذرا اپنی زبان باہر کو نکالیں ۔جیسے ہی ان کی زبان باہر نکلی ہم نے دیکھا کہ رسیدی ٹکٹ ان کی زبان پر ٹکا ہوا ہے ۔ گویا ہمارے آرٹسٹ دوست نے ٹکٹ کی گوند والی سطح کو گیلا کرنے کیلئے اسے زبان پر تو رکھا لیکن اسے کاغذ پر چسپاں کرنا بھول گئے ۔ اگر اس اثناء میں ہمارے دوست نے خدانخواستہ پانی پی لیا ہوتا تو یہ رسیدی ٹکٹ بھی ان کے پیٹ میں چلا جاتا اور کیا عجب کہ اس ٹکٹ کو باہر نکالنے کیلئے کسی ڈاکٹر کی خدمات سے استفادہ کرنا پڑتا ۔ حالانکہ ایسی چیزوں کو پیٹ میں سے برآمد کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی ۔ اب جو سعودی عرب کے ڈاکٹروں نے ستر سالہ مریض کے پیٹ میں سے ٹوتھ برش نکالا ہے تو یہ بھی فضول خرچی ہے اور اس کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے ۔ اگر ڈاکٹر حضرات انسان کے پیٹ میں سے کوئی چیز نکالنا ہی چاہتے ہیں تو کسی ایسے آدمی کو ڈھونڈیں جس نے کسی کی جائیداد ہڑپ کرلی ہو یا کسی کا حق مار کر کھاگیا ہو ۔ اگر آپ کسی غاصب کا پیٹ چیر کر کسی مظلوم کو اُس کا حصہ دلوادیں تو یہ بھی طب کی ترقی کا کمال ہوگا ۔ مالداروں نے غریبوں کے پیٹ کاٹ کر اپنے پیٹ بڑے کرلئے ہیں ۔ بعض تو چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ اگر ڈاکٹر حضرات مالداروں کے پیٹ چیر کر ان میں چھپی ہوئی غریبوں کی خوشحالی کو برآمد کرنے کا سلسلہ شروع کریں تو یہ ایک کارنامہ ہوگا ۔ پیٹوں میں سے صرف روکھی سوکھی قینچیاں ، ٹوتھ برش اور اشرفیاں وغیرہ برآمد کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ اس سے بھلے ہی طب کی ترقی ہوتی ہو سماج اور معاشرے کی ترقی نہیں ہوگی ۔