پیام شہادت

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
پیام شہادت
آج یوم عاشورہ ہے ۔آج ہی کے دن میدان کربلا میں یزیدی فوج نے نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین ؓکو شہید کردیا تھا ۔ امام علی مقام نے دین اسلام کی خاطر باطل طاقتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے بے سر و سامانی کی حالت میںان طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کی سربلندی کو یقینی بنانے کیلئے جنگ کی ۔ امام عالی مقام نے اپنے اہل خانہ کی شہادتوں کو قبول کرلیا اور خود بھی بحالت سجدہ اپنا سر قلم کروالینا قبول کرلیا لیکن یزیدی اور باطل طاقتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ امام عالی مقام نے اپنی شہادت کے ذریعہ ساری انسانیت کے نام جو پیام دیا ہے آج اسی پیام کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج بھی دنیا بھر میں یزیدی طاقتیں حسینیی عزائم رکھنے والوں کاعرصہ حیات تنگ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ باطل طاقتیں آج بھی حق کو دبانے کیلئے کمربستہ ہیں۔ ساری دنیا میں ایک طرح کی بے چینی اور نراج کی کیفیت ہے ۔ آج بھی ساری دنیا میں حسینی کردار اور مزاج کے ذریعہ ایک سبق عام کرنے کی ضرورت ہے جس کا درس ہمیں امام عالی مقام حضرت سید نا امام حسین نے کربلا میں دیا تھا ۔ آج ساری دنیا میں حسینی کردار ہی کے ذریعہ امن و سکون قائم کیا جاسکتا ہے ۔ معرکہ کربلا سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم چاہے کتنی بھی بے سر و سامانی کی حالت میں ہوں ‘ ہمارے وسائل بھلے ہی کتنے محدود کیوں نہ ہوں اور ہمارے سامنے یزیدی طاقتوں کے وسائل کتنے ہی لا محدود اور وسیع کیوں نہ ہوں حق ہمیشہ حق رہتا ہے اور حق کیلئے اگر ہمیں جام شہادت نوش کرنا بھی پڑے تو ہم کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ معرکہ کربلا کوئی سیاسی لڑائی نہیں تھی بلکہ یہ اسلام کی سر بلندی کی لڑائی تھی اور یہ حق و باطل کی جنگ تھی ۔ یزیدیت اس لڑائی کے بعد دنیا میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہی اور صبح قیامت تک امام حسین زندہ ہیں اور ان کا پیام زندہ ہے ۔ ان کا کردار زندہ ہے جو ہمیں اپنی زندگیوں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے ۔ امام حسین کی شہادت سارے عالم اسلام کیلئے مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی زندگیوں اور اپنی آخرت کو بھی روشن بناسکتے ہیں۔ جو پیام ہمیں امام عالی مقام کی شہادت سے ملتا ہے اگر ہم اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں تو آج پھر ایک بار ہم ساری دنیا میں سربلندی حاصل کرسکتے ہیں ۔
امام حسین نے کربلا کے میدان میں جام شہادت نوش فرماتے ہوئے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں کتنے ہی نا مساعد حالات کا سامنا کرنا کیوں نہ پڑے ہم کو اپنے خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہئے ۔ امام عالی مقام نے جنگ کے دوران نیزوں کی چھاؤں اور تلواروں کی جھنکار میں بھی نماز کو اولین ترجیح دی اور یزیدی طاقتوں نے اسی موقع کو غنیمت جان کر امام عالی مقام کو شہید کردیا ۔ آج ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ و علیہ و صلعم کے پیارے نواسے کی تعلیمات اور آپ کے درس پر کس حد تک عمل پیرا ہیں۔ آج ہماری زندگیوں کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے حقیر دنیاوی مقاصد اور مصروفیات کا عذر پیش کرتے ہوئے نمازوں کیلئے وقت نہیں نکال پا رہے ہیں۔ ہم اپنی زندگیوں میں مفادات کی خاطر یزیدی طاقتوں کی برتری کو تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ کچھ تو یزیدی طاقتوں کے ہمنوا اور آلہ کار بن جاتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم دنیا بھر میں بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہماری کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کی ایک وہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو نظر انداز کردیا ہے اور ہم نے کربلا میں ہوئے معرکہ حق و باطل کو فراموش کردیا ہے ۔ ہم نے نواسہ رسول کی شہادت کو فراموش کردیا ہے ۔ ہم نے اہل بیت اطہار کرام کی شہادتوں کو فراموش کردیا ہے ۔ ان شہادتوں سے ہمیں جو درس اور تعلیمات حاصل کرنی چاہئے تھیں ہم نے انہیں فراموش کردیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا میں یزیدی طاقتیں ایک بار پھر سر ابھار رہی ہیں۔ یہ طاقتیں ذلیل و رسوا طاقتیں ہیں ۔ یزید ملعون تو خود جہنم رسید ہوگیا لیکن اس کے نقش قدم پر چلنے والی کئی طاقتیں سر ابھار رہی ہیں ۔ اسی طرح ہم کو بھی نواسہ رسول کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کے سامنے مثال بننے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک امام عالی مقام کی شہادت کے پیام کو سمجھ پائے ہیں اور اس پیام کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا ہے تو اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں یہ کردار پیدا کریں کہ یزیدی طاقتیں ہم کو دیکھ کر اپنے لئے خطرہ محسوس کریں۔ جس طرح امام عالی مقام نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے رہتی دنیا تک کیلئے اسلام کی اور اپنی سر بلندی کو یقینی بنایا ہے ہم بھی حسینی کردار کے ذریعہ اسی بلندی تک پہونچنے کی کوشش کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم پیام شہادت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔