پہلے مرحلہ کے دوران انتخابی مہم میں بے شمار غلطیاں

غضنفر علی خان
ہزاروں رقتوں اور رکاوٹوں کے باوجود ملک کے عام انتخابات کا پہلا مرحلہ گزر گیا لیکن ان معنوں میں یہ اچھی بات ہوئی کہ بعض حساس پارلیمانی حلقوں میں کوئی ناگوار واقعہ نہیں ہوا ۔ مجموعی طور پر پہلے مر حلہ میں کوئی جھگڑا و فساد نہیں ہوا اور پارٹیوں نے دل کھول کر روپیہ پیسہ خرچ کیا اور اسی فیاضی کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو گالی گلوج بھی کی ۔ الیکشن پلیٹ فام پر جو تقاریر ہوئیں اس میں بلا لحاظ پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف بدکلامی کی کسی نے خیال نہ کیا کہ ایسے مواقع پر پار لیمانی زبان استعمال کرنی چاہئے، اس بے قاعدگی کے مرتکب یوں تو تمام پارٹیاں ہیں لیکن جس فراخدلی سے وزیر اعظم نریندر مودی نے غیر معیاری و غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی اس کیلئے انتخابات کا یہ پہلا مرحلہ ہمیشہ یاد کیا جائے گا ، اگر یہی رجحان آئندہ مراحل پر رہے تو پھر ہندوستانی عوام کی یہ حسرت رہ جائے گی کہ پلیٹ فارم پر کہیں سے کوئی پارٹی اخلاقی دائرہ میں رہ کر اپوزیشن کی مخالفت اور اپوزیشن حکمراں پارٹی کی مخالفت نہیں کرے گی۔ مخالفت جب تک اصولوں کے حصار میں رہ کر ہوتی ہے تو اس کو خوش آمدید کہنا چاہئے لیکن جہاں یہ حدود ختم ہوتے ہیں ، وہاں ان کا انسداد کیا جانا چاہئے ۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ضابطہ اخلاق بنایا اور اسے نافذ بھی کیا لیکن بلا تخصیص سیاسی پارٹیاں اس ضابطہ اخلاق کو خود پر لاگو نہ کرسکیں اور ضوابط و قواعد کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔ الیکشن کمیشن خدا جانے کن مجبوریوں کے تحت اس ضابطہ اخلاق کو سختی سے نافذ نہ کرسکا ، الیکشن کمیشن کو یہ اندازہ تو تھا کہ مودی خود اپوزیشن کے خلاف ایسے الزامات عائد کریں گے جن کو عام آدمی کی عقل سلیم تسلیم ہی نہیں کرے گی ، ان کی اس بے اعتدالی پر بی جے پی کے بزرگ لیڈر ایل کے اڈوانی نے بھی ایک طرح سے تنقید کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہر اس پارٹی یا شخص کو مخالف ہندوستان نہیں سمجھا جاسکتا جو بی جے پی کی صفوں میں شامل نہیں ہے ، یہ سلسلہ مودی نے الیکشن سے بہت پہلے اس وقت سے شروع کردیا تھا جب وہ بیرونی ممالک کے دوروں پر کانگریس کی سابقہ حکومت کو عدم کارکردگی یا ناقص کارکردگی کے لئے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے ۔ ان بیرونی ممالک کی تقاریر میں انہوں نے جوا ہر لال نہرو سے لے کر راہول گاندھی ، راجیو گاندھی ، اندرا گاندھی سونیا گاندھی غرض کانگریس کے بے حد سینئر لیڈرس کو تک نہیں بخشا ۔ مودی نے بارہا کہا کہ پہلے کی کانگریس حکومتوں نے بے تحاشہ لوٹ ما ر کی تھی ، وہ ملک کے ہر مسئلہ کے لئے کانگریسی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا کرتے تھے اور آج بھی ان کے خیال میں ملک کی تمام برائیاں معیشت سے لے کر غربت تک اسی کانگریس کی کمزور حکومتوں کا عطیہ ہے ۔ مودی کی کانگریس پر اس تنقید نے بی جے پی پارٹی کی تمام چھوٹے بڑے لیڈروں کے حوصلے بڑھا دیئے اور وہ ا پنی پارٹی اور سنگھ پر یوار کے علاوہ تمام پارٹیوں کو بلا جھجک ملک دشمن قرار دینے لگے ۔ الیکشن کا موسم جیسا ہی آیا مودی کی نظر میں ساری سیاسی جماعتیں ملک دشمن ’’دیش دروہی ‘‘ بن گئی ، یہیں سے شخصی تنقیدیں اور حملے شروع ہوئے۔ مودی اگر آج یہ کہتے ہیں کہ کانگریس اور اپوزیشن جماعتیں اپنا ایک متحدہ محاذ بناکر ان کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتی ہے تو یہ بات یکسر غلط اور گمراہ کن ہوگی ۔ ا لیکشن ہوتے ہی مقابلہ آرائی کیلئے کانگریس نے شخصی تنقیدوں کو اسی انداز میں اپنا وطیرہ بنالیا ہے جس طرح سے بی جے پی اور نریندر مودی نے بنایا ہے، ایسے الفاظ جو مخالفین کے لئے استعمال نہیں کئے جاسکتے۔ راہول گاندھی بہر صورت اس معاملہ میں احتیاط برتنی چاہئے تھی جو انہوں نے ملحوظ نہیں رکھی اور جس طرح مودی کے زیر اثر بی جے پی کے لیڈروں نے شخصی حملے اور تنقید جاری رکھی ، اسی طرح سے کانگریس نے بھی کیا ، پہلے مرحلے کے دوران دور دور تک یہ پتہ نہ چلا کہ قومی الیکشن کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق ہے ۔ بڑی آزادی کے ساتھ شخصیات کو روندا گیا ، مسائل کا کسی بھی پارٹی نے سنجیدگی کے ساتھ جائزہ نہیں لیا ۔ اب یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں بھی پارٹیوں کا یہی طرز عمل ہوگا ۔ اخبارات اور میڈیا نے بھی مہم کے دوران اس اخلاقی گراوٹ پر شدید تنقیدیں کیں لیکن پارٹیوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں کی ۔ میڈیا کا یہ کام کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ قومی سطح کے لیڈروں کو اخلاقیات کا درس دیں، بہرحال ایک انتہائی اخلاق سے گری ہوئی اس مہم میں بڑی دقتیں ہوئیںاور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کسی اصول کوپارٹیوں نے نہیں مانا اور جب کہ پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے، ابھی چھ مراحل باقی ہیں اوران میں سے بعض تو بہت حساس علاقے بھی ہیں اس وقت (پہلے مرحلے تک ) بی جے پی مغربی بنگال کو اپنا نشانہ بنائی ہوئی ہے ، جہاں سے اس کے مقابلہ پر صدر ترنمول کانگریس چیف منسٹر ممتا بنرجی ہیں جو انتہائی طاقتور لیڈر ہیں ۔ مغربی بنگال میں کبھی بھی فرقہ وارانہ رجحان نہیں پایا گیا ، وہاں 26 سال تک مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی حکمران رہی اور آنجہانی جیوتی باسو اس تمام عرصہ کے دوران چیف منسٹر رہے ، اس کے بعد ممتا بنرجی نے سی پی ایم کی حکومت کو شکست دے کر موجودہ سیکولر حکومت قائم کی تھی۔ بی جے پی کا مغربی بنگال میں کوئی اثر آج تک نہیں دیکھا گیا اس لئے بی جے پی اور خاص طور سے مودی سر پھوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ مغربی بنگال میں کچھ پارلیمانی نشستیں ان کے حصہ میں آجائیں لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ مغربی بنگال کی عوام بی جے پی کے فرقہ پرستی سے کبھی بھی متاثر نہیں تھے اور نہ اب متاثر ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ بی جے پی کی زور آزمائی کی وجہ سے اس اہم ریاست میں بی جے پی اور ترنمول کانگریس ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور ان دونوں کے درمیان کانگریس بھی کھڑی ہے، اگر مغربی بنگال سے 30 تا 35 نشستیں ترنمول کانگریس کو ملتی ہیں تو یہ بات ایک سیکولر قومی حکومت کی تشکیل میں بہت مددگار ثابت ہوں گی۔ ہر پار ٹی ملک بھر میں مسلمانوں کے ووٹوں کے حصول کیلئے زور لگارہی ہے ۔ یو پی میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پا رٹی کے علاوہ سابق وزیر اعظم آنجہانی چودھری چرن سنگھ کے بیٹے کی قیادت میں ان کی پارٹی بھی اس محاذ میں شامل ہے، یو پی کے شہر سہارنپور میں ان پارٹیوں کی ایک ریالی سے خطاب کرتے ہوئے مایاوتی نے یہ بھی کہا کہ میں ’’مسلم سماج سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنا ووٹ بٹنے نہ دیں‘‘ بس اسی بات کو پکڑ کر بی جے پی نے دھما چوکڑی مچادی ہے اور مایاوتی کے خلاف الیکشن کمیشن نے کارروائی کرنے کی درخواست بھی دی ہے ۔ مایاوتی نے ضابطہ اخلاق کی ان معنوں میں کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کیلئے مسلمانوں کا ووٹ نہیں مانگا بلکہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنا ووٹ بٹنے نہ دیں ، ایسی اپیل تو کئی مسلم پارٹیاں اور دیگر پارٹیاں بھی کر رہی ہیں۔ مایاوتی نے مسلم طبقہ کو صرف آگاہ کیا ہے کہ وہ ا پنے ووٹ کو تقسیم نہ ہونے دیں ۔