پہلے آپ

میرا کالم سید امتیازالدین
دہلی کے انتخابات میں عام آدمی کی زبردست کامیابی یا بالفاظ دیگر بی جے پی کی شکست فاش اور کانگریس کی شرمناک ہار کے قصے اب پُرانے ہوتے جارہے ہیں لیکن الیکشن کی تاریخ میں یہ ایک ایسا زلزلہ ہے جس کی تباہ کاریوں مدتوں دیکھی جاتی رہیں گی ۔ ہمارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ نتائج سے ذرا پہلے نریندر مودی جی اور اروند کیجریوال دہلی کے دروازے پر کھڑے تھے ۔د اخل ہونے سے پہلے مودی جی نے کیجریوال سے اخلاقاً کہا ’’پہلے آپ ‘‘ … اس اُمید کے ساتھ کہ کیجریوال جی بھی یہی جملہ دہرائیں گے اور پہلے آپ کی تکرار اگلے پانچ سال تک چلتی رہے گی لیکن کیجریوال مودی سے پہلے آپ سنتے ہی دروازے میں داخل ہوگئے اور اُسے اندر سے بند کرلیا ۔ مودی جی کو اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تو اُن کو بند دروازہ کھلوانے کی ایک ہی ترکیب سوجھی ۔ انھوں نے اپنا موبائیل فون نکالا اور کیجریوال سے کہا میرے گھر چائے پر تشریف لائیے۔ سب جانتے ہیں کہ مودی جی کو چائے پلانے سے دلی لگاؤ ہے ۔ کیجریوال نے اُن سے کہا ’’فی الحال میں صدرجمہوریہ سے لے کر عام آدمی تک سب سے گلے ملنے میں مصروف ہوں۔ آپ کیتلی چڑھائیے میں بعد میں آؤں گا ۔ ویسے میں آپ کو پانی تو پلاچکا ہوں‘‘ ۔ اِدھر مودی جی کی کیتلی اپنی اندرونی حرارت سے چولھے کے بغیر رقص کررہی تھی ۔ بہرحال کیجریوال جی اپنے وقت پر گئے اور چائے سے پہلے یا بعد ایک ماہر طبیب کی طرح مطالبات کی پہلی خوراک میزبان کے حوالے کی ۔ ساتھ ہی انھوں نے میزبان کو اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے ڈالی ۔ مودی جی نے دل ہی دل میں اپنی خوش قسمتی پر ناز کیا کہ اُسی دن اُن کا شہر سے باہر کا دورہ پہلے سے طئے تھا اور اس طرح وہ اس دل خراش منظر کو دیکھنے سے بال بال بچے۔ اتفاق دیکھئے کہ حلف برداری کے دن یوم عاشقاں تھا جو بعض شکست خوردہ اصحاب کو یومِ دشمناں لگا ۔

بی جے پی نے جنرل الیکشن میں نعرہ دیا تھا ’’اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ لوگوں کا خیال ہے کہ اُس وقت اچھے دن سے مُراد عام آدمی پارٹی کی جیت تھی ۔ ادھر ہمارے اردو اخبارات بھی ستم ظریفی میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ پہلے عام آدمی پارٹی کو ’’آپ ‘‘ لکھا کرتے تھے لیکن اس کامیابی کے بعد عاپ لکھنے لگے ہیں۔ جو چاہے لکھیں ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ عاپ کی شکل کو ذرا غور سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی سانپ پھن کاڑھے کھڑا ہے اور مخالفین کو ڈسنے یا نگلنے کے لئے تیار ہے ۔

عام آدمی پارٹی کی کامیابی سے سب سے زیادہ وہ پارٹیاں خوش ہیں جو پچھلے عام انتخابات میں مودی لہر میں بہہ گئی تھیں۔ یہ پارٹیاں کیجریوال کو کیجریوال نہیں مودی کا حریف سمجھنے لگی ہیں ۔ جو کام کیاتم نے وہ ہم سے نہ ہوگا ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کھڑی فصلوں اور پھل دار درختوں کو بعض نقصان رساں پرندوں سے بچانے کیلئے ایک ڈراونا پُتلا سا کھڑا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے پرندے ڈرکر اُڑ جاتے ہیں ۔ ہماری بعض پارٹیاں کیجریوال جی کو اپنے اپنے الیکشن کے موقعوں پر اس مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہیں گی ۔
عام آدمی پارٹی کو 70 میں سے 67 سیٹیں ملی ہیں ۔ یعنی بادشاہت اور جمہوریت میں بہت کم فرق رہ گیا ہے ۔ ہمارا ناقص تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اتنی اکثریت بھی کبھی فائدے کی بجائے نقصان کرتی ہے ۔ اگر سیدھی سادی اکثریت ملتی تو کچھ لوگ وزیر بن جاتے کچھ لوگ بعض اداروں یا کمیٹیوں کے چیرمین بن جاتے ۔ اب بہت سے منھ کھلے رہ جائیں گے اور نوالوں کی طلب باقی رہے گی ۔ کوئی لاکھ بے نیازی اور صرف خدمت خلق کا ڈھنڈورا پیٹے حقیقت یہ ہے کہ عوامی زندگی میں صرف خدمت خلق کے لئے ذرا کم لوگ ہی میدان میں اترتے ہیں۔ خلق اپنی خدمت خود کرلیتی ہے ۔ عوامی نمائندے اپنا حلق تر کرنے کیلئے آتے ہیں۔ اگر حلق خشک رہ جائے تو تشنگی بڑھ جاتی ہے ۔ پھر اپنی پارٹی بھی اچھی نہیں لگتی ۔

ہمارے ملک میں یہ وبا عام ہے کہ شکست خوردہ پارٹیاں اپنی ہار پر محاسبہ کرنے کاڈھونگ رچاتی ہیں لیکن اصل اسباب کو نظرانداز کرکے بعض دوسری غیراہم باتوں کو اپنی شکست کی وجہ بتاتی ہیں۔ کرن بیدی جو چیف منسٹری کی دعویدار تھیں کہنے لگیں کہ ایک فتوے کی وجہ سے وہ ناکام رہیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی امیدوار کس فتوے کی وجہ سے ہارے ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ گھر واپسی ، دستور میں تبدیلی کی کوشش ، ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو بدلنے کا منصوبہ ، مذہبی مقامات پر حملے ، نفرت انگیزتقریریں نہیں کی جانی چاہئے تھیں۔
ہمارے ایک دوست اکثر امتحان میں فیل ہوجاتے تھے ۔ اُن سے اس سلسلے میں پوچھا جاتا تو کہتے کہ میں نے اتنی کتابیں پڑھی تھیں اور ایسی ایسی معلومات بہم پہنچائی تھیں کہ شاید ممتحن نے رشک و حسد کی آگ میں جل کر مجھے کم نشانات دیئے ۔ کچھ یہی حال اس وقت بعض پارٹیوں کا ہے ۔

الیکشن کے اس نتیجے سے بعض لوگ عجیب تجربات سے بھی گزرے ہوں گے ۔ ہمارے دو بزرگ سیاستداں آج کل گھر میں بیٹھے ہوئے شاید پرانی فلموں کے دل سوز گانے سُن رہے ہوں گے ۔ دونوں کو اُن کی طویل العمری اور وسیع تجربے کی وجہ سے راستہ بتانے والے کے عہدے سے سرفراز کیا گیا ۔ جس تاریخ سے یہ حضرات ’’مارگ درشک‘‘ مقرر کئے گئے ہیں وہ ہر روز اپنے گھر کے دروازے کھول کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کوئی راستہ پوچھنے آئے تو وہ راستہ بتائیں۔ لوگ راستہ پوچھے بغیر گزرجاتے ہیں۔ سرِ شام دونوں بزرگ اپنے گھر واپس ہوجاتے ہیں کہ کہیں خود اپنے گھر کا راستہ نہ بھول جائیں۔ دونوں بزرگ شاید اس نتیجے سے خوش ہوں کہ ہماری رہنمائی سے فائدہ نہ اُٹھایا ۔ اب بھٹکتے پھرو ۔ اسی طرح ایک خاتون شاذیہ علمی جنھوں نے کیجریوال کا ساتھ چھوڑدیا تھا اب اپنے فیصلے پر پچھتاتی ہوں گی ۔

اروند کیجریوال کی قسمت کا ستارہ اتنی بلندی پر تھا کہ بی جے پی کے بعض کام عام آدمی پارٹی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے ۔ سوچھ بھارت ابھیان ملک بھر میں صفائی کی مہم کیلئے شروع کیا گیا تھا لیکن اس مہم کے لئے اتنی جھاڑوئیں استعمال کی گئیں کہ سڑکوں پر اُتنا کچرا نہیں دکھائی دے رہا تھا جتنی جھاڑوئیں دکھائی دے رہی تھیں۔ عام آدمی پارٹی کا نشان جھاڑو ہے ۔
لوگوں نے سوچھ بھارت ابھیان میں اتنی جھاڑوئیں دیکھیں اور ایسے ایسے اہم لوگوں کے ہاتھ میں جھاڑو دیکھی کہ رائے دہندوں کے ذہن و دل میں جھاڑو تخت نشین ہوگئی ۔ جب ووٹنگ مشین میں اُن کو جھاڑو دکھائی دی تو اُنھوں نے اُس کا بٹن دبادیا۔ اسی طرح بعض بی جے پی قائدین کہتے تھے کہ ہم بھارت کو کانگریس مُکت بھارت دینا چاہتے ہیں ۔ دہلی کانگریس سے مُکت تو ہوگئی لیکن جو ووٹ کانگریس کو ملا کرتے تھے سب کے سب عام آدمی پارٹی کو چلے گئے ۔

پچھلی بار جب کیجریوال چیف منسٹر بنے تھے تو وہ چیف منسٹر سے زیادہ اپوزیشن لیڈر لگ رہے ۔ جلوس ، دھرنے ، احتجاج ، پولیس سے مڈبھیڑ غرض ہر وہ کام جو برسراقتدار آدمی نہیں کرتا وہ کیجریوال جی کررہے تھے ۔ بالآخر 49 دن کی جدوجہد کے بعد وہ حکومت چھوڑکر چلے گئے ۔ اس بار انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پچھلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے لیکن وہ بالکل بدل جائیں گے ایسا ممکن نہیں دکھائی دیتا ۔ یوں تو ہر اسٹیٹ کا چیف منسٹر مرکزی حکومت کا کسی نہ کسی درجہ میں محتاج ہوتا ہے لیکن دہلی کے چیف منسٹر کو تو مرکز پر کچھ زیادہ ہی انحصار کرنا پڑتا ہے ۔

آپ دہلی کو ریاست کا درجہ دلانا چاہتے ہیں ، آپ پولیس کو اپنے تحت رکھنا چاہتے ہیں، آپ بجلی اور پانی جیسے اہم مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہر مرحلے پر مرکزی حکومت کی مدد چاہیے ۔ اسی لئے اروند کیجریوال کو ذرا سنبھل کر رہنا ہوگا ۔ کیجریوال جی اپنی پہلی حلف برداری کے موقع پر میٹرو سے یعنی عوامی سواری سے گئے تھے لیکن اس بار انھوں نے کار استعمال کی ۔ اس طرح اُن کو بہت سے معاملات میں ذرا نرم رویہ اپنانا پڑے گا ۔
بہرحال دہلی انتخابات نے سمجھادیا ہے کہ عوام ایسا لیڈر چاہتے ہیں جو سادہ بھی ہو اور اُن سے قریب بھی ۔ دس لاکھ کا سوٹ اور کروڑپتی تاجروں کی نازبرداری عوام کے ووٹ نہیں دلاسکتی ۔ کبھی مفلر سوٹ سے زیادہ قیمتی ہوجاتا ہے ۔ آنے والے پانچ برسوں میں کیجریوال کتنے کامیاب رہیں گے، مودی جی کیا کریں گے ، کانگریس کی ڈوبتی نیا کب پار لگے گی کوئی نہیں جانتا ۔ ہم ٹھہرے عام آدمی ۔

ایک اور بات جو ہم نے خاص طورپر نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کیجریوال نے اپنی کامیابی کے بعد بھرے جلسے میں اپنی بیوی کی خاموش خدمت کا اعتراف کیا ۔ اُنھوں نے کہا کہ میری بیوی نے تمام گھریلو ذمہ داریاں اس طرح سنبھال لیں کہ میں نے عوامی زندگی میں بھرپور حصہ لیا ۔ اپنی پتنی کی رفاقت کا ذکر کرکے انھوں نے ہندوستان کی تقریباً آدھی آبادی کے دل جیت لئے ۔ ورنہ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیویوں کی خدمت شعاری کااعتراف نہیں کرتے ۔ ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کی شخصی زندگی میں آپ کی بیوی کا کیا رول ہے ۔ کہنے لگے ، ’’وہی جو راجہ پورس کی فوج میں ہاتھیوں کا تھا ‘‘ ۔

دہلی کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔ ہرجگہ ایسے ہی نتائج دیکھنے کو ملیں یہ ذرا مشکل لگتا ہے لیکن فرقہ پرست طاقتوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ رواداری ، ہم آہنگی اور بے تعصبی ہندوستان کے عوام کے خون میں ہے ۔ اس خون میں فاسد مادے داخل کرنے کی کوشش کرنا قوم کی رگوں میں زہر دوڑانے کے برابر ہوگا ۔ شاید اسی وجہ سے مودی جی نے عرصۂ دراز کے بعد اپنی خاموشی توڑی اور فساد پھیلانے والوں کی کڑے لفظوں میں مذمت کی ۔ بعض لوگ حالات اور واقعات کی سنگینی کا وقت سے پہلے ہی اندازہ لیتے ہیں اور بروقت قدم اُٹھاتے ہیں اور بعض لوگ سبق سیکھ کر قدم اُٹھاتے ہیں ۔ یہ بھی غنیمت ہے۔