پہلو خان کے خاندان کی کسمپرسی

ظفر آغا
پہلو خان! بھلا کون ہے جو سارے ملک میں اس نام سے واقف نہیں ہے، ہندوستانی تو کیا وہ ہندوستانی مسلمان جو بیرون ملک روزگار کیلئے گئے ہوئے ہیں وہ بھی پہلو خان سے بخوبی واقف ہیں۔ یوں تو پہلو خان ہندوستان کی ریاست ہریانہ کے میوات علاقہ کا ایک معمولی باشندہ تھا، وہ ایک غریب شخص تھا جو گائے، بھینس کا دودھ بیچ کر اپنے دو بیٹوں اور اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے گھر کا گزر بسر کرتا تھا۔ اب جب رمضان کا مہینہ قریب تھا تو پہلو خان نے سوچا تھا کہ اگر ابھی سے گھر میںدودھ دینے والے دو جانور اور باندھ لئے جائیں تو کچھ آمدنی اور بڑھ جائے گی۔ اس طرح اس کو رمضان اور عید کے خرچ کی گزر کی بھی امید ہوگئی تھی ہوگی۔ چنانچہ اس نے اپنی جمع پونجی اکٹھا کرکے پڑوس میں راجستھان جاکر وہاں سے دودھ دینے والی دو دیسی گائیں خرید کر گھر لانے کا ارادہ پکا کرلیا۔ ہندوستانی قانون کے مطابق اس قسم کے مویشیوں کو لانے لے جانے کیلئے سرکاری اجازت درکار ہوتی ہے چنانچہ پہلو خان نے اس سلسلہ میں سارے قانونی دستاویز اکٹھا کئے، پھر ابھی کوئی ہفتہ دیڑھ ہفتہ قبل اپنے دونوں بیٹوں اور ایک دو پڑوسیوں کے ساتھ راجستھان مویشی خریدنے کی غرض سے نکل پڑا۔

پہلو خان کو بھلا کیا خبر تھی کہ یہ اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔ عید کی خوشی تو کیا اس کی قسمت میں تو رمضان کا چاند بھی دیکھنا میسر نہیں تھا۔ جب کہ آپ خبروں کے ذریعہ واقف ہوں گے کہ جب وہ مویشی لے کر راجستھان کے الور علاقہ میں پہنچا تو یکایک گاؤ رکھشکوں نے اس کو اور اس کے بیٹوں کو گھیر لیا۔ تمام قانونی کاغذات دکھانے کے باوجود ان گاؤ رکھشکوں نے پہلو خان کو پیٹ پیٹ کر ختم کردیا اور اس کے بیٹوں کو زخمی کردیا۔ اس طرح پہلو خان ہندوتوا سیاست کا بے رحمی سے شکار ہوگیا۔
ظاہر ہے اس واقعہ نے ہندوستانی مسلمانوں کے رونگھٹے کھڑے کردیئے ۔ ہر مسلمان خوف سے کانپ اُٹھا اور بس اسی فکر میں پڑ گیا کہ آخر اب اس کا کیا ہوگا، کیونکہ اگر پہلوخان راہ چلتے مارا جاسکتا ہے اور اخلاق کو گاؤ رکھشک گھر میں گھس کر مار سکتے ہیں تو کسی مسلمان کی جان کی خیر نہیں ہے۔ ایک مسلمان ہی کیا اس واقعہ نے تمام سیکولر مزاج ہندوؤں کو بھی دہلادیا اور سب چیخ اُٹھے کہ آخراس ہندوستان کو یہ کیا ہورہا ہے؟ ہمیں اور آپ کو تو خوف نے آن گھیرا لیکن بے چارے پہلو خان کے اہل خانہ پر نہ صرف موت کا غم بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مصیبتوں کا پہاڑ بھی ٹوٹ پڑا ۔ گھر کی روزی روٹی چلانے والا ذمہ دار شخص تو چلا گیا ساتھ میں جو بھی پونجی لگا کر دو مویشی خریدے گئے تھے وہ بھی چھین لئے گئے، ان کا گھر ان مویشیوں کے دودھ کی آمدنی سے ہی چلتا اور پھر عید کیلئے کچھ جمع کرکے تھوڑی بہت خوشی بھی منالی جاتی۔ کیسی خوشی اور کہاںکی عید، وہاں تو گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ بے چارہ پہلو خان وہ تو جان سے گیا اور اس کے گھر والے بے آسرا اور بیروزگار ہوگئے۔
حیرت یہ ہے کہ اس ملک کے 25کروڑ مسلمان پہلو خان کے غم پر افسوس تو کررہے ہیں لیکن خود بھی خوف سے کانپ رہے ہیں لیکن کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ پہلو خان کے اہل خانہ کی اس مصیبت کے وقت کچھ مدد کردی جائے۔ کیا اب پوری مسلم قوم اس لائق ہی نہیں رہی کہ پہلو خان کے بے سہارا خاندان کی اتنی بھی مدد کرسکے کہ وہ پھر سے دو مویشی لے کراس سے اپنا گھر چلا سکیں اور عید پر کچھ نہیں تو مہمانوں کو تھوڑی سیویاں پیش کرسکیں۔ لیکن یہ کام وہی قوم کرسکتی ہے جو زندہ قوم ہو، اور قوم میں اس بات کی حس ہو کہ کسی کی مصیبت میں کام آنا ایک قومی اور سماجی فریضہ ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کی بے حِسی کہ پہلو خان کی موت کو دو ہفتے گزر گئے لیکن ہمارے کسی قائد، کسی فرد اور کسی مسلم تنظیم کو پہلو خان کے اہل خانہ کی فکر نہیں ہوئی۔ کم از کم میرے علم میں تو اب تک نہیں ہے کہ کہیں مسلمانوں نے پہلو خان کے خاندان کی مدد کے لئے کوئی مہم چلائی ہو۔

لیکن ابھی بھی اس ملک میں کچھ اچھے لوگ باقی ہیں اور کچھ تنظیمیں ایسی ہیں کہ جن کا بھلے ہی مسلمانوں سے کوئی خاص واسطہ نہ ہو مگر پھر بھی ان میں انسانیت کا درد باقی ہے۔ چنانچہ ابھی کل میرے پاس پہلو خان کے گھر والوں کی مدد کے سلسلہ میں واٹس ایپ پر ایک پیغام آیا جس کا ترجمہ میں ذیل میں پیش کررہا ہوں۔ مجھ کو یہ پیغام صہبا خان نے بھیجاہے جو مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہیں اوروہ اردو کے مشہور شاعر مرحوم تاباں صاحب کی بیٹی ہیں۔ تاباں صاحب بھی کمیونسٹ تھے اور سابق صدر ہندوستان مرحوم ذاکر حسین کے قریبی عزیز داروں میں تھے۔ الغرض میں ان تمام افراد سے بخوبی واقف ہوں جنہوں نے پہلو خان کے اہل خانہ کی مدد کا بیڑا اُٹھایا ہے اور یہ پیغام بھیجا ہے جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’ عزیز دوستو ! گاؤ رکھشکوں کے ہاتھوں پہلو خان کی افسوسناک موت سے سارا ملک گہرے صدمے میں ڈوب گیا۔ اس سلسلہ میں ایک وفد نے پہلو خان کے دیہات جے سنگھ پورا، نورح، ضلع میوات جاکر اس کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ پہلو کے اہل خانہ اس واقعہ کے بعد اپنے روزگار کے ذرائع ( مویشی ) سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ا ور اس کے دونوں بیٹے اس حملے میں شدید زخمی ہوکر مجبور پڑے ہیں۔ ہم لوگ جو اس وفد میں وہاں گئے تھے انہوں نے ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے ذریعہ پہلو خان کے خاندان کی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری تنظیم ایک نئی تنظیم ہے جس کا ابھی کوئی پبلک اکاؤنٹ نہیں ہے، ہم اس سلسلہ میں فنڈ جمع کررہے ہیں جو ہم آل انڈیا کسان سبھا ( یہ بھی کمیونسٹ پارٹی کی مشہور کسان فورم ہے ) کے ذریعہ پہلو خان کے اہل خانہ تک پہنچا دیں گے۔ آپ سے اپیل ہے کہ آپ حسب ذیل اکاؤنٹ پر بذریعہ چیک اپنی رقم بھیج سکتے ہیں۔
پتہ یوں ہے:

All India Kissan Sabha
A/C.No:20032032844,
Alahabad Bank
17 Parliament Street,New Delhi110001
IFSC Code:ALLA0210163
MICR Code:110020026
چیک آل انڈیا کسان سبھا کے نام لکھ کر ذیل کے پتے پر بھیج دیں۔
36 AIKS Pandit Ravi Shanker Shukla Lane
Near Mandi House,New Delhi 110001
جن افراد نے اس اپیل پر دستخط کئے ہیں ان کے نام ہیں :  پروفیسر گوپی ناتھ رویندرن، سرور مندر مالتی، شفیق الرحمن خان ، روبینہ اختر اورصہبا فاروقی، ان افراد نے یہ بھی گذارش کی ہے کہ چیک بھیج کر فون نمبر 09818297702 پر اطلاع بھی دے دیں۔ اس گروپ نے آج یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اس نے پہلو خان کے بیٹے عظمت خان کی ڈاکٹری جانچ کروالی ہے اور اس سلسلہ میں جو دوا اور دیگر اشیاء کا خرچ آیا ہے اس خرچ کو سنجے امن برادری نے اٹھاکر یہ مسئلہ حل کردیا۔
اب ہمیں کچھ شرم آئی، سنجے امن برادری اور پروفیسر رویندرن ، پہلو خان کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں۔ ہم مسلمان بیٹھے محض کف ِ افسوس مل رہے ہیں۔ بہرحال اوپردی گئی تفصیل پر پہلو خان کے اہل خانہ کی مدد میں کچھ کیجئے تاکہ وہ دو مویشی خرید کر کسی طرح عید کی خوشی مناسکیں۔ ممکن ہو تو اس مدد کی اطلاع راقم کو بھی فون نمبر 09820934749 پر دیں۔