پھر اشک بہانے کی اجازت بھی نہ ہوگی …

محمد مبشر الدین خرم
ملک کا دستور خطرہ میں یا ملک کی سالمیت خطرہ میں ہے؟ان دو باتوں میں انتہائی مہین فرق ہے کیونکہ یہ بات طئے ہے کہ ملک کا دستور اگر خطرہ میں تو ملک کی سالمیت کو لازمی خطرہ ہوگا کیونکہ ہندستان جیسے ہمہ مذہبی ملک کا وجود اس ملک کے مستحکم دستور کے سبب ہی باقی ہے جسے کافی محنت اور منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ ہندستان نہ صرف ہمہ مذہبی مملکت ہے بلکہ ہندستان ہمہ لسانی و ہمہ تہذیبی مملکت بھی ہے لیکن ا س کے باوجود ہندستانی عوام کو اس ملک کے دستور نے متحد کررکھا ہے جس میں ہر ہندستانی کو مساوی حقوق کی فراہمی کے ساتھ مذہبی آزادی اور اظہار خیال کی آزادی دی گئی ہے۔آئین ہند کی تمہید میں ہی یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اس ملک کے شہریوں کو سیاسی ‘ سماجی‘ معاشی انصاف کے علاوہ فکر‘ اظہار خیال ‘ مذہب اور عبادات کی آزادی حاصل رہے گی لیکن گذشتہ 5برسوں کے دوران دستور کا دستور ساز اداروں پر حکمرانی کرنے والوں نے جس طرح سے مذاق اڑایا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ آئندہ 5برسوں کے لئے اگر انہیں دوبارہ اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو وہ اس دستور کو ہی مسترد کردیں گے اور اپنے نظریات کے مطابق دستور وضع کرتے ہوئے ہندستانی شہریوں پر مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ملک کی حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور ہندستان کا ہر شہری ملک کے آئین اور حکومت پر مکمل ایقان ہے اور اب یہ یقین عدالتوں کی حد تک محدود ہونے لگا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ اس بات سے مطمئن ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں نوجوانوں کے لئے قابل قبول ہے تو یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی خام خیالی ہے کیونکہ نوجوانوں کو اپنے مسائل کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ بنیادی مسائل کیاہیں۔

ہندستانی شہریوں کو اس وقت ہی اس بات کا سمجھ لینا چاہئے تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندستان کی کیا حالت کرنا چاہتی ہے جس وقت پارٹی کی جانب سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ یونیورسٹی طلبہ نے جامعہ میں ’’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے ! انشاء اللہ‘‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بتدریج ہندستان کے شہریوں کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ ہندستان میں موجود حکمراں طبقہ اپنے نظریات کو مسلط ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنے نظریہ کے ذریعہ ملک کی سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2014 میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے نریندر مودی نے ملک بھر میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد نعرہ ہی فراموش نہیں کیا گیا بلکہ جس نظریہ کے ساتھ اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی اس نظریہ کو مسلط کرنے کی مختلف طریقوں سے کوشش کی گئی اور ہندستانی شہریوں کو حکومت سے بدظنی کے اظہار پر ملک سے بدظنی کا نام دیتے ہوئے نشانہ بنایا جانے لگا۔آزادیٔ اظہار خیال کو روکنے کی کوشش کے ساتھ قتل و غارت گری کے علاوہ گوشت کے نام پر قتل کی وارداتوں پر ہندستان کا ہر وہ شہری تڑپ اٹھا جسے آئین کی تمہید پر یقین تھا لیکن حکمراں طبقہ نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس غنڈہ گردی کو آہنی پنجہ سے کچلنے کے بجائے اس دہشت گردی کی پذیرائی کی جس کے نتیجہ میں حالات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا ر ہا ہے کہ حکومت کی سرزنش کرنا ملک کی سرزنش کرنے کے مترادف ہے جبکہ حکومت کی سرزنش کرنے والے درحقیقت حکمراں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔

اب جبکہ ہندستان میں عام انتخابات کا موسم عروج پر پہنچ چکا ہے تو جے این یو کے طلبہ کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ قرار دینے والے سیاسی قائدین ملک میں جس طرح کی بدنظمی پیدا کررہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی ٹکڑے ٹکڑے گینگ تو یہ سیاسی قائدین ہیں جو ملک کو مذہب‘ ذات پات اور علاقہ کے اعتبار سے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔ ہندستان میں عام انتخابات کے دوران حقیقی مسائل سے نمٹنے کے اقدامات اور انہیں انتخابی مدعا بنانے کے بجائے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی جانب سے حب الوطنی پر سوالات اور پاکستان پر گفتگو کی جا رہی ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس طرح اکسایا جا رہاہے کہ وہ ملک کی سالمیت کو اگر عزیز قرار دینے کیلئے ان کی حرکتوں کی مذمت کرتے ہیں تو انہیں باغی اور ملک دشمن قرار دیا جانے لگا ہے۔ 50برسو ں بعد انتخابات میں کشمیر ‘ بنگلہ دیشی شہری اور ملک سے محبت جیسے نعرے لگاتے ہوئے شہریوں کو ہراساں کرنے کے علاوہ اے مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ملک کی سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی بڑی آبادی کی ناراضگی سے خوفزدہ بھی ہے اور بار بار اپنے خوف کا اظہار بھی کھل کر رہی ہے لیکن اس خوف کو حب الوطنی کے مکھوٹے میں چھپانے کی کوشش میں بری حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہے مگر یہ خوف واجبی ہے کیونکہ ملک کی سالمیت پر سوال اٹھتا ہے تو اس کا بدترین نقصان ہوگا۔ملک کی بیشتر امن پسند سیاسی جماعتوں اور ملک کی سالمیت کی علمبردار شخصیتوں نے متعدد مرتبہ ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔

عام انتخابات میں 5سالہ کاکردگی کے بجائے وزیر اعظم کی جانب سے یہ دعوی کیا جانا کہ ہندستان میں 5برسوں کے دوران کوئی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا اور دہشت گردی 5برسوں کے دوران کشمیر کی حد تک محدود ہوچکی ہے اس بات کی سمت اشارہ کرنے کیلئے کافی ہے کہ ہندستان میں اب تک جو دہشت گردانہ حملوں کے واقعات ہوا کرتے تھے ان کے پس پردہ بھی وہی ذہنیت کارفرما ہے جو ملک کی سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 5سال میں دہشت گردانہ حملوں کے واقعات کیسے ہوں گے ’’ جب سیاں بھائے کوتوال‘‘ ایسی صورت میں کون دہشت گرد کوتوال (چوکیدار)کو بدنام کرنا چاہے گا۔مودی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی حد تک دہشت گری محدود رہ گئی ہے تو کشمیر میں اب جمہوری نظام میں حصہ لینے والے کشمیری قائدین بھی پورے شد و مد کے ساتھ علحدگی کی باتیں کرنے پر مجبور ہونے لگے ہیں اور یہ صورتحال کے لئے بھی ٹکڑے ٹکڑے گینگ ذمہ دار ہے۔نئی نسل کے سیاستداں عمر عبداللہ ہوں یا محبوبہ مفتی یا پھر بزرگ سیاستداں فاروق عبداللہ کشمیر کے مفادات اور دستور میں حاصل اختیار کو سلب کئے جانے کے خوف کا اظہار کر رہے ہیں تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وادی کی صورتحال کیا ہے۔

مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی جو کہ حساس اور سیاس مانی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ ہندستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی خاتون سیاستداں ہیں اور انتہائی سادگی پسند ہونے کے سبب کمیونسٹوں کی سادگی کو مات دیتے ہوئے اپنے دم خم پر مغربی بنگال میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ترنمول کانگریس سربراہ بھی یہ کہہ رہی ہیں کہ مودی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہونے پر دستور کی تمہید ہی نہیں بلکہ دستور تبدیل کردیا جائے گا تو اس میں کوئی تو بات ہے جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی سے بات شروع ہوئی تھی انتہائی بزرگ سیاستدانوں کی زبان پر بھی آنے لگی ہے ۔ملک کے دستور کو خطرہ کا اندیشہ یوں تو سب سے پہلے کنہیا کمار نے ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ دستور کو بچانا ہے تو مودی کو ہٹانا ضروری ہے اور اب 4برسوں میں یہ بات ہر خاص و عام کی زبان سے سنی جانے لگی ہے لیکن اس کا مفہوم کس حد تک گہرا ہے اس کا اظہار کرنے سے ہرکوئی خائف ہے کیونکہ دستور سے چھیڑ چھاڑ کا مطلب صرف دستور کو خطرہ نہیں ہے بلکہ ملک کی سالمیت کو خطرہ درپیش ہے۔ کشمیر کے حقوق سے چھیڑ چھاڑ کے لئے دستوری ترمیم کشمیر میں جو صورتحال پیدا کرے گی اس کا اندازہ ہے اور تین طلاق آرڈیننس کے دروازے سے شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کے ذریعہ ملک کی دوسری بڑی آبادی کی نبض کو ٹٹولنے کی کامیاب کوشش کرلی گئی ۔ اسی طرح تمل ناڈو میں جلی کٹو آرڈیننس کے ذریعہ اس علاقہ کے عوام کی نبض کا جائزہ لیے لیا گیا تو آسام اور مغربی بنگال میں این آر سی آرڈیننس کے نام پر علاقہ کے عوام کا بھی اندازہ کرلیا گیا۔ پنجاب میں کرتار پورصاحب راہداری کی کشادگی اور رکاوٹ کے ذریعہ اس علاقہ کے عوام کو جانچ لیا گیا تو گجرات میں دلتوں پر حملوں کے ذریعہ اس بات کا اندازہ لگا یا جاچکا ہے کہ ملک میں دستور کی تبدیلی پر کیا حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔اسی طرح شمالی مشرق ریاستوں کے نوجوانوں پر حملوں کے ذریعہ ان کی قوت کا بھی اندازہ کرلیا گیا۔

ہندستان کے عام انتخابات میں خواہ کوئی پہلو کام کرے اور مودی کو اقتدار حاصل ہوجائے تو جو حالات پیدا ہوں گے اس کے متعلق تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے متنبہ کیا جانے لگا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی جھوٹے پروپگنڈہ کے ذریعہ ملک کی سیاست میں نفرت کے زہر کو بہ آسانی گھولنے لگی ہے کیونکہ 2014 عام انتخابات سے قبل تک سنگھ نے جو زہر آلود ماحول تیار کیا تھا اور اس زہر آلود ماحول کو ملک کے اہم اداروں کے علاوہ ایسے مقامات پر پروان چڑھایا جہاں سے وظیفہ پر سبکدوش ہونے تک یہ ظاہر تک ہونے نہیں دیا کہ ان عہدوں پر رہتے ہوئے بھی ان پر زعفرانی رنگت چڑھی ہوئی ہے جس کی مثال سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ ہیں جو وظیفہ پر سبکدوش ہوتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے اور کئی عہدیداروں کے علاوہ بعض ججس بھی ہیں جنہوں نے اپنے وظیفہ کے ساتھ ہی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنی پرورش کا ثبوت پیش کیا ۔ 70 برسوں میں اقتدار نہ ہوتے ہوئے اس طرح کی پرورش کو یقینی بنایا گیا تو اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 5برسوں کے دوران کیا کیا نہیں کیا گیا ہوگا اور کتنے محکموں اور عہدیداروں پر زعفرانی رنگت چڑھائی گئی ہوگی۔ سیکولر ہندستان بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندستان کی سالمیت کیلئے نہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست لازمی ہے بلکہ ساورکر اور گولوالکر کے نظریہ کی شکست کے لئے ملک کے اہم شعبوں و محکموں میں زعفرانی دہشت گردی کا خاتمہ بھی ضروی ہے کیونکہ جب تک یہ نظریہ باقی رہے گا ملک میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ سرگرم عمل رہیں گے۔
@infomubashir