پچاس سال پہلے کا سالار جنگ میوزیم

محمد عبدالوحید
ویسے تو حیدرآباد کی قدیم عمارتوں میں کئی محلات اور دیوڑھیوں کا تذکرہ آتا ہے لیکن ’’سالار جنگ میوزیم‘‘ کے حوالے سے ’’دیوان کی دیوڑھی‘‘ کو جو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی وہ سب سے الگ ہے  ۔روزنامہ ’’سیاست‘‘ کی مطبوعہ کتاب شہر حیدرآباد (1978) میں صفحہ 71 پر ممتاز محقق و مصنف جناب نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ سالار جنگ کی قیام گاہ کا نام ’’دیوان کی دیوڑھی‘‘ اس طرح پڑا کہ نواب سالار جنگ کے خاندان کے کئی افراد سلطنت آصفیہ میں ’’دیوان‘‘ (وزیراعلی) رہے ۔ شیر جنگ منیر الملک ، میر عالم ، منیر الملک ثانی ، علی زماں خاں ، سراج الملک ، نواب مختار الملک ، عماد السلطنت اور سالار جنگ (ثالث)۔ ان تمام حضرات نے آصف جاہی حکمرانوں کے ساتھ اپنی وفاداری اور کارگذاری کی وجہ سے تاریخ دکن میں اپنا مقام بنالیا ہے ۔ میر عالم کا محل تو وہ تھا جہاں اب ’’میر عالم کی منڈی‘‘ موجود ہے ۔ یہ دراصل محل کا جلوخانہ تھا ،حالانکہ محل کا بیش تر حصہ بوسیدگی کے باعث ٹوٹ پھوٹ چکا ہے ،لیکن کہیں کہیں اصل مکان کے کچھ آثار نظر آتے ہیں ۔ منیر الملک جب دیوان مقرر ہوئے تو انھوں نے پتھرگٹی کے اس مکان میں قیام کیا ، جو نواب مکرم الدولہ کی ڈیوڑھی کے نام سے مشہور تھا ۔ نواب مختار الملک دیوان مقرر ہوئے تو انھوں نے اپنے مکان کو بہت زیادہ وسعت دی ، کیونکہ نواب صاحب تمام سرکاری دفاتر کو اپنے قریب رکھنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ عدالت دیوانی ، عدالت فوجداری اور حسابی دفتر صدر محاسبی کو اپنے محل کے مختلف حصوں میں جگہ دی ۔ دیوان کی ڈیوڑھی کا ایک حصہ نظام باغ کہلاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم اعلی حضرت (نواب میر محبوب علی خان) کی اس جگہ کئی روز تک مہمان نوازی کی گئی تھی اور پھر وہ عماد السلطنت (سالار جنگ ثانی) کے ساتھ Tennis کھیلا کرتے تھے  ۔اس لئے اس حصہ کو ’’نظام باغ‘‘ سے موسوم  کیا گیا ۔ چھتہ بازار بھی سالار جنگ خاندان کے محل کا ایک حصہ تھا جو بعد میں ایک بازار کی شکل میں پھیل گیا ۔

1948 سے پہلے سالار جنگ خاندان کی املاک میں ’’دیوان کی ڈیوڑھی‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ عزا خانہ زھرا (دارالشفا) کے بازو سڑک کے دوسری طرف موجودہ سالار جنگ میوزیم کا احاطہ شروع ہوتا ہے جو موسی ندی کے متوازی ماضی کی اسٹیٹ ٹاکیز تک پہنچتا ہے  ۔ درمیان میں کئی مقامات پر آگے پیچھے دیگر افراد کی خانگی عمارتیں بھی سالار جنگ کی املاک کے ساتھ نظر آتی ہیں ۔ اس طرح چھتہ بازار کی بیش تر عمارتوں کے علاوہ مدینہ سرکل سے چار مینار جانے والی سڑک پر جگہ جگہ سالار جنگ خاندان کی ملکیت میں دوکانات اور مکانات شامل تھے ۔ نواب میر یوسف علی خان (سالار جنگ ثالث) کو اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر نے سلطنت حیدرآباد کا ’’دیوان‘‘ مقرر کیا تھا  ۔اس موقع پر کسی شاعر نے قطعہ تاریخ ان الفاظ میں پیش کیا تھا

زلیخا بن کے دیوانی مرے یوسف کے گھر آئی
سالار جنگ ثالث کا دور وزارت مختصر رہا اور وہ جلد ہی اپنی خدمات سے سبکدوش ہوگئے تھے تاہم وہ تا حیات اپنے بلند پایہ ذوق کی تسکین میں دنیا کے چپہ چپہ سے بیش بہا نوادر کے علاوہ نایاب کتب و مخطوطات جمع کرنے میں مصروف رہے جو آج سالار جنگ میوزیم کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔
سالار جنگ ثالث نے مجرد زندگی گذاری تھی ۔ان کی وفات کے بعد حکومت ہند نے پارلیمنٹ میں ایک قانون کی منظوری کے ذریعہ ’’میوزیم اور کتب خانہ‘‘ حاصل کرکے اسے پہلے وزارت تعلیم (مولانا ابوالکلام آزاد) اور بعد میں وزارت سائنسی تحقیقات  و ثقافتی امور  (پروفیسر ہمایوں کبیر) کی نگرانی میں رکھا ۔ سالار جنگ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں ورثاء نے ہائی کورٹ میں اپنے اپنے ادعا سے ملکیت پیش کیا ۔ عدالت کی طرف سے جناب مرزا نجف علی خاں ،آئی اے ایس (ریٹائرڈ) کو ’’ریسورکم کمشنر‘‘ مقرر کیا گیا اور عارضی طور پر سالار جنگ کی املاک کی نگرانی ان کو دی گئی، جبکہ حکومت ہند نے نواب مہدی نواز جنگ بہادر (مرحوم) کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی بعد ازاں میوزیم اور کتب خانہ کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیا  ۔
اس وقت ’’دیوان کی ڈیوڑھی‘‘ کا علاقہ انتہائی پرسکون نظر آتا تھا ۔ میوزیم کو عوام کے مشاہدے کے لئے کھول دیا گیا ۔داخلہ بذریعہ ٹکٹ رکھا گیا تھا ۔ میوزیم میں داخلہ کے لئے عام طور پر مدینہ سرکل کے روبرو والے دروازہ کا استعمال ہوتا تھا اس دروازے کے دونوں طرف بڑے بڑے آہنی بورڈس لگائے گئے تھے ۔ ایک طرف صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کا انگریزی میں پیام خوبصورت تحریر کے ساتھ لکھا ہوتا تھا یہ پیام ویسا ہی تھا جیسے اہم شخصیتوں سے جڑے ہوئے آئی اے ایس بیوروکریٹس ایسے موقعوں پر لکھا کرتے ہیں لیکن دروازے کی دوسری سمت جو بورڈ لگایا گیا تھا وہ الگ قسم کا تھا ۔ اردو میں یہ پیام مولانا ابوالکلام آزاد کی بے پناہ علمی و ادبی صلاحیتوں کا جیتا جاگتا ثبوت تھا ۔ جن لوگوں نے مولانا مرحوم کے شہرہ آفاق اخبار ’’الہلال‘‘ کا مطالعہ نہ کیا تھا وہ صرف اس پیام کو پڑھنے کے بعد مولانا مرحوم کی بلاغت ، فصاحت اور قلم کی روانی کے معترف ہونے پر مجبور ہوجاتے تھے ۔ مولانا کے الفاظ کچھ اس طرح تھے … ’’ایک شخصی ذوق نے دنیا بھر کے بیش بہا نوادر کا ایسا ذخیرہ اس میوزیم کی شکل میں جمع کیا ہے جو بڑی سی بڑی حکومتوں کے بس کی بات نہیں تھی…‘‘ ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے طویل بیان میں مولانا مرحوم نے ایسے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جو عام تحریروں میں نظر نہیں آتے ہیں۔
1960 ء کی بات ہے ۔ میں میٹرک کے امتحان کے بعد نظام کالج (ایوننگ) میں داخلہ لے چکا تھا ۔ اس کے ساتھ ٹائپ رائٹنگ اور اسٹینوگرافی کے سرکاری امتحانات میں کامیابی کے بعد آندھرا پردیش پبلک سرویس کمیشن کے ذریعہ سرکاری ملازمت کیلئے منتخب ہوا اور احکام تقرر کا انتظار کررہا تھا ۔ اس دوران مجھے سالار جنگ کتب خانہ میں عارضی ملازمت کا موقع ملا ۔ میں سب سے پہلے لائبریرین (جناب اسمعیل قادری )سے ملا ۔ وہ مجھے کتب خانہ کے مشیر (جناب محمد اشرف) کے کمرے میں لے گئے ۔ اشرف صاحب کو دیکھتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میں قرون وسطی کے عباسی خلیفہ کے سامنے کھڑا ہوں ۔ شاہانہ شخصیت ، نوابی ٹھاٹ کی شیروانی اور اسی کپڑے کی ٹوپی ، چہرے پر گھنی داڑھی ، گول فریم کی عینک کے پیچھے ذہین آنکھوں کی چمک ۔مسکراہٹ کے ساتھ میرے سلام کا جواب دیا ۔ مجھے یک گونہ اطمینان ہوا کہ اشرف صاحب اپنے ڈیل ڈول ، وضع قطع کے برخلاف ایک مرنجاں مرنج انسان ہیں  ۔

اشرف صاحب ان دنوں کتب خانہ کے عربی اور فارسی مخطوطات پر commentary لکھ رہے تھے جو بعد میں catalogue کی شکل میں شائع ہوئی تھی ۔ جیسے جیسے کتب خانہ میں میرے دن گذرتے گئے ،اشرف صاحب کی بے شمار خوبیاں سامنے آتی گئیں ۔ حالانکہ میں نے یوں ہی ان کا تقابل ’’عباسی خلیفہ‘‘ سے کیا تاہم میں زیادہ غلط بھی نہ تھا ۔ جس طرح اللہ تعالی نے خلیفہ ہارون الرشید کو وقت واحد میں بے شمار خوبیوں (نڈر سپاہی ، ذہین حکمران ، علم و ادب کا سرپرست ، فنون لطیفہ کا دلدادہ) سے نوازا تھا ، مجھے اشرف صاحب کی ذات میں کئی صلاحیتیں یکجا نظر آئیں ۔ اشرف صاحب نے انگلستان کی Durham یونیورسٹی سے سیول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی اور اس وقت وہ ویمنس کالج (کوٹھی) کے روبرو آندھرا بینک کی زیر تعمیر عمارت کے چیف انجینئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے  ۔

نواب مہدی نواز جنگ (مرحوم) کی منظوری سے کتب خانہ کیلئے کئی علمی شخصیتوں کو چنا گیا اور انھیں جزوقتی (روزانہ دوگھنٹے) تحقیقاتی کام سونپا گیا تھا ۔ تمام اسکالرس کو ہر ماہ ’’اعزازیہ‘‘ ادا کیا جاتا تھا ۔ کتب خانہ کیا تھا ، ایک سے ایک عالم ،فاضل ، دانشور ، صاحب بصیرت خطیب ، شہرہ آفاق شعراء اور ادیبوں کی کہکشاں تھی ،جو دن کے وقت کتب خانہ کو منور کرتی تھی ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہاں پر متضاد نظریات کی حامل شخصیتوں کو جمع کیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود کبھی کوئی اختلاف یا بدمزگی پیدا نہ ہوسکی ۔ اشرف صاحب خود بھی روزانہ دو گھنٹے کیلئے کتب خانہ آتے تھے  ۔ان کا کام بے حد دشوار تھا ۔ چار سو ، پانچ سو سالہ قدیم مخطوطات جن میں سے اکثر بوسیدہ تھے ،سخت مشقت اور عرق ریزی کے ذریعہ مخطوطات کی نوعیت ، تحریر کرنے والوں کی تفصیلات ، ادبی حیثیت اور ذرائع حصول تلاش کرنا پڑتا تھا چنانچہ دو گھنٹوں میں انگریزی Commentary چند صفحات سے زیادہ نہ ہوتی تھی ۔ میں اس کو گھنٹے بھر میں ٹائپ کردیتا تھا تو اس کے بعد مجھے دن بھر بیکار بیٹھنا پڑتا تھا ۔

کتب خانہ کے دوسرے اہم تنخواہ دار ملازم جناب سید محمد جواد رضوی (مرحوم) تھے ۔ انھیں مددگار مہتمم کا عہدہ دیا گیا تھا  ۔ جواد صاحب کتب خانہ کے عقبی حصہ میں ایک کمرہ میں بیٹھتے تھے ۔ ان سے میرا رابطہ کم ہی رہا ۔ ان کا سیاسی پس منظر ذرا الگ قسم کا تھا  ۔جواد صاحب کم عمری میں ہی کمیونسٹ تحریک سے جڑ گئے تھے ۔ کامریڈ مخدوم اور ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کے ساتھ بیاباں کی خاک چھانتے رہے اور روپوشی کی زندگی بھی گذاری تھی ۔ تاہم کتب خانہ میں ملازمت کے ذریعہ ان کی زندگی میں تعمیری انقلاب آیا تھا ۔ وہ انتہائی سنجیدہ اور کم گو انسان تھے ۔ شاید طوفان کے بعد کی خاموشی اسی کو کہتے ہیں ۔ جواد صاحب کو انتظامیہ نے دو سال کی تنخواہ کے ساتھ ’’تعلیمی چھٹی‘‘ منظور کی تھی تاکہ وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں Library Science کی ڈگری حاصل کرسکیں ۔ دو سال بعد جب وہ کتب خانہ واپس ہوئے تو انھیں Librarian بنایا گیا ۔
شاہد صدیقی صاحب کو کتب خانہ کے ہال میں ایسی جگہ بٹھایا گیا تھا ، جہاں  ان کے آس پاس ایک طرف شیعہ طبقہ کے سحر بیاں خطیب و عالم مولانا ریاض الدین حیدر اور دوسری طرف سنی مسلمانوں کی جان مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل کے میز رکھے گئے تھے  ۔میں جب بھی شاہد صاحب کو دیکھتا تو مجھے شاہد صاحب پر ترس آتا کہ دو متضاد نظریات کی حامل مذہبی شخصیتوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا کسی سخت امتحان سے کم نہ تھا ۔ نہ جانے کیوں مجھے بار بار غالب کا یہ شعر یاد آتا تھا ۔
ایماں مجھے روکے ہے ، تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے ، کلیسا مرے آگے
میوزیم اور کتب خانہ کے قانون کے مطابق کام کے اوقات پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا ۔ صبح ساڑھے دس بجے سے پہلے نہ تو کوئی عمارت میں داخل ہوسکتا تھا نہ شام میں پانچ بجے کے بعد کسی کو عمارت میں ٹھہرنے کی اجازت تھی ۔ اتوار کا دن تھا ۔ میں فرصت کے دوران کتب خانہ میں بیٹھے بیٹھے یوں ہی باہر میدان کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں نایاب اشیاء کی ’’نیلامی‘‘ ہورہی تھی ۔ اچانک وہاں مجھے فلم اداکار اجیت (اصلی نام حامد علی خان صاحب) نظر آئے ، جو اس وقت نیلام گھر میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔ میں بچوں کی طرح خوشی سے اچھل پڑا اور چاہتا تھا کہ اپنی خوشی دوسروں کے ساتھ بانٹوں ، مگر سوال تھا کس کے ساتھ ؟ کتب خانہ میں یا تو کٹر مذہبی شخصیتیں تھیں یا Veterans جن کو کسی فلم اداکار کو دیکھنا بھی گوارا نہ ہوتا (اجیت صاحب رومانٹک ہیرو تھے اور اس وقت تک انہیں Lion کے طور پر شہرت نہیں ملی تھی)۔ جلد ہی مجھے شاہد صاحب کا خیال آیا تاہم ان کے منہ پھٹ جملوں نے مجھے خوفزدہ کردیا تھا ۔ آخر تھوڑی ہمت کرکے میں شاہد صاحب کے پاس پہنچا اور انھیں بتایا ’’صاحب ! فلم اداکار اجیت اس وقت کتب خانہ کے سامنے ’’نیلام گھر‘‘ میں موجود ہیں ۔ شاہد صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے ہدایت دی ’’اجیت سے کہو شاہد صدیقی آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘ ۔ میں اجیت صاحب کی طرف دوڑ پڑا ، ان کو سلام کیا اور بتایا ’’شاہد صدیقی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘ ۔ اجیت صاحب اسی وقت میرے ساتھ کتب خانہ میں داخل ہوئے اور شاہد صاحب سے ملاقات کی ۔

چند دن کے اندر ایک اور واقعہ ہوا ۔ سائرہ بانو اپنی پہلی فلم ’’جنگلی‘‘ کی ریلیز کے موقع پر حیدرآباد آئیں تو ان کے پروگرام میں ’’سالار جنگ میوزیم‘‘ کو بھی شامل کیا گیا ۔ میوزیم میں گھومتا گھامتا میں نے بھی سائرہ بانو کو دیکھا ، مگر چپکے سے وہاں سے کھسک گیا ۔ تب تک میں اتنا سیانا ہوچکا تھا کہ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس دفعہ اپنی خوشی بانٹنے شاہد صاحب کے پاس نہ جاؤں گا کیونکہ اگر انھوں نے پھر مجھے سائرہ بانو کو ساتھ لانے کی بات کی تو مجھ پر ’’Eve Teasing‘‘ کا مقدمہ بن سکتا ہے ۔

میوزیم اور کتب خانہ میں سالار جنگ ثالث (مرحوم) کے ملازمین کے علاوہ ان کے رشتہ داروں کو مختلف شعبوں میں بھرپور نمائندگی دی گئی تھی  ۔انتظامیہ ایک صاحب موظف ڈپٹی کلکٹر کو ملازمت دینا چاہتا تھا تاہم اس وقت وہاں مناسب عہدہ خالی نہ تھا ۔چنانچہ ان صاحب کو کتب خانہ میں بطور ’’خطاط‘‘ تقرر کیا گیا ۔ صاحب موصوف خوش اسلوب ، خوش پوش اور خوش باش تو ضرور تھے ، لیکن فن خطاطی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا ۔ میں نہیں جانتا کہ یہ انتظامیہ کی مصلحت تھی یا مجبوری کہ ان کو کسی اور شعبہ میں ذمہ داری نہ سونپ کر انھیں ’’حال کا نہ قال کا روٹی چمچہ دال کا‘‘ بنا کر رکھ دیا ۔ ڈھیلا کرتا پاجامہ زیب تن کرکے ایک انچ موٹا کھڑاوں پاؤں میں ڈال کر کچھ دیر تک اپنی کرسی پر بیٹھتے ۔ چائے وغیرہ پی کر اس کے بعد کتب خانہ اور میوزیم کے درمیان ایک کونہ سے دوسرے کونہ تک گشت لگاتے ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے پرانے زمانے میں شہر کا کوتوال امن و امان کا جائزہ لینے Patroling کرتا تھا ۔ جہاں جہاں سے گزرتے ان کے کھڑاؤں کی آواز کھٹ کھٹ کھٹ دور دور تک دوسروں کے کانوں میں گونجتی رہتی ۔ سب دیکھتے رہ جاتے مگر اُف تک نہ کرتے تاہم جیسے ہی ان پر شاہد صاحب کی نظر پڑی شاہد صاحب نے اخبار ’’سیاست‘‘ کے کالم ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کا ایک گوشہ صاحب موصوف کیلئے مختص کردیا اور روز ان کا تھوڑا تھوڑا چربہ اتارنے لگے ۔ وہ صاحب خود بھی شاہد صاحب کے ’’ارشادات‘‘ کو بھانپ گئے تھے لیکن فطرتاً شریف آدمی جو ٹھہرے ، کبھی تکرار نہیں کی ۔