پورے ہندوستان کو 2002 کا گجرات بنانے کی تیاری!

ظفر آغا
کل بنگال میں آسنسول اور بہار میں بھاگلپور تھا تو آج راجستھان میں اجمیر اور اتر پردیش میں اعظم گڑھ ہو سکتا ہے۔ لب و لباب یہ ہے کہ سنگھ اور بی جے پی نے یہ طے کر لیا ہے کہ نریندر مودی کو ملک کا دوبارہ وزیر اعظم بنانے کے لیے وہ سنہ 2019 تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہیں گے۔ پھر نریندر مودی تو کرتے ہی دنگوں کی سیاست ہیں۔ بھلے ہی مودی جی اب گجرات کے سنہ 2002 کی مسلم نسل کشی بھول گئے ہوں لیکن ہندوستان وہ دنگے نہیں بھولا ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ گجرات فساد نے مودی کو مودی بنا دیا۔ انھیں دنگوں کے بعد ہی مودی نے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کا روپ اختیار کیا ورنہ اس سے قبل مودی کی اس ملک کی سیاست میں کیا حیثیت تھی۔ یہ وہ اور سارا ملک بخوبی جانتا ہے۔ یوں تو اس بات پر آج بھی بحث جاری ہے کہ گجرات کے دنگے نریندر مودی کو آزاد ہندوستان کا سب سے قدآور ’ہندو لیڈر‘ بنانے کے لیے منظم سازش کے تحت ہی کیے گئے تھے یا نہیں۔ اس بات پر دو رائے تو ہوسکتی ہے کہ گجرات دنگے کیوں ہوئے، لیکن اس بات سے کسی کو نااتفاقی نہیں ہو سکتی کہ مودی کی سیاست کھل کر ’ہندو سیاست‘ بلکہ ہندوتوا سیاست ہی ہے اور ہندوتوا سیاست مسلم فیکٹر کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ہے۔یہ تمہید اس لیے کہ اب آپ کی سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ آخر بنگال، بہار، راجستھان اور اتر پردیش جیسے صوبے فرقہ وارانہ فسادات سے کیوں جھلس رہے ہیں۔ تلخ سیاسی حقیقت تو یہی ہے کہ بنگال، بہار اور راجستھان سے فسادات کی جو خبریں آئی ہیں وہ تو محض ایک جھلکی ہے۔ نریندر مودی کی اگر دوبارہ تاج پوشی ہونی ہے تو آسام سے لے کر دہلی تک اس پورے علاقے کو دنگوں کی آگ میں جھونکے بنا یہ کام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جب تک مسلم لہو سڑکوں پر بہتا نہیں، مسلم بستیاں جھلستی نہیں اور مسلم ناموس کی آبرو ریزی نہیں ہوتی، بھلا تب تک نفرت کی سیاست چمکے گی کیسے! اس لیے اب سنگھ اور بی جے پی کے پاس صرف اور صرف دنگوں کی سیاست یعنی ’مسلم-ہندو دشمنی‘ کا ہی حربہ بچا ہے۔’مسلم-ہندو دشمنی‘ کا حربہ اس لیے بھی کہ عام ہندو کو مودی کا اصل چہرہ اور رنگ روپ اچھی طرح سمجھ میں آ چکا ہے۔ ہندوستان اب یہ سمجھتا ہے کہ مودی کی سیاست غریب دشمن سیاست ہے۔ مودی کسان دشمن ہے، مودی نوجوانوں کو روزگار دینے کے بجائے ان سے پکوڑے فروخت کروا رہا ہے، مودی صرف اڈانی، امبانی، نیرو مودی، مالیہ اور چوکسی جیسے مٹھی بھر سرمایہ داروں کا ہمدرد ہے۔ لوگ اب یہ بھی شک کر رہے ہیں کہ مودی چوکیدار نہیں بلکہ بینکوں کو لٹوانے والا کھلاڑی ہے۔ اور تو اور وہ ہندوستانی بنیا اور تاجر جو صدا سے سنگھ کا دَم بھرتا تھا، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد اس کا بھی بھرم مودی سے ٹوٹ چکا ہے۔اگر ہندوستان واقعی مودی کا اصل روپ سمجھ چکا ہے تو پھر مودی کے پاس بچتا ہی کیا ہے! کیونکہ اب ’وکاس‘ کی سیاست کا نعرہ دے کر عوام کو جھانسا دینے والا مودی ختم ہو چکا ہے۔ بس اور بس اب صرف 2002 کے گجرات دنگوں والا مودی بچا ہے۔ اس لیے اب چناؤ جیتنے کے لیے صرف دنگوں کا ہی حربہ بچا ہے۔ اسی لیے آسام سے لے کر دہلی تک تمام علاقے اب صرف دنگوں کی آگ میں ہی جھونک دیے جائیں گے بلکہ کوئی حیرت نہیں کہ پورے ہندوستان کوہی دوسرا گجرات بنا دیا جائے۔ اگر اس پلان کو کامیاب کرنے کے لیے رام مندر تعمیر کی ضرورت پڑی تو اس سے بھی کوئی گریز نہیں ہوگا۔ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت یہ اعلان کر ہی چکے ہیں کہ رام مندر بنے گا

اور اسی جگہ بنے گا جہاں بابری مسجد تھی۔میرا خیال تو یہ ہے کہ سنہ 2019 کا لوک سبھا چناؤ بی جے پی رام مندر تعمیر کے بغیر جیت ہی نہیں سکتی ہے، کیونکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار کے بعد عام ہندو محض ہندو نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ ذات پات کی نگاہ سے زیادہ سوچ رہا ہے۔ دلت سڑکوں پر ہے اور ’بھارت بند‘ کے موقع پر جان دینے کو بھی تیار ہے۔ یعنی دلت کو یہ سمجھ میں آ چکا ہے کہ بی جے پی اور اس کے لیڈر اس کے ہمدرد نہیں ہیں۔ پھر مایاوتی نے اکھلیش کا ہاتھ تھام کر اس اتر پردیش، جہاں سے مودی سمیت بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو 74 لوک سبھا سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی، اسی اتر پردیش میں اب مایا اور اکھلیش نے بی جے پی کو 35-30 سیٹوں پر سمیٹ دیا ہے۔ اس خسارے کا کسی نہ کسی کو خمیازہ تو بھگتنا ہوگا۔ یہ خمیازہ اگر مسلمان کے سر منڈھ دیا جائے تو دلت شاید اپنی ذات بھول کر ہندو بن جائے اور پھر وہ شاید مودی کو ووٹ دے دے گا۔ اس کیلئے بھگوان رام کی مدد اور دنگوں کی لپٹوں کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔صرف دلت ہی نہیں بلکہ وہ پسماندہ ذاتیں جنھوں نے پچھلے چناؤ میں بی جے پی کو جی کھول کر ووٹ دیا تھا وہ بھی اب بی جے پی سے ہاتھ کھینچ رہی ہیں۔ اس کا ثبوت این ڈی اے کی وہ پارٹیاں ہیں جو اب مودی کی قیادت سے بدظن ہو کر این ڈی اے سے یا تو دور ہو رہی ہیں یا اس کا دامن چھوڑ رہی ہیں۔ مہاراشٹر میں شیو سینا اور آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ شیو سینا اور تیلگو دیشم دونوں ہی اپنی اپنی ریاستوں میں پسماندہ طبقوں کی پارٹیاں ہیں۔ پھر وہ نتیش کمار ہوں یا کشواہا اور پاسوان، یہ سب بھی این ڈی اے میں رہتے ہوئے بھی مودی کی قیادت سے بدظن نظر آ رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی سیاست پسماندہ ذاتوں کی سیاست اور قیادت ہے۔ یعنی این ڈی اے کے باغی لیڈروں پر زمینی دباؤ ہے کہ وہ بی جے پی سے ناطہ توڑیں۔ پھر زیادہ تر پسماندہ ذاتیں کھیتی باڑی روزگار سے جڑی ہوئی ہیں۔ کسان مودی سے منھ موڑ چکا ہے۔ یعنی زیادہ تر پسماندہ ذاتیں بھی مودی سے ناراض ہیں۔اب جب ہندو اکثریت پر دھرم کے بجائے ذات کا رنگ چڑھ چکا ہے تو اس کو پھر کیسے دوبارہ ہندو بنایا جائے۔ اس کا سیدھا سا نسخہ ہے ’مسلم دشمنی جگاؤ‘۔ اور یہ کام دنگوں اور رام مندر کی آڑ میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی بنگال جل رہا ہے تو کبھی بہار سے دنگوں کی خبر یں آ رہی ہے اور کبھی راجستھان و اتر پردیش میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑک رہی ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ سنہ 2019 تک بٹوارے یعنی نفرت کی سیاست کی آگ میں ہندوستان ویسے ہی جھونک دیا جائے گا جیسے کبھی سنہ 1947 کے دوران بٹوارے کی سیاست کرنے والے محمد علی جناح نے غیر منقسم ہندوستان کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا تھا۔یعنی نریندر مودی آزاد ہندوستان کے ہندو جناح بننے کو تیار ہیں۔جیسے جناح کو بٹوارے کے بغیر پاکستان کا تاج نہیں میسر ہو سکتا تھا، ویسے ہی نفرت اور ہندو-مسلم بٹوارے کے بغیر نریندر مودی کی دوسری بار تاج پوشی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے بس کمر کس لیجیے اس قسم کی سیاست کا سامنا کرنے کو جیسی سیاست کا سامنا اس ملک کو 1947 میں تھا۔یہی آج کے ہندوستان کی تلخ حقیقت ہے جو بنگال و بہار جیسی جگہوں پر نظر آنی شروع ہو چکی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!