پوری دنیا میں ذیکا وائرس کے بڑھتے خطرات

ڈاکٹر نبیل احمد حان
ذیکا وائرس بڑی تیزی سے برازیل اور اس کے آس پاس کے ممالک میں پھیل رہا ہے ۔ سب سے زیادہ اس وائرس سے متاثرہ ملک برازیل ہے ۔ یہ وائرس کم و بیش 20 ممالک میں پھیل چکا ہے ۔ اس کے خطرات ہندوستان کو بھی ہیں کیونکہ بہت بڑی آبادی والے اس ملک میں بچوں کی پیدائش کی شرح بھی کافی زیادہ ہے ۔ یہ بیماری مچھروں کی وجہ سے پھیل رہی ہے ۔ ایڈیس ایجپسٹی  مچھروں میں ذیکا وائرس پائے جاتے ہیں ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس وائرس سے نوزائیدہ بچوں کے ذہن سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں نیورولوجیکل مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں مثلاً مائیکرو سیفالی اور بچوں میں چھوٹے سروں کا ہونا شامل ہے ۔
گزشتہ سال ہی ذیکا وائرس کا کیس برازیل میں سامنے آیا ۔ یو ایس کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق ذیکا وائرس اس وقت کم و بیش 20 ممالک میں سرایت کرچکا ہے ۔ خاص طور پر مرکزی اور جنوبی امریکہ میں اس کے اثرات زیادہ ہیں ۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ ذیکا وائرس ہندوستان کے لئے نہایت فکرمندی کی بات بن چکا ہے ۔ ہندوستانی اتھارٹیز کے لئے یہ وائرس اب دردسر بن چکا ہے ۔ کیونکہ یہاں دوسرے ممالک کے مقابلے بڑی تعداد میں بچوں کی پیدائش درج کی جاتی ہے ۔ کیونکہ یہ یکا وائرس جنین کو متاثر کرتا ہے ۔ اس لئے ہندوستانی اتھارٹیز نے ٹکنیکل گروپ  کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس وائرس سے ہندوستان کو محفوظ رکھا جاسکے ۔ اس سلسلے میں حکومت کے اقدامات شروع ہوچکے ہیں ۔ اب جبکہ ذیکا وائرس برازیل اور امریکہ جیسے ممالک میں تیزی سے پھیل چکا ہے تو پوری دنیا میں طبی ماہرین اس وائرس کے پھیلنے کی وجوہ کے بارے میں تحقیق میں مصروف ہوچکے ہیں ۔ اب عالمی پیمانے پر ماہرین اس وائرس کو سمجھنے اور اس کے پھیلنے کی وجہ جاننے کی کوشش میں لگ گئے ہیں ۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر کس وجہ سے یہ وائرس پیدا ہوا ہے اور نوزائیدہ بچوں پر اس کے اثرات کیوں ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں دو کیسس سامنے آئے ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکا ہے کہ یہ وائرس صرف مچھروں کی وجہ سے نہیں پھیلتا ہے بلکہ اس کی ایک وجہ سیکس بھی ہے یعنی سیکس کی وجہ سے یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے ۔
گزشتہ جمعرات کو میامی میں ایک کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا اس کانفرنس میں یو ایس کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن پرنسپل ڈپٹی ڈائرکٹر انے شوجات سے حالیہ نیویارک ٹائمز کے اس وائرس پر شائع شدہ رپورٹ کے بارے میں سوال کیا گیا ۔ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ایک ذیکا کا ایسا کیس سامنے آیا ہے جس کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سیکس کی وجہ سے یہ وائرس بچے کی جنین میں منتقل ہوا ہے ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک دوسرے کیس میں ذیکا وائرس مادیہ منویہ میں پایا گیا ۔ ایک شخص کے اندر جب اس وائرس کی علامت پائی گئی تو اس کی جانچ سے پتہ چلا کہ اس وائرس سے متاثر ہونے کے دو ہفتے کے بعد اس کے مادہ منویہ میں ذیکا وائرس پایا گیا ۔ اس لئے اس سلسلے میں صرف یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ وائرس صرف انفکشن والے مچھروں سے ہی پھیلتا ہے بلکہ اس کے حیاتیاتی وجوہ بھی ہیں۔
یہ وائرس مادہ منویہ کے ذریعہ پرورش پارہے جنین میں منتقل ہوتا ہے اور اس کے بعد جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کی جسمانی ساخت خصوصاً اس کے سر کا حصہ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔
شوچات نے اس سلسلے میں اس بات کی بھی وضاحت کی کہ سائنس اس مسئلہ پر نہایت واضح موقف رکھتا ہے کہ ذیکا وائرس بنیادی طور پر مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے لوگوں میں سرایت کرتا ہے یعنی انفکشن زدہ مچھروں کے کاٹنے سے ہی یہ وائرس دوسروں میں منتقل ہوتا ہے ۔ اس لئے اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمیں اپنی توجہ کہاں زیادہ مبذول کرنی ہے‘‘۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ یہ وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں لیکن اب تک صرف امریکہ میں اس کے چار ملین کیسس منظر عام پر آچکے ہیں ۔ حالانکہ برازیل مائیکرو سیفالی کیس پر کنٹرول کرنے کی جد و جہد میں مصروف ہے ۔ جس کے تحت پیدا ہونے والے بچوں کے سر معمول سے کافی چھوٹے ہوتے ہیں ۔ یعنی اس وائرس سے پیدا ہونے والے بچوں کے سر سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ برازیل میں گزشتہ سال سے (جب سے یہ وائرس وہاں پھیلا ہے) اب تک 4000 ذیکا وائرس کے مشتبہ کیسس منظر عام پر آچکے ہیں ۔
حالانکہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ ذیکا وائرس کا تعلق جنین اور پیدا ہونے والے بچوں کے ابنارمل سروں سے ہوسکتا ہے ، لیکن ہیلتھ اتھارٹیز کا کہنا ہے کہ اس طرح کے وائرس کے پھیلنے اور اس کے اثرات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ ریسرچ کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ایک حاملہ خاتون کو جب اس وائرس والا مچھر کاٹتا ہے خاص طور پر پہلے تین ماہ کی حاملہ خاتون کو اگر یہ مچھر کاٹتا ہے تو اس کے پیدا ہونے والے بچے میں اس وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس کا بچہ ابنارمل پیدا ہوتا ہے خاص طور پر اس کا سر چھوٹا ہوتا ہے ۔ اس وائرس پر اب تک کوئی تحقیق نہیں ہوسکی ہے نہ ہی اس کا اب تک کوئی ٹیکہ وجود میں آیا ہے ۔ تحقیق کنندگان اس وائرس کے پھیلنے کی بنیادی وجوہ کے بارے میں پتہ لگانے میں مصروف ہیں ۔ اس سلسلے میں تحقیق کرنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا بالکل نیا وائرس ہے ۔ اب تک اس وائرس کے بارے میں کچھ بھی سنا نہیں گیا ہے ۔اس وائرس کی علامتوں میں ہلکا بخار ، جسم میں خارش ،کنجنیکوائٹس ، جوڑوں اور پٹھوں میں درد اور کھنچاؤ کا پایا جانا ہوتا ہے ۔ یہ علامتیں کم و بیش دو سے سات دنوں تک پائی جاسکتی ہیں ۔ کچھ لوگوں میں اس وائرس کے سرایت ہونے کے باوجود مذکورہ علامتیں ظاہر نہیں ہوپاتی ہیں  ۔
یہ وائرس کیوں پھیلتا ہے ، اس کے لئے تحقیق پر یو ایس نے فنڈس مختص کئے ہیں ۔ 97 ملین ڈالرس اس وائرس کی تحقیق کے لئے مختص کئے گئے ہیں تاکہ تحقیق کنندگان پتہ لگاسکیں کہ آخر یہ وائرس پھیلتا کیسے ہے ؟ اس مرض کی وجوہ کیا ہیں ؟ ان مچھروں پر کنٹرول کیسے پایا جائے جن کی وجہ سے یہ وائرس عام لوگوں میں پھیلتا ہے ۔