پسماندگی مبارک ہو

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
پچھلے دو ہفتوں میں ہم نے اتنی مبارکبادیاں قبول کی ہیں اور اتنی بدھائیاں وصول کی ہیں کہ اگر کوئی ہمیں سچ مچ گالی دے دے یا ذلیل بھی کرے تو ہم بصد انکسار اس کی خدمت میں دوہرے ہو ہو کر عرض کریں گے ’’آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ یہ سب کچھ آپ کی عنایت ہے ، کرم ہے ، نوازش ہے ، مہربانی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ‘‘ ۔ فرد اور قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی اییک منزل ایسی بھی آتی ہے جب گالی اور خیر سگالی کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا ۔ ذلت ، توقیر کی طرح ، بدحالی ، خوشحالی کے سمان اور بدنامی نیک نامی کا روپ دھارن کرلیتی ہے ۔ اگرچہ ہمیں اپنے ایک شخصی اعزاز کے سلسلہ میں مبارکبادیاں ملتی رہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے جب سے سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کے بارے میں سچی سچی باتوں پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کی ہے تب سے مسلمانوں کی جھوٹی قیادت پر مشتمل رہنماؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ مسلمانوں کی پسماندگی اور جہالت کے ثابت ہوجانے پر ایک دوسرے کو یوں مبارکباد دے رہے ہیں جیسے وہ خود اس پسماندگی کے بلاشرکت غیرے ذمہ دار ہوں ۔ یوں لگتا ہے جیسے ان رہنماؤں میں مسابقت چل رہی ہو کہ میاں ذرا سوچو مسلمانوں کی پسماندگی میں سب سے نمایاں حجصہ کس رہنما کا رہا ہے ۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک پرانے دوست جو برسوں سے امریکہ میں رہتے ہیں ، اچانک ایک محفل میں مل گئے تو بے ساختہ بغلگیر ہوتے ہوئے بولے ’’میاں ! مبارک ہو ۔ اب تو تمہیں بھی پسماندگی کی دولت اور جہالت کی نعمت نصیب ہورہی ہے ۔ سچر کمیٹی نے بالآخر تمہارے کپڑے اتار کر دنیا والوں کو بڑے سلیقہ سے یہ دکھادیا کہ تمہاری شیروانی کے اندر جو قمیض ہوتی ہے نہ صرف وہ پیوندوں کے سہارے تمہارے جسم پر ٹکی ہوئی ہوتی ہے بلکہ قمیض کے نیچے جو بنیان ہوتی ہے ، وہ تو پیوندوں کی بھی مرہون منت نہیں ہے ۔

کیونکہ ایک زمانے میں تمہیں مجبوراً اپنی معاشی بدحالی اور خود بنیان کی خستہ حالی کے باعث اس کے بغل والے سوراخ میں اپنی گردن کو داخل کرکے استعمال کرنا پڑتا تھا‘‘ ۔ ہم نے اپنے دوست کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’میاں! جہاں تک ہماری شخصی پسماندگی کا تعلق ہے ہمارے حق میں تمہاری حیثیت اولین سچر کمیٹی کی سی ہے لیکن اب تو اصل سچر کمیٹی نے سارے ہندوستانی مسلمانوں کی عمومی معاشی پسماندگی کو طشت از بام کردیا ہے ۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی تاہم ملت کی پسماندگی کے عیاں بلکہ عریاں ہونے پر ملت کے رہنماؤں کا والہانہ اظہار مسرت ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ہمیں تو رہ رہ کے اس سادہ لوح نوجوان کی یاد آتی ہے جس کی بعض لوگوں نے ایک بار بے پناہ پٹائی کردی تھی مگر وہ ہمیشہ بڑی خوشدلی کے ساتھ مزے لے لے کر اپنی پٹائی کی تکلیف دہ تفصیلات کو لوگوں کے آگے نہ صرف بیان کرتا تھا بلکہ اپنی پٹائی سے لطف اندوز بھی ہوا کرتا تھا  ۔ایک دن کسی نے اس سے کہ میاں تم بھی عجیب آدمی ہو ۔ تمہاری اتنی پٹائی ہوئی کہ تم ادھ موئے ہوگئے لیکن پھر بھی تم اس کا ذکر ایسی خوشدلی کے ساتھ کرتے ہو جیسے کوئی لطیفہ سنارہے ہو ۔ اس پر اس سادہ لوح نوجوان نے کہا ’’مانا کہ میری پٹائی ضرور ہوئی لیکن میںجانتا ہوں کہ میں نے پٹائی کرنے والوں کو خوب بے وقوف بنایا تھا ۔ اصل میں انہیں کسی بدمعاش کی پٹائی کرنی تھی ۔ مگر وہ لوگ اتنے بے وقوف تھے کہ انہوں نے غلط فہمی میں یہ سمجھ لیا کہ میں ہی وہ بدمعاش ہوں اور لگے میری پٹائی کرنے ۔ مگر اتنی پٹائی کے باوجود میں نے انہیں یہ بتا کے نہ دیا کہ میں وہ نہیں ہوں جس کی وہ اصل میں پٹائی کرنا چاہتے ہیں۔ بے وقوف کہیں کے‘‘ ۔
بہرحال جب سے سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی بدترین پسماندگی کو اعدادو شمار اور دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے تب سے اقلیتی قائدین کی خوشی کی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے انہیں قارون کا خزانہ مل گیا ہو ۔ گویا یہ پسماندگی نہ ہو دو جہاں کی دولت ہو ۔ جلسے ہورہے ہیں ، مباحثے ہورہے ہیں ، سمینار ہورہے ہیں ، لوگ تالیاں بجارہے ہیں اور لیڈر بغلیں بجارہے ہیں ۔ غرض ہر کوئی کچھ نہ کچھ بجارہا ہے چاہے وہ اپنی ڈفلی ہی کیوں نہ ہو ۔ ایک زمانہ میں مسلمانوں کے تین چار ہی گرما گرم مسئلے تھے ۔ اردو ، مسلم پرسنل لا ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بابری مسجد وغیرہ ۔ اب یہ مسئلے پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔ کہنے کو بابری مسجد کئی برس پہلے گرادی گئی لیکن ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس کے گرنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے کیونکہ یہ ایک عمل جاریہ ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کو ختم کردینا ہی کسی مسئلہ کو حل کرنے کا موثر طریقہ ہے ۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں غور نہیں کیا کیونکہ ہم خود اپنی روزمرہ زندگی کے مسائل میں اتنے الجھے رہے کہ غیر شخصی مسائل کی طرف توجہ کرنے کی مہلت نہ ملی ۔ خوب یاد آیا 2000 ء میں ہم جب واشنگٹن میں تھے تو پتہ چلا کہ پروفیسر مشیر الحسن وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ان کی رفیقہ حیات زویا حسن ورجینیا یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے آئے ہوئے ہیں اور علی گڑھ اولڈ بوائز اسوسی ایشن کی دعوت پر ’’مسلمانوں کے مسائل‘‘ پر اظہار خیال کرنے کی غرض سے واشنگٹن آنے والے ہیں ۔ ہم نے سوچا کہ ہندوستان میں رہ کر تو ہمیں مسلمانوں کے مسائل سمجھ میں نہیں آتے ۔ شاید امریکہ میں ہی سمجھ میں آجائیں ۔ یوں بھی ہمیں وہاں زیادہ فرصت تھی ۔ بہرحال اس تقریب میں شرکت کے بعد ہمیں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل تو اچھی طرح سمجھ میں آگئے لیکن کسی طرح یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ ان مسائل کا حل کون نکالے گا ۔ آدمی جب کسی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کے مرض کی تشخیص کے لئے انواع و اقسام کے طبی معائنے انجام دیئے جاتے ہیں بلکہ ان دنوں علاج پر اتنا خرچ نہیں آتا جتنا کہ طبی معائنوں پر آتا ہے ۔ ہم نے توبعض مریض ایسے بھی دیکھے ہیں جن کے طبی معائنوں کی رپورٹ نارمل آتی ہے تو دکھی ہوجاتے ہیں کہ اتنے بھاری خرچ کے بعد بھی ان کے جسم میں کوئی مرض دریافت نہ ہوسکا ۔ مسلمانوں کے عام مرض کے بارے میں نہ صرف ہمیں بلکہ رہنماؤں کو بھی اچھی طرح معلوم تھا

لیکن کیا کریں جب تک طبی معائنہ نہ ہو کوئی بھی ڈاکٹر مریض کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا سچر کمیٹی کی رپورٹ کو مسلمانوں کے مرض کے طبی معائنہ کی رپورٹ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ سچر کمیٹی نے نہایت واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان پسماندگی کے خطرناک اور سنگین مرض میں مبتلا ہیں جس کے فوری اور موثر علاج کی ضرورت ہے ۔ اس وقت علاج معالجے کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہمارے قائدین مذاکروں ، مباحثوں اور جلسوں کے انعقاد میں مصروف ہیں ۔ ہمارے نوجوان صحافی دوست عزیزی رشید الدین نے کریم نگر کے ضمنی انتخاب کے پس منظر میں ایک بلیغ بات کہی تھی کہ ملت تو اپنی جگہ متحد ہے لیکن ملت کی قیادت منتشر ہے ۔ ایک طرف تو ملت میں شعور کی بیداری کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے لیکن دوسری طرف ملت کے قائدین کی بے حسی اور بے ضمیری میں بھی اتنی ہی شدت سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک محفل میں بشیرالدین بابو خان ، سابق وزیر آندھرا پردیش سے ملاقات ہوئی تو ہم نے ملت کے فوری علاج معالجے کی طرف توجہ دلائی ۔ بشیر الدین بابو خان کو ہم نے دہلی کے سمیناروں اور مباحثوں میں بولتے ہوئے سنا ہے ۔ بے حد سلجھے ہوئے ، ذہین اور عملی نقطہ نظر رکھنے والے انسان ہیں ۔ کہنے لگے ’’آپ نے ٹھیک کہا کہ مرض کی تشخیص تو ہوچکی ہے اور علاج کے لئے فوری حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن کیا کریں ہمارے اکثر رہنما طبی معائنہ کو ہی اصل علاج سمجھتے ہیں اور ملت کی پسماندگی کے مرض کو ایک اعزاز تصور کرتے ہیں‘‘ ۔ ابھی دو دن پہلے ہمارے صحافی دوست م افضل نے ، جو ان دنوں انگولا میں ہندوستان کے سفیر ہیں ، ہمیں فون کیا تھا ۔ ہم نے جب بشیر الدین بابو خان والی رائے انہیں سنائی تو بولے ’’میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں ، اس وقت ہمیں ایسے ہی لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس کمیٹی کی سفارشات کی عمل آوری کے سلسلہ میں جامع بلیو پرنٹ تیار کریں اور ایک پریشر گروپ تشکیل دیں ۔ پارلیمنٹ کے سابق رکن کی حیثیت سے میرا یہ احساس ہے کہ موجودہ حالات اتنے سازگار ہیں کہ اگر اس وقت ان سفارشات کو روبہ عمل نہ لایا جائے گا تو پھر بعد میں ایسا خوشگوار موقع نصیب نہ ہوگا‘‘ ۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے قائدین ملت کی پسماندگی کو ذریعہ عزت نہ بنائیں بلکہ اس پسماندگی کو دور کرنے کی سعی کریں ۔ (ایک پرانی تحریر)