پروفیسر علی محمدخسرو

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
پچھلے دنوں ایک صاحب ہم سے ملنے کیلئے ہمارے گھر آئے تھے ۔ ان سے ہماری یہ پہلی ملاقات تھی ۔ چونکہ پہلی بار ہمارے گھر آئے تھے لہذا انہوں نے  پہلے تو ہمارے گھر اور ہمارے رہن سہن کا بغور جائزہ لیا پھر پوچھا ’’اگر آپ نے واقعی تعلیم حاصل کی ہے تو اس کا سہرا کس یونیورسٹی کے سر جاتا ہے ؟ ‘‘
ہم نے بتایا ’’1952ء میں ہم عثمانیہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اور یہاں سے ہم نے جو کچھ حاصل کیا اگر اسے واقعی تعلیم کہتے ہیں تو یہ اسی یونیورسٹی کی دین ہے‘‘۔
پوچھا ’’کیا بی اے میں آپ کا کوئی اختیاری مضمون معاشیات بھی تھا ؟ ‘‘
ہم نے اثبات میں جواب دیا تو مزید پوچھا ’’ کیا آپ نے پروفیسر علی محمد خسرو سے معاشیات کی تعلیم حاصل کی تھی؟ ‘‘
ہم نے اُن کے صحیح اندازے پراظہار حیرت کرتے ہوئے کہا ’’آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ مگر تو بتائیے کہ آپ نے اس بات کا صحیح صحیح اندازہ کیسے لگالیا؟‘‘
بے نیازی سے بولے ’’اس میں اندازہ لگانے کی کیا بات ہے ۔ آپ کی موجودہ معاشی حالت بتارہی ہے کہ معاشیات کی تعلیم آپ نے پروفیسر خسرو سے حاصل کی ہے ‘‘؎

ہمیں ان کی یہ بات بہت ناگوار گزری کیونکہ ہم نہ صرف پرانے زمانہ کے آدمی ہیں بلکہ ’انگریزوں کے زمانے کے جیلر‘ بھی ہیں۔ ہماری معاشی حالت چاہے کتنی ہی خراب کیوں نہ ہوجائے ہم اپنے کسی استاد کی شان میں گستاخی کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔ہم نے کہا ’’جناب والا ! آپ نئی نسل کے آدمی ہیں۔ آپ کیا جانیں کہ ہمارے زمانہ کا نظام تعلیم کیسا تھا ۔ مانا کہ معاشیات کی تعلیم ہم نے ضرور پروفیسر خسرو سے حاصل کی ہے لیکن اس زمانہ میں ’’معاشیات ‘‘ کے علاوہ ہمارا ایک مضمون ’’اخلاقیات‘‘ بھی ہوا کرتا تھا اور ہمیں لگتا تھا کہ معاشیات اور اخلاقیات میں وہی رشتہ ہے جو سانپ اور نیولے میں ہوا کرتا ہے کیونکہ دونوں مضمون ہر دم ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف تردیدی بیان کی حیثیت رکھتے تھے۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے پروفیسر خسرو ہمیں خوشحال زندگی گزارنے کی تلقین کرتے تھے اوراس کے گُر بھی بتاتے تھے لیکن دوسری طرف اخلاقیات کے استاد ہمیں غریبی میں نام پیدا کرنے ، فقر و فاقہ میں زندگی بسر کرنے ، روکھی سوکھی کھاکر مطمئن رہنے اور اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے سے کہیں زیادہ اپنی خودی کو بلند کرنے کا درس دیا کرتے تھے ۔ اخلاقیات کے چکر میں آکر ہم نے یہ مان لیا کہ ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے۔ یقین مانئے اگر یہ نہ مانا ہوتا تو آج ہم یوں در بدر کی ٹھوکریں نہ کھاتے پھرتے۔ یوں بھی آج جو معاشی نظام آپ دیکھ رہے ہیں، اسے ہم معاشی نظام نہیں کہتے بقول شخصے’ بدمعاشی نظام‘ کہتے ہیں اور اس کا تعلق پروفیسر خسرو سے بالکل نہیں ہے۔ ہم یہ ہرگز گوارا نہیں کریں گے کہ کوئی ہماری موجودہ معاشی حالت کی ذمہ داری پروفیسر خسرو پر عائد کرے‘‘۔
1953 ء کی عثمانیہ یونیورسٹی کو اب ہم یاد کرنے بیٹھے ہیں تو تعلیم کے سوائے وہ سب کچھ یاد آرہا ہے جس نے ہماری تعلیم میں بادھا ڈالی تھی۔ گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کالج سے نکل کر ہم اس سال عثمانیہ یونیورسٹی آئے تو دیکھا کہ یہاں ’’مخلوط تعلیم‘‘ کا رواج ہے ۔ بس اتنی سی بات پر ہم آپے سے باہر ہوگئے اور ہماری ساری دلچسپی ’’تعلیم‘‘ میں کم اور ’’مخلوط‘‘ میں زیادہ رہنے لگی۔ توبہ توبہ آج ہمیں یہ کہتے ہوئے شرم سی آتی ہے کہ کبھی کبھی تو خود پروفیسر علی محمد خسرو ہمیں اس ’’مخلوط تعلیم‘‘ میں مثلث کے تیسرے  ضلع کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ وہ برطانیہ کی لیڈس یونیورسٹی (leads University) سے معاشیات کی کوئی بھاری بھرکم ڈگری لے کر تازہ تازہ حیدرآباد واپس آکر عثما نیہ یونیورسٹی سے وا بستہ ہوگئے تھے ۔ ان کا رنگ روغن بھی پوری طرح نہیں اُترا تھا ۔ بالکل انگریز کی طرح دکھائی دیتے تھے ۔ یوں بھی انگریز کو اس ملک سے گئے ہوئے بڑی مشکل سے پانچ چھ برس گزرے تھے۔ سچ پوچھئے تو پروفیسر خسرو جیسے وجیہ و شکیل نوجوان استاد کی موجودگی ہماری نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔

شکل و شباہت میں وہ ہالی ووڈ کے مشہور فلمی اداکار مارلن برانڈو سے ملتے جلتے تھے ۔ وہ کلاس روم میںپڑھانے کیلئے آتے تو ہماری مخلوط تعلیم یکلخت درہم برہم ہوجاتی تھی ۔ ہم جن حسیناؤں کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرا کرتے تھے اور اس آس میں بیٹھے رہتے تھے کہ کبھی وہ بھی ایک نگاہ غلط انداز ہم پر ڈالیں گی وہ سب کی سب ٹکٹکی باندھے پروفیسر خسروکو بالاستیعاب دیکھنے میں مصروف ہوجاتی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ معاشیات کم پڑھاتے ہیں اور پٹی زیادہ پڑھاتے ہیں۔ اس حالت میں کسے یارا تھا کہ اُن سے معاشیات کا درس لیتا۔ گستاخی معاف ہم یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ ہم نے پروفیسر خسرو سے معاشیات کا درس تو نہیں لیا ، البتہ اُن کی ذات بابرکات کی وجہ سے ہمیں اردو کے ایسے شعروں کے معنی و مطالب بڑی آسانی سے سمجھ میں آگئے جن میں جگہ جگہ رقیب کا ذکر آیا ہے ۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ استاد اور طالب علم کی عمروں میں کم از کم پندرہ برس کا فرق  ضرور ہوناچاہئے ورنہ تعلیم خطرہ میں پڑجاتی ہے ۔ جوان عورت کا بوڑھا شوہر جتنابھلا لگتاہے اتنا ہی ایک طالب علم کو جوان استاد بہت برا لگتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو ان دنوں عثمانیہ یونیورسٹی میں پروفیسر خسرو کی ذات ایسی تھی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے ۔ جامہ زیبی، خوش شکلی ، دانشوری ، شائستگی اور سلیقہ مندی میں وہ اپنی نظیر آپ تھے بلکہ آج بھی ہیں۔
پروفیسر خسرو سے حیدرآباد میں تو اتنا ربط نہیں بڑھا تھا کیونکہ ربط ضبط کے بڑھنے کی گنجائش بھی نہیں تھی ۔ پھر ہم یونیورسٹی سے اور وہ حیدرآباد سے نکل آئے ۔ 1972 ء میں  ہم دہلی آئے تو اس وقت تک پروفیسر خسرو عملی زندگی میں کئی معرکے سر کرچکے تھے اور باقی کے معرکے ہمارے سامنے سر کئے ۔ دہلی اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر رہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک گروتھ کے سربراہ مقرر ہوئے ، پلاننگ کمیشن کے ممبر بنے ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ، جرمنی میں حکومت ہند کے سفیر رہے ۔ انگریزی اخبار ’’فینانشیل اکسپریس‘‘ کے ایڈیٹر بنے ۔ آغا خان فاؤنڈیشن (انڈیا) کے صدرنشین مقرر ہوئے۔ پھر مسلم یونیورسٹی کے چانسلر بن گئے اور اب خیر سے گیارہویں فینانس کمیشن کے صدرنشین بن گئے ہیں۔ دہلی کی ادبی ، سماجی اور تہذیبی محفلوں میں ان سے ربط ضبط بڑھا تو انہیں مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ نے ایسی شمعیں تو ضرور دیکھی ہوں گی جن کے اطراف پروانے منڈلاتے رہتے ہیں۔ مگر خسرو صاحب وہ پروانہ ہیںجس کے اطراف خود شمعیں منڈلاتی رہتی ہیں۔ چنانچہ جس محفل میں بھی ہوتے ہیں’’پروانہ محفل‘‘ بنے رہتے ہیں۔ باتیں ایسی خوبصورت، دل نشین اور من موہنی کرتے ہیں اور اس ڈھنگ سے کرتے ہیں کہ محفل میں موجود ہر شخص اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یہ اسی سے مخاطب ہیں۔ اُن کی تقریر جو ہمیشہ دل پذیر ہوتی ہے، اس کا بھی یہی حال ہے ۔ سننے والا ان کی باتوں کے ساتھ بڑی دور تک بہتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ بعد میں یہ خود تو کنارے پر واپس آجاتے ہیں لیکن مخاطب منجدھار میں گھرا رہ جاتا ہے۔

آپ کو پتہ ہوگا کہ پروفیسر خسرو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سب سے مقبول وائس چانسلر رہے ہیں۔ طلبہ میں اُن کی مقبولیت کی مثال ملنی مشکل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آدمی جب ایک حلقہ میں مقبول ہوجاتا ہے تو دوسرے حلقہ میں انجانے طور پر غیر مقبول بھی ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ طلبہ میں ان کی مقبولیت سے یونیو رسٹی میں جو حالات پیدا ہوگئے تھے انہیں ٹھیک کرنے کیلئے حکومت کو پے بہ پے دو آئی اے ایس عہدیداروں کو وائس چانسلر بناکر بھیجنا پڑا۔ اُن کے زمانہ وائس چانسلری میں ہم نے تو ایک بار یہاں تک دیکھا کہ وہ طلبہ کے ایک گروپ کو بہ نفس نفیس سائیکل چلانے کے کرتب دکھا رہے ہیں۔ غرض ان کے زمانے میں یونیورسٹی بھی چلی اور سائیکل بھی خوب چلی۔
پروفیسر خسرو کا تعلق حیدرآباد کے ایک ممتاز علمی اوردینی گھرانہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم و دین دونوں ان کی ذات میں رچ بس گئے ہیں۔ دہلی کی’’کاک ٹیل پارٹیوں‘‘ میں شرکت کرنے کے باجود وہ اپنے دین کو بڑی خوشی اسلوبی کے ساتھ صحیح و سالم بچاکر واپس لے آتے ہیں۔ یہ اُن کی بڑی خوبی ہے۔ تصوف سے انہیں خصوصی دلچسپی ہے ۔ جس خشوع و خضوع کے ساتھ وہ حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت امیر خسرو اور حضرت خواجہ حسن نظامی کے عرس کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں، اسے دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ ملک کے اتنے بڑے ماہر معاشیات بھی ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ آج کے زمانہ میں دین اور علم دونوں آپس میں بہت جلد ٹکرا جاتے ہیں لیکن پروفیسر خسرو کی ذات میں یہ دونوں خوشی خوشی ایک ہی گھاٹ پر پا نی پینے لگ جاتے ہیں۔ اسے پروفیسر خسرو کی ذات کا سحر نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ بہت کم لوگوں کواس کا علم ہوگا کہ پروفیسر خسرو اپنے گھر پر بڑے اہتمام کے ساتھ قوالی کی محفلیں بھی آراستہ کرتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے گھر کی دیگر محفلوں میں تو ضرور بلاتے ہیں لیکن قوالی کی محفل میں بالکل نہیں بلاتے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ وہ کتنے بڑے مزاج دان ہیں اور ہر شخص کو کتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں۔

دو سال پہلے حکومت ہند نے حج کے موقع پرا  پنا جو خیر سگالی وفد بھیجا تھا اس میں ہم بھی پروفیسر خسرو کے ہم رکاب تھے ۔ لگاتار تین ہفتوں تک سعودی عرب کی مقدس سر زمین پراُن کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ۔ اس سارے عرصہ میں انہوں نے کبھی معاشیات اور میعشت ، مالیات اور مالیت کی کوئی بات نہیں کی ۔ مدینہ میں ان کا اور ہمارا زیادہ تر وقت مسجد نبویؐ میں ہی گزرتا تھا۔ مکہ سے مدینہ جاتے وقت انہوں نے ایک بلیغ جملہ کہا تھا’’ہم اب اللہ کے گھر سے نکل کر اپنے گھر جارہے ہیں‘‘۔ عصر کی نماز سے عشاء کی نماز کے بعد تک ہم دونوں مسجد نبویؐ میں ہی بیٹھا کرتے تھے ۔ ان لمحوں میں اندازہ ہوا کہ قرآن کی تعلیمات اور اسلام کی تاریخ کے بارے میںان کا مطالعہ کتنا وسیع ہے۔
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پروفیسر خسرو شکار کے بے حد شوقین ہیں (یہاں مراد جانوروں کے شکار سے ہے) اس وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے کرم فرما خواجہ حسن ثانی نظامی نے شکار سے پروفیسر خسرو کی دلچسپی کے بارے میں جب پہلے پہل ہمیں بتایا تو ہم نے معصومیت میں کہہ دیا تھا ’’ہمیں اس کا پتہ ہے کیونکہ عثمانیہ یونیورسٹی میں پروفیسر خسرو جب ہمیں معاشیات پڑھاتے تھے تو وہ جوان تھے اور ہم نوجوان تھے ۔ تبھی سے اُن کے اس ہنر سے واقف ہیں‘‘۔ بھلے ہی خواجہ صاحب مجرد زندگی گزارتے ہوں لیکن ہیں نہایت جہاندیدہ۔ انہوں نے فوراً ہماری خطرناک معصومیت کو تاڑلیا اور ہماری غلط فہمی کو دور کرنے کی غرض سے جنگلی بکروں ، نیل گایوں، ہرنوں اور جنگلی مرغوں کو بیچ میں لے آئے ۔ اُن کے ساتھ کبھی ہمیں شکار پر جانے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کے شکار کے کئی قصے سن رکھے ہیں جنہیں سنانے کا حق خواجہ حسن ثانی نظامی کو ہی پہنچتا ہے۔ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ انہوں نے کبھی شیر کا شکار نہیں کیا کیونکہ آج تک کوئی بھی شیر اپنے دانت نکال کر اور پنجے پھاڑ کر ان کے سامنے آنے کی ہمت نہ کرسکا ۔ شکار کیلئے جب بھی یہ جنگل میں جاتے ہیں تو سارے شیر دُم دباکر ایسے شکاریوں کی طرف بھاگ جاتے ہیں جن کا نشانہ مشکوک اور جن کی بندوقیں زنگ آلود ہوتی ہیں۔

آخر میں یہ عرض کرتے چلیں کہ پروفیسر خسرو کو سابق ریاست حیدرآباد کے بے شمار واقعات اور لاتعداد باتیں یاد ہیں جن کا ذکر وہ بڑے فخر لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک للک کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک بار تو انہوں نے نظام حیدرآباد کی فوج کا ایک ترانہ بھی ایک فوجی کی طرح چل کر اور گاکر دکھایا تھا ۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ یہ تو بہترین اداکار بھی ہیں۔ حیدرآباد سے انہیں بے پناہ محبت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے دہلی میں اپنے گھر کا نام ہی ’’چراغ دکن ‘‘ رکھ چھوڑا ہے۔ اگرچہ دہلی میں خود ان کی ذات کو ’’چراغ دکن‘‘ کی حیثیت حاصل ہے لیکن انہوں نے یہ لقب بھی اپنے گھر کو دے رکھا ہے ۔ اس طرح اس گھر میں دکن کے دو چراغ رہتے ہیں۔ ایک بارہم نے ان کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی تھی کہ وہ اپنے گھر کا نام ’’چراغ دکن ‘‘ کے بجائے ’’چراغان دکن‘‘ رکھ لیں۔ مگر وہ کسر نفسی پر اتر آئے۔ چلتے چلتے ایک بات اور سن لیں۔ ایک رات ہمیں پروفیسر خسرو کے گھر جانا تھا ۔ ان کے علاقہ میں پہنچے تو اچانک بجلی فیل ہوگئی ۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ خسرو صاحب کا گھر کس طرف کو ہے ۔ ہم اندھیرے میں بھٹکتے پھر رہے تھے کہ سامنے سے ایک سایہ سا آتا دکھائی دیا۔ ہم نے سایہ کو روک کر پوچھا’’بھئی ! یہاں چراغ دکن کدھر کو ہے ؟ ‘‘

اس شخص نے اپنی جیب سے ماچس کی ڈبیہ نکال کر ہمیں دیتے ہوئے کہا ’’بھیا ! آپ کو ایسے میں چراغ کہاں سے ملے گا۔ میری ماچس کی ڈبیہ لیجئے اوراس سے کام چلائیے‘‘۔
پروفیسر خسرو آج بھی ایک منظم ، مصروف ، کارکرد اور باعمل زندگی گزارتے ہیں۔ ہر دم کام میں مصروف ۔ وقت کے ایک ایک لمحہ پر ان کے عمل کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ شہد کی مکھی جس طرح پھول کا رس چوس لیتی ہے اسی طرح یہ لمحہ موجود کا رس چوس لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسی بھرپور زندگی بہت کم لوگوں نے جی ہوگی۔
پروفیسر خسرو نے اپنے زمانے کو بہت کچھ دیا ہے لیکن زمانہ نے انہیں کیا دیا اس کا حال تو وہی جانیں۔ ہم تو بس اس خیال میں مگن ہیںکہ ہمیں پروفیسر خسرو کی صحبتوں سے فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ اُن کی باتیں سنیں، انہیں دیکھا ، انہیں سمجھا اور اُن کے حوالہ سے زمانہ کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ زمانہ تو خیر سمجھ میں نہیں آیا البتہ ہم نے اپنے آپ کو سمجھ لیا یہی بہت کافی ہے۔
(1998 ء)