پروفیسر بیگ احساس کو ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ

عابد صدیقی
ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ کیلئے اردو کے نامور ادیب پروفیسر محمد بیگ احساس کے نام کا اعلان کیا گیا جس پر نہ صرف حیدرآباد بلکہ اردو دنیا میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ بیگ احساس کے انتخاب سے 20برس تک طاری وہ سناٹا ٹوٹ گیا جو اس دوران کسی کو بھی ایوارڈ نہ ملنے کے باعث طاری رہا ۔ 1997ء میں مشہور شاعر گیان سنگھ شاطر کو ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ‘ اس سے قبل 1967ء میں حیدرآباد کے عظیم انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کو اکیڈیمی کا ایوارڈ پیش کیا گیا تھا ۔ اب یہ اعلیٰ اعزاز بیگ احساس کے حصہ میں آیا ہے ۔ بیگ احساس نے ایوارڈ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈیمی نے نہایت مناسب وقت پر انہیں اور اردو زبان کو یہ اعزام بخشا ہے جو ان کیلئے خوشی کا باعث ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوارڈ کا اس وقت اعلان کیا گیا جبکہ اردو کو عالمی زبان کی حیثیت سے مسلم قرار دیا گیا ہے اور ابھی ابھی دنیا بھر میں اردو کے عظیم شاعر مرزا غالبؔ کا 220واں یوم پیدائش منایا گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو وہ واحد زبان ہے جس کے ذریعہ ہندوستان کی تاریخ اور اس کے کلچر سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اردو زبان نے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کو جوڑے رکھا ہے ۔ ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ 69سالہ پروفیسر بیگ احساس کا احساس ہے کہ کئی زبانوں اور زبان بولنے والوں کے باہمی تال میل کے ذریعہ صدیوں سے اردو کا فروغ ہوا ہے ۔ تہذیب و ثقافت کے ارتباط اور ہم آہنگی کے ذریعہ ملک کا عظیم تہذیبی ورثہ ظہور پذیر ہوا جو اس ملک کا حقیقی ورثہ ہے ۔ پروفیسر بیگ احساس کو مختصر کہانی کے زمرہ میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ دخم ‘‘ پر اس ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا ۔
بیگ احساس نے جو خود کو حیدرآباد کا پرستار ہونے پر ناز کرتے ہیں ‘ اپنے ادبی کریئر کے چالیس برسوں میں تین کتابوں کا گرانقدر سرمایہ دیا ہے جن میں خوشئہ گندم ‘ ہنزل اور دخم شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے ادبی مضامین کا مجموعہ ’’ شور جہاں ‘‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔ انہوں نے تخلیقی اظہار کیلئے افسانہ کی صنف کا انتخاب کیا ہے ۔ انہوں نے سماجی تنقید کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل کا نہایت فنکارانہ اور تخلیقی پیرائے میں جائزہ لیا ہے ۔ ان کی بعض تحریروں کا انگریزی کے علاوہ کنڑ زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔ ان کی ایوارڈ یافتہ تصنیف ’’ دخم ‘‘دراصل سکندرآباد کے قدیم پارسی قبرستان کے قریب رہنے والوںکی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے ۔
بیگ احساس 12فبروری 2018ء کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی خصوصی ایوارڈ تقریب میں ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ حاصل کریں گے جو ایک لاکھ روپیہ اور تانبہ کے پلیٹ پر مشتمل ہے ۔ اپنی ایک ملاقات میں بیگ احساس نے کہا کہ حیدرآباد کے ملے جلے کلچر اور یہاں کی منفرد تہذیب کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے جس کے باعث بعض ادبی حلقے اس تہذیب و ثقافت سے پوری طرح روشناس نہیں ہیں ۔ ان کا احساس ہے کہ اس عظیم تاریخی شہر نے قطب شاہی عہد سے اب تک اس شہر کے کاسموپولیٹین کلچر اور سیکولر کردار کی نہ صرف آبیاری کی بلکہ اسے خوب پروان چڑھایا ہے ۔ شہر کے مشہور علاقے نامپلی ‘ مہدی پٹنم ہمارے مشترکہ کلچر اور ملی جلی تہذیب کی خوبصورت علامت ہیں ۔ ملک میں اپنی نوعیت کا یہ واحد شہر ہے جو منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن کسی نے بھی اس تہذیبی انفرادیت پر قلم نہیں اٹھایا ہے ۔
بیگ احساس نے کرشن چندر کے ادبی کارناموں پر پی ایچ ڈی ( ڈاکٹریٹ) کیا ہے اور وہ اس موضوع کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد میں شعبہ اردو کے صدر اور پروفیسر رہے ‘ اس سے قبل وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں بحیثیت لکچرر خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ 1979ء میں یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اردو ڈپارٹمنٹ قائم کیا ۔ پروفیسر بیگ احساس کو اردو ریسرچ اسکالرس کے پہلے بیاچ میں شامل رہنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ ادھر چندر برسوں سے اردو زبان کے روبہ زوال ہونے کا انہیں انتہائی افسوس ہے ‘ خاص طور پر عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو تعلیم کی صورتحال کو دیکھ کر انہیں رنج ہے ۔ جہاں سے کہ انہوں نے گریجویشن کی تکمیل کی ان دنوں اس یونیورسٹی میں نہایت قابل اور اُس دور کے مایہ ناز اساتذہ تھے ‘ جنہوں نے باصلاحیت اور قابل ترین اسکالرس اور رائیٹرس پیدا کئے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا ماضی بڑا ہی شاندار رہا جہاں کے فارغ التحصیل اسکالرس نے اپنے علمی کارناموں کے ذریعہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی ۔ یہ افسوسناک حقیقیت ہے کہ جس شہر نے مخدوم محی الدین اور مجتبیٰ حسین جیسے عظیم شاعر اور مزاح نگار پیدا کئے اور جہاں مشاعرے کے کلچرنے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی ۔ اس شہر کو نظرانداز کردیا گیا جبکہ لکھنو کو اردو ادب کے مرکز کی حیثیت دے دی گئی حالانکہ حیدرآباد نے آرٹ ‘ کلچر اور ادب میں ہندو مسلم مشترکہ کلچر کو پروان چڑھایا اور اپنی انفرادیت قائم کی ہے ۔ اس لئے آج وقت کا تقاضہ ہے کہ ہندوستانی ادب میں حیدرآباد کو اس کا مستحق مقام دیا جائے ۔ اردو زبان کے زوال کا سب سے بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ادبی حلقوں میں اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوسکی ۔
پروفیسر بیگ احساس نے اعتراف کیا کہ گذشتہ چند دہوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے ‘ تاہم سوشل میڈیا پر بطور خاص اردو کو ترقی کے نئے اُفق مل گئے ۔ اردو نے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھولیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اردو کا بکثرت استعمال ہورہا ہے جس سے اس کی مقبولیت بڑھتی ہی جارہی ہے ۔’’مجھے خوشی ہے کہ اردو بطور سوشل میڈیم ابھر کر آئی ہے اور اب وہ فیس بک پر تبادلہ خیال کا وسیلہ بن چکی ہے ‘‘ ۔ اردو زبان کیلئے انگریزی ایک بڑا چیلنج ضرور ہے لیکن ان کا ایقان ہے کہ ملک میں اردو کا مستقبل ضرور تابناک ہوگا ۔