پرانے شہر کو ترقی دینے کا ایک اور کاغذی منصوبہ

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ

حیدرآباد کے لیے خاص کر پرانے شہر کو ترقی دینے کے منصوبے تقریباً ہر ریاستی حکومت اور چیف منسٹر نے تیار کیے ہیں ۔ لیکن ان تمام منصوبوں اور کثیر فنڈس کے اعلانات کے باوجود پرانا شہر کو کھنڈر کے روپ میں ہی دیکھا جاتا رہا ہے ۔ اب چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پرانے شہر کی ترقی کے لیے 1000 کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا ۔ اس سے پہلے وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2000 کروڑ روپئے کا اعلان کیا تھا ۔ پرانے شہر کے لیے منصوبے سازی میں حکومت کے کاموں کا سہرا اپنے سر لینے والی مقامی جماعت ، شہر کی ترقی سے زیادہ اپنی فلاح و بہبود میں کامیاب ہوئی ہے ۔ اگر حیدرآباد کے شہری ماضی قریب کا ہی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ پرانے شہر میں ترقی کے نام پر کیا کام انجام دئیے گئے اور ترقی کس کے حصے میں آئی ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے تعلق سے یہ مشہور ہے کہ وہ ایک احتجاجی لیڈر سے زیادہ کچھ نہیں تھے ۔ اب وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایک چالاک اڈمنسٹریٹر بن گئے ہیں ۔ انہوں نے کئی وعدے کئے ہیں اور اعلانات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اپنی حکومت کے آخری سال میں انہوں نے پرانے شہر کو ترقی دینے کا منصوبہ کیوں بنایا جب کہ ان کی حکومت کے چار سال کے دوران شہر میں کوئی ترقی دکھائی نہیں دیتی ۔ صرف سرکاری محکموں میں خاص کر محکمہ پولیس کی طرز زندگی تبدیل ہوئی ۔ انہیں کئی نئی موٹر گاڑیاں دی گئی ہیں لیکن ٹریفک پولیس کے کئی عہدیدار اور جوانوں میں ٹریفک پر قابو پانے کی مہارت ہی نہیں ہے ۔ چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں ریاست تلنگانہ خاص کر حیدرآباد میں تاڑی شاپ اور شراب کی دکانوں کی ترقی ہوئی ہے ۔ لائسنس دے کر ہر جگہ شراب کی دکانیں کھول دی گئیں اور شرابیوں کو کھلے عام مئے نوشی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔ پرانے شہر جیسے گنجان آبادی والے علاقوں میں رہائشی علاقوں میں آئے دن حادثات ہوتے رہے ہیں کیوں کہ جب تاڑی شراب عام ہوتی ہے تو لوگ دن کے اوقات میں بھی پی کر گاڑی چلاتے ، سڑک عبور کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کرتے رہتے ہیں ۔ شہر کے لیے کے سی آر کی یہ ایک بڑی عذاب کی پالیسی ثابت ہورہی ہے ۔ خوابوں ، وعدوں اور نعروں کی سیاست نے اب تک اس شہر کے عوام کو بے وقوف ہی سمجھا ہے ۔ جب کہ اس شہر کے جفا کش ، محنتی ، ایماندار اور ملنسار شہری بیرونی ملکوں میں دن رات محنت کر کے یہاں مقیم اپنے خاندانوں کی کفالت میں مصروف ہیں ۔ انہی کی کوششوں کی وجہ سے شہر میں خوشحالی کی جھلک دکھائی دیتی ہے ورنہ مقامی جماعت اور برسر اقتدار پارٹیوں نے عوام کے لیے صرف عدم برداشت والے منصوبے ہی دئیے ہیں ۔

اب تارکین وطن واپس ہورہے ہیں تو پرانے شہر میں حکومتوں اور ان کی مقامی جماعت کے قائدین کی جانب سے اب تک کی جانے والی عدم برداشت والی سیاست کا جواب کیا ہوگا ، یہ وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن یہ حیدرآباد کے معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے ۔ اب کے سی آر حکومت نے ان شہریوں کی قوت برداشت کا امتحان لینے کے لیے پھر سے منصوبوں کا اعلان کیا ہے ۔ جامع منصوبے کے ساتھ چیف منسٹر نے عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ پرانے شہر کے مسائل کا مستقل حل نکالنے کا منصوبہ تیار کریں وہ بہت جلد پرانے شہر کا دورہ کریں گے اور اپنے منصوبے کا اعلان کریں گے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر گذشتہ چار سال میں انہوں نے اس علاقہ کو نظر انداز کیوں کیا اور اب اچانک انتخابات کے قریب پرانا شہر یاد آگیا تو یہ حلیف جماعت کی سیاسی بقاء کو تقویت دینے کی کوشش ہوسکتی ہے ۔ چیف سکریٹری ایس کے جوشی پرانے شہر میں کاموں کا جائزہ لیں گے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ چیف سکریٹری آخر پرانے شہر میں ہر ماہ دو مرتبہ دورہ کب تک کریں گے اور شہریوں کو بہتر زندگی گذارنے کی سہولت فراہم کر کے ممنون و مشکور ہونے کا موقع دیں گے ۔ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے کاموں کے علاوہ چیف منسٹر نے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ 1600 کروڑ کی لاگت سے موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے اور اس کے پانی کو صاف ستھرا کرنے کے کاموں کا جلد آغاز کریں ۔ اس طرح موسیٰ ندی کو ترقی دینے کا منصوبہ گذشتہ 30 اور 35 سال سے صرف کاغذ کی زینت ہی دیکھا گیا ہے ۔ سابق میں کانگریس حکمرانوں نے موسیٰ ندی کو دونوں شہروں کے درمیاں ایک خوبصورت ندی بنانے کا منصوبہ بنایا تھا بلکہ ندی کے پانی کو صاف ستھرا بناکر اس میں کشتی رانی کرنے اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں وینس کی طرز پر بہتی ندی یا بلجیم ، لندن اور استنبول کی ندیوں کو دی گئی ترقی کی طرح یہاں موسیٰ ندی میں بھی سیر و تفریح کے ساتھ کشتیاں چلانے اور عوام کو کشتی رانے کی سہولتیں دینے کا بھی منصوبہ تھا مگر یہ منصوبے کچرے دان کی ہی نذر ہوگئے ۔ لیکن چیف منسٹر کے سی آر نے 1600 کروڑ کا منصوبہ بنایا ہے تو اس میں کس حد تک کام ہوگا ۔ یہ شہری دیکھنے کے لیے تیار ہوں گے ۔ پرانے شہر میں برقی سربراہی کا مسئلہ سنگین ہے اس مسئلہ کو دور کرنے کے لیے چیف منسٹر نے 33/11 کے وی سب اسٹیشنوں کا قیام عمل میں لایا جانے کی ہدایت دی ہے ۔

ایسے پانچ سب اسٹیشن قائم ہوں گے تو پرانے شہر کے عوام کو برقی مسدودی کی شکایت دور ہوجائے گی ۔ خدا خیر کرے ۔ چیف منسٹر نے پرانے شہر میں 7 مقامات کی نشاندہی کی بھی ہدایت دی ہے جہاں پینے کے پانی کے ذخیرہ آب تعمیر کئے جائیں گے ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ ذخیرہ آب کی دیکھ بھال ہی درست نہیں ہورہی ہے ۔ پرانے شہر میں ڈرینج پائپ لائن کو عصری بنانے کا بھی منصوبہ ہے ۔ 200 کروڑ روپئے سے ڈرینج پائپ لائن کو کشادہ بنایا جائے گا ۔ وزیر بلدی نظم و نسق مسٹر کے ٹی راما راؤ بھی پرانے شہر سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ میٹرو لائن کے بشمول اس شہر کی ترقی کے پابند عہد ہیں ان کا جذبہ خوش کن ہے لیکن انہوں نے صرف اپنی حلیف پارٹی کے قائدین کو خوش رکھنے کے لیے کیا ہے ۔ چیف منسٹر کا منصوبہ بظاہر دل کو خوش کرنے والا ہے وہ چاہتے ہیں کہ بہ نفس نفیس پروگراموں کا آغاز کریں اور ان کاموں کو جنگی بنیادوں پر مکمل کریں گے ۔ چیف منسٹر نے یہ بھی واضح کیا کہ پرانے شہر کو موریوں سے ابلتے ہوئے پانی سے پاک بنایا جائے گا ۔ چیف منسٹر کا احساس ہے کہ متحدہ آندھرا پردیش میں آندھرائی حکمرانوں نے حیدرآباد کے پرانے شہر کو بری طرح نظر انداز کردیا تھا ۔ وہ 30 سال سے سنتے آرہے ہیں کہ پرانے شہر میں پینے کا پانی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ برقی سربراہی میں بھی خلل پایا جاتا ہے ۔ تنگ سڑکیں اور تاریک گلیاں اس علاقہ کے عوام کا مقدر بنی ہوئی ہیں ۔ اب جب کہ تلنگانہ ریاست بن چکی ہے تو ان کی قیادت میں یہ علاقہ ترقی و خوشحالی کی تمام منزلوں کو پار کرلے گا ۔ چیف منسٹر نے بلا شبہ نیک ارادہ کیا ہے مگر وہ ان منصوبوں کے ذریعہ اپنی حلیف جماعت کے قائدین کے لیے میٹھائی بانٹنے کا کام کررہے ہیں ۔ ان عناصر کی سرکاری کاموں میں دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔

شائد حکمراں پارٹی آنے والے انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے حلیف پارٹی کے قائدین کے لیے مٹھائیاں بانٹ کر اس حقیقت کو دور کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کو شکست کا اندیشہ ہے کیوں کہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے میں ناکام حکومت کے پاس اب سیاسی بیساکھیوں کی سخت ضرورت ہے اور یہ سیاسی بیساکھی کا کام تھالی میں کے بیگن کا رول ادا کرنے والی جماعت بخوبی انجام دیتی آرہی ہے کل تک کانگریس کی تھالی میں تو آج ٹی آر ایس کی تھالی کی زینت بنی ہوئی ہے ۔ اس کا ثبوت چیف منسٹر کے سی آر کے کرناٹک انتخابات میں دلچسپی سے بھی ملتا ہے ۔ جس دن کے سی آر نے بنگلور کا دورہ کر کے جنتادل ایس کے صدر سابق وزیراعظم دیوے گوڑا سے ملاقات کی اور کرناٹک میں تلگو عوام سے اپیل کی کہ وہ جنتادل ایس کو ووٹ دیں تو اس بیان کے دوسرے ہی دن حیدرآباد کی جماعت کی قیادت نے بھی جنتادل ایس کی تائید کرنے کا اعلان کیا ۔ کرناٹک انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو شکست دینے کے لیے جنتا دل ایس کی حمایت کا مقصد غیر واضح ہے ۔ لیکن ٹی آر ایس سربراہ کے اشاروں پر عمل کرنا ہی اس جماعت کا فرض ہے تو پھر یہ دونوں پارٹیاں مل کر جنتا دل ایس کا بیڑھ غرق کردیں گی کیوں کہ جنتادل ایس کے اندرونی ذرائع یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں صرف 30 تا 35 نشستوں پر کامیابی ملے گی ایسے میں کے سی آر کا دیوے گوڑا کی پارٹی کو تائید کرنے کے پیچھے کیا مفاد شامل ہے ۔ یہ وقت ہی بتائے گا جب کہ کرناٹک میں کانگریس کو ہی دوبارہ اقتدار مل جانے کی توقع کی جارہی ہے ۔