پرانے شہر میں ٹی آر ایس کی رکنیت سازی مہم

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
انسان ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، وہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ ارتقاء ، تغیر اور رنگا رنگی، قدرت کا اصول اور فطرت کا حُسن ہے۔ جب انسان سیاستداں بن جاتا ہے تو اس کی زندگی کے سفر میں سیاست کا ایسا گہرا اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سامنے والے ہر فرد کو کمزور متصور کرنے لگتا ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو بھی ایسے ہی سیاستداں ہیں جو تلنگانہ میں اپنی پارٹی کے کمزور پڑنے کے باوجود یہاں قدموں کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ورنگل میں تلگودیشم کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے نکالی گئی ریالی اور جلسہ عام کے ذریعہ قوت کا مظاہرہ کیا۔ اس جلسہ نے تلنگانہ کی حکمراں جماعت ٹی آر ایس کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو تلنگانہ میں غنڈوں کا سہارا لے کر اپنی پارٹی کو طاقتور بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ورنگل میں جمعرات کو تلگودیشم کی ریالی کے خلاف مادیگا ریزرویشن پوراٹا سمیتی کے ارکان نے احتجاج کیا تو تلگودیشم کے کارکنوں نے ان پر حملہ کیا۔ تلگودیشم کے موٹر سیکلوں، کاروں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ چندرا بابو نائیڈو نے اس ریاست میں اپنی پارٹی کی بقاء کیلئے پارٹی کے کارکنوں کو طاقتور بتاکر یا کھلی چھوٹ دے کر غنڈہ گردی کا موقع دیا ہے تو یہ ٹی آر ایس کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

حکمراں پارٹی کی حیثیت سے ٹی آر ایس یہ برداشت نہیں کریگی کہ اس کی ریاست میں غنڈوں کا راج ہوجائے۔ ٹی آر ایس کا کہنا ہے کہ تلگودیشم کو تلنگانہ میں بتدریج کمزور ی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس پارٹی نے 2009ء میں اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی اب اس کی اکثریت 14 پر آکر رک گئی ہے جبکہ پانچ یا چھ ارکان ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیں۔ جس پارٹی کو تلنگانہ کے قیام پر یکسر اعتراض تھا اس کو نئی ریاست میں اپنے قدم جمانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ تلنگانہ عوام اس کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ چندرا بابو نائیڈو نے نئی ریاست کے قیام کے بعد اس ریاست سے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ 7ماہ بعد انہیں تلنگانہ کا خیال آیا۔ پہلی مرتبہ وہ ورنگل میں موٹر سیکل ریالی نکال کر ریاست کے اضلاع کا دورہ شروع کیا ہے۔ ان کے دورہ کی مخالفت کرتے ہوئے ٹی آر ایس قائدین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ تلگودیشم اور اس کے ارکان کو تلنگانہ کا دورہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ لیکن جن قائدین کو تلگودیشم سے کوئی بغض نہیں ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ چندرا بابو نائیڈو ہندوستان کے شہری ہیں اور انہیں ملک کے کسی بھی حصہ میں جانے کا حق حاصل ہے۔ ابتداء میں ٹی آر ایس نے بھی کہا تھا کہ اسے چیف منسٹر آندھرا پردیش کے دورہ تلنگانہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ ایک جمہوری ملک ہے ، کوئی بھی شہری کہیں بھی جاسکتا ہے۔مگر تلنگانہ ریاست کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں لیڈر کو پذیرائی ملتی ہے۔ آندھرائی قائدین کوسب سے زیادہ پذیرائی تلنگانہ میں ہوئی خاص کر تلنگانہ کے شہر حیدرآباد کو اپنا مستقل مسکن بنانے والے آندھرائی قائدین کاکہنا یہ کہ وہ اس ریاست اور شہر سے دیرینہ وابستہ ہیں تو انہیں غیر علاقائی متصور نہیں کیا جاسکتا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ علاقائی اور غیر علاقائی کا تنازعہ شروع ہونے سے پہلے حیدرآباد کے موقف کو 10سال تک مشترکہ صدر مقام کے طور پر استعمال کرنے میں بھی اگربددیانتی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس پر اعتراض ہونا لازمی ہے۔

چندرا بابو نائیڈو نے بھی قابل اعتراض سمجھے جانے والے کام انجام دیئے ہیں۔ دوسری جانب ٹی آر ایس پر انگلی اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ تلنگانہ ریاست ٹی آر ایس کی جاگیر نہیں ہے کہ وہ دیگر پارٹیوں خاص کر تلگودیشم کے فروغ پانے پر اعتراض کرے۔ ان قائدین کا یہ بھی خیال ہے کہ ٹی آر ایس نے علاقائی جذبات کے عوض اقتدار حاصل کیا ہے اس لئے اس نے تلنگانہ عوام کی توقعات کے مطابق کام نہیں کیا ہے ۔ اس پارٹی میں دوراندیشی، پیشہ ورانہ اور نظم و نسق کی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ ٹی آر ایس میں نااہل قائدین ہونے کا ثبوت خود پارٹی نے دیا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر کو برطرف کرتے ہوئے یہ ظاہر کردیا گیا ہے کہ ٹی آر ایس میں اقتدار کے مسائل پر گرما گرمی چل رہی ہے۔ ریاست میں سوائن فلو پر قابو پانے میں ناکامی اور سرمایہ کاری ، بے بنیاد اور جھوٹے وعدوں کے باعث عوام کو ٹی آر ایس سے چڑ ہونے لگی ہے۔ اس کے باوجود ٹی آر ایس کو عزیز رکھتے ہیں کیوں کہ انہوں نے تلنگانہ کے قیام کی کوششوں میں اس پارٹی کے رول کو قبول کیا۔ جب عوام کی اکثریت کسی لیڈر یا پارٹی کو پسند کرتے ہیں تو اس کی بعض خرابیوں کو نظر انداز بھی کرتے ہیں۔ ٹی آر ایس کو بھی عوام کی تائید اس لئے حاصل ہے کہ عوام نے اسے تلنگانہ کی نمائندہ جماعت قرار دیا ہے۔

جب دارالحکومت کے عوام نے بیداری اور سیاسی شعور کا ثبوت دے کر عام آدمی پارٹی کو نئے سیاسی عہد کا ذمہ دار بنایا ہے تو ایسے کارنامے دہلی سے لیکر تلنگانہ تک ہوتے رہتے ہیں۔ عوام کا فیصلہ بھی ہر پارٹی کیلئے کارنامہ ہوتا ہے۔ تلنگانہ کی پڑوسی ریاست میں سیاسی منظر نامہ بہت ہی دلخراش ہے۔ اس لئے نائیڈو کو تلنگانہ کے عوام کی سیاسی اُمنگوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے اقتدار کے لئے بنیادیں تیار کرنے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ اس پارٹی میں اصول کار فرما ہیں اور نہ ہی فیصلہ سازی کا کوئی قابل استعمال نظام۔ زیادہ تر سیاسی قائدین مفادات کے اسیر ہوتے ہیں جنہیں عوام کی بھلائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تلنگانہ ٹی آر ایس پر تنقید کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کو عوام کی بھلائی کی فکر نہیں ۔ تلگودیشم سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر ٹی آرایس کو عوام کی بھلائی کی فکر نہیں ہوتی تو وہ تلنگانہ کے حصول میں کامیاب بھی نہیں ہوتی۔ جب اس پارٹی نے حصول تلنگانہ کے سب سے بڑے معرکہ کو پورا کرلیا ہے تو مابعد اقتدار عوام کی بھلائی کے کام انجام دینے کے سوا اس پارٹی کے ذمہ کوئی اور اہم کام نہیں ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ریاست میں سیاست کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں بھی قائم ہیں جن میں فرد واحد یا خاندان میں سیاہ سفید کے مالک ہیں یہ موروثی نظام اب زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا۔ تبدیلی کے خواہاں عوام پرانے شہر میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ٹی آر ایس کی رکنیت سازی مہم سے یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ پرانے شہر کے عوام ٹی آر ایس کو اپنی متبادل سیاسی طاقت متصور کرنے لگے ہیں۔ اس بات کا ثبوت پرانے شہر میں شروع کردہ رکنیت سازی مہم اور اس پر عوام کے زبردست ردعمل سے ملتا ہے۔ ٹی آر ایس گریٹرحیدرآباد انچارج ایم ہنمنت راؤ کی زیر قیادت ٹی آر ایس قائدین نے پرانے شہر کے کئی علاقوں کا دورہ کرکے، یاقوت پورہ، چندرائن گٹہ، بہادر پورہ، ملک پیٹ اور چارمینار کے کئی علاقوں کا احاطہ کیا ہے۔ کئی مقامات پر عوام سے خطاب کیا گیا

اور ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف ٹی آر ایس حکومت ہی پرانے شہر کو ترقی دے سکتی ہے۔ ٹی آر ایس لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی اس اپیل پر پرانے شہر کے عوام نے زبردست جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔ پارٹی نے پرانے شہر میں50,000 ارکان کی رکنیت سازی کا نشانہ مقرر کیا ہے جبکہ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے 7اسمبلی حلقوں میں فی حلقہ 5000 ارکان کو رکنیت دینے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر ٹی آر ایس نے پرانے شہر میں دہلی کی عام آدمی پارٹی کی طرح کارنامہ کردکھایا تو پھر پرانے شہر کی ترقی کی راہیں کھلنے کی امید ہوگی اور سیاست کے ذریعہ دولت کمانے والوں کو عوام کے ووٹ کی طاقت سے ان کا مقام بتادے گی۔ اگر ایسا ہوا تو پھر وقت آنے پر پرانے شہر کے تمام مسائل حل کرے گی۔ ٹی آر ایس سمجھتی ہے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پرانے شہر میں اپنی بنیاد کو مضبوط اور وسیع کرسکتی ہے۔ عوام کو مبارک ہو کہ ان کے درمیان ترقیاتی کام ہوں گے تاہم انہیں اپنے خالق سے یہ دعاء بھی کرنی چاہیئے کہ انہیں ایسی قیادت عطا کرے جس میں دیانتداری، بالغ نظری اور عوام کی سطح پر کام کرنے کی عادت ہو۔ پرانے شہر میں اب تک ناانصافی ہی دیکھی گئی ہے۔ اگر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے دیانتداری کا حلف لیا ہے تو عوام الناس کو اپنے مسائل کے لئے مزید انتظار کرنا نہیں پڑے گا۔
kbaig.92@yahoo.com