پاکستان ۔ طالبان امن مذاکرات کی ناکامی کا اندیشہ

اسلام آباد 7 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) حکومت پاکستان اور طالبان کی نامزد ٹیم کے درمیان امن مذاکرات کا پہلا دور اسلام آباد میں مکمل ہوچکا ہے۔ اِن مذاکرات کا مقصد ایک لائحہ عمل تیار کرنا اور 10 سال قدیم شورش کا خاتمہ کرنا ہے۔ حکومت نے 5 شرائط پیش کی ہیں جن میں دشمنیوں کا اختتام بنیادی شرط ہے۔ حکومت نے کہاکہ امن کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ طالبان کی ٹیم نے قیادت کے ساتھ مجوزہ شرائط پر تبادلہ خیال کے لئے شمال مغربی پاکستان کے سفر سے اتفاق کرلیا ہے۔ بی بی سی کے بموجب دونوں فریقین نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس کا مقصد دونوں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ کی تکمیل ہے۔ دو ثالث ٹیمیں اِس کے لئے کوشش کررہی ہیں لیکن درحقیقت مذاکرات کے لئے حکومت پاکستان کا مجوزہ چوکھٹا مذاکرات کو ناکام بھی بنا سکتا ہے۔ اِس چوکھٹے کو طالبان نے ہنوز اپنی منظوری نہیں دی ہے۔ 5 میں سے 2 شرائط طالبان کے مطالبات کے متضاد ہیں۔ عسکریت پسندوں نے بار بار پاکستانی دستور کو مسترد کیا ہے۔ پہلی شرط دستور کو تسلیم کرنا ہے۔ دوسری شرط جس سے امن مذاکرات کا کارنامہ اور بات چیت کامیاب ہونے کی اُمید رکھی جاسکتی ہے لیکن طالبان نے اِس شرط کو بھی مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔

پاکستان میں تازہ ترین امن کارروائی اِن حالات کے پیش نظر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پہلا اجلاس اسلام آباد کے خیبر پختونخواہ ہاؤز میں 3 گھنٹے جاری رہا۔ طالبان ٹیم کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بعدازاں ایک مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں حکومت کی جانب سے مجوزہ 5 شرائط بھی شامل تھیں، جن کے بارے میں دستور کے چوکھٹے میں بات چیت منعقد کی گئی۔ بات چیت کا مقصد صرف اُن علاقوں تک محدود رہا جو تشدد سے متاثر ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے بعد تمام دشمنیاں ترک کردی جائیں۔ اُنھوں نے واضح کردیا ہے کہ ایک علیحدہ 9 رکنی کمیٹی شرائط پر غور کرے گی جو طالبان نے تشکیل دی ہے اور مذاکرات کو طول نہیں دیا جائے گا۔ قبائیلی علاقہ میں فوجی کارروائی کے بعد وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی تجویز پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کل اسلام آباد میں منعقد کئے گئے ۔ قبل ازیں حکومت پاکستان نے بات چیت کے لئے طالبان کے ہتھیار ڈال دینے کی شرط عائد کی تھی لیکن اِس کے مسترد کئے جانے کے بعد اپنی شرط سے دستبرداری اختیار کرلی۔