پاکستان کے دور دراز علاقوں میں حملے، 15 ہلاک

پشاور ؍ اسلام آباد 22 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے دور دراز علاقوں میں تین علحدہ حملوں کے دوران کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے جن میں تین پاکستانی پولیس ملازمین اور ایک بچہ بھی شامل ہے۔جنوب مغربی بلوچستان میں ایک دن قبل 24 شیعہ زائرین بس پر حملے کے بعد ہلاک ہوئے تھے۔اسی علاقہ میں حملوں کے دوران 7 پاکستانی قبائلی اسپین کا سیکل راںبھی ہلاک ہوا تھا۔ پاکستانی طالبان کے سابق عبوری سربراہ 50 مہلوک عسکریت پسندوں میں شامل ہیں جن میں 36 غیرملکی جنگجو بھی ہیں۔ لاقانونیت کے مرکز شمالی وزیرستان کے علاقہ میں فوجی کارروائی کے دوران یہ افراد ہلاک ہوگئے۔

پاکستانی فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے شمالی وزیرستان میں جو طالبان اور القاعدہ عناصر کی ایک کلیدی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ پیر کی رات عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ اِس کی مدد فوج کے لڑاکا ہیلی کاپٹرس نے بھی کی تھی۔ حملہ میں کم از کم 50 عسکریت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔ مہلوکین میں بیشتر 20 اور 21 جنوری کی درمیانی رات ہلاک ہوئے تھے جن میں غیر ملکی جنگجو 33 ازبیک، 3 جرمن اور مبینہ طور پر اہم دہشت گرد کمانڈرس شامل تھے۔ پاکستان کے فوجی ذریعہ نے عسکریت پسندوں کے کمانڈرس کے نام قاری حسین کے پیشرو ولی محمد، عصمت شاہین بٹانی، نور بادشاہ اور مولوی فرہاد ازبیک بتائے ہیں۔ بٹانی حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور بعدازاں طالبان کی مجلس شوریٰ کے صدر بھی تھے۔

ولی عرف طوفان ماضی میں فدائی اسکواڈ شمالی وزیرستان کے صدر تھے۔ مہلوکین میں طالبان کے مقامی کمانڈر عدنان رشید بھی ہلاک ہوئے جو فوج کے سلسلہ وار مہلک حملوں کی جوابی کارروائی میں ملوث رہ چکے تھے۔ فضائیہ کے جیٹ طیاروں کی کارروائی پر کئی افراد حیرت زدہ ہوگئے کیونکہ یہ پہلی بار تھی جبکہ فضائیہ کے طیاروں نے شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان سربراہوں کی 2007 ء سے قطعی جنگ بندی کے بعد فضائی حملے کئے تھے۔ دریں اثناء وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر نے کہاکہ شمالی وزیرستان میں کوئی فوجی کارروائی جاری نہیں ہے۔ واہ کنٹونمنٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہاکہ سیاسی اور فوجی قیادت نے متفقہ طور پر طالبان کے بارے میں حکمت عملی کے نظریات کو منظوری دی ہے اور اِسی حکمت عملی کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ کارروائی کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں کیا جائے گا۔

اُنھوں نے کہاکہ بعض گروپس نے مذاکرات کے لئے اُن سے ربط پیدا کیا ہے۔ شمالی وزیرستان پاکستان کے وفاقی زیرانتظام قبائیلی علاقوں کے 7 حصوں میں سے ایک ہے جہاں پر قبائیلی قوانین نافذ ہیں۔ ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان کی شورش اِس علاقہ کو پریشان کررہی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے بموجب کئی شہری شمالی وزیرستان سے بھرپور فوجی کارروائی کے اندیشے کے پیش نظر نقل مقام کررہے ہیں۔ پشاور سے موصولہ اطلاع کے بموجب ایک اسپینی سیکل راں کی حفاظت پر تعینات 6 پاکستانی قبائیلی ملازمین پولیس جنوب مغربی بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملے سے شدید زخمی ہوگئے۔ عسکریت پسند اسپینی سیاح کا اغواء کرنا چاہتے تھے جو بلوچستان کے علاقہ دلبندین سے ایک سیکل پر سفر کے لئے روانہ ہوا تھا۔ اغواء کی کوشش پر عسکریت پسندوں اور پولیس ملازمین میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ مقامی قبائیلی پولیس کے بموجب کم از کم 6 قبائیلی ملازمین پولیس جھڑپ کے دوران ہلاک ہوگئے۔ جبکہ دیگر 10 بشمول اسپینی شہری شدید زخمی ہوئے۔ اغواء کی کوشش جو کوشک کے علاقہ میں کی گئی تھی، ناکام بنادی گئی۔ تمام زخمیوں کو ضلع مستونگ کے قریبی ہسپتال میں شریک کردیا گیا۔