پاکستان کے خلاف امریکہ ۔ ہندوستان اور افغانستان سرگرم

دانش قادری
موجودہ دور سہ رخی یا سہ فریقی دور بنتا جا رہا ہے ۔ ہندوستان پاکستان سے لے کر یوروپ تک سہ رخی رواج ہر شکل و صورت میں ابھرتا جا رہا ہے ۔ ہندوستان نے بھی اس سفارتی طرز عمل کو پوری صلاحیتوں کے ساتھ اختیار کرلیا ہے ۔ ایک سہ رخی سفارتی کوشش سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی سفارتکاری بھی اب اپنے فوری آس پاس کے علاقہ تک اثر انداز ہوتی جا رہی ہے ۔ ہندوستان نے ایک طویل عرصہ تک جدوجہد کی کہ ساری دنیا اور خاص طور پر امریکہ ‘ افغانستان میں ہندوستان کے اہم رول کو تسلیم کرے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ صورتحال بدل رہی ہے ۔ چونکہ ہندوستان اوری حملہ کے بعد سے پاکستان کے خلاف مہم میں تیزی پیدا کر چکا ہے افغانستان کو بھی اس معاملہ میں اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 71 ویں سالانہ سشن کے موقع پر ہندوستان ‘ امریکہ اور افغانستان نے گذشتہ ہفتے ملاقات کی جس میں افغانستان کی صورتحال کے علاوہ باہمی مفاد کے علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ تینوں ممالک نے دہشت گردی سے مقابلہ اور علاقہ میں امن و سلامتی کو آگے بڑھانے اپنے اپنے مفادات کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا اور انہوں نے جنگ زدہ ملک میں افغان حکومت کی ترجیحات کے مطابق آپسی تعاون و اشتراک کے امکانات کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ ہندوستان اور امریکہ نے دوسری ہند ۔ امریکہ حکمت عملی و تجارتی بات چیت میں بھی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس سہ فریقی مصروفیت کو بڑھائیں گے ۔ یہ بات چیت گذشتہ مہینے نئی دہلی میں منعقد ہوئی تھی ۔ حالانکہ علاقہ میں امریکہ پہلے سے اپنا اثر اور وجود رکھتا ہے لیکن اس نے کبھی بھی ایسی سرگرمیوں کی تائید نہیں کی تھی اور نہ ہی اس کا حصہ بنا تھا ۔ اسے پاکستان کی ناراضگی کا خطرہ رہا کرتا تھا ۔ اس سہ فریقی سرگرمیوں کو 2013 میں اسی وجہ سے عملا روک دیا گیا تھا ۔

اس سہ فرقیی بات چیت اور سرگرمیوں کو ایسے وقت میں بحال کیا گیا ہے جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات انتہائی ابتر اور کشیدہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے دنیا بھر میں مہم چلاتے ہوئے پاکستان کو یکا و تنہا کردیا ہے اس سے خود پاکستانی حکومت میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ پاکستان کے افغانستان کے تعلقات بھی انتہائی ابتر ہوگئے ہیں۔ در اصل اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے نائب صدر سرور دانش نے پاکستان پر ‘ دہشت گرد گروپس کی مسلسل تائید و حمایت کرنے پر شدید تنقید کی تھی ۔ اس ملک پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اس کے عوام کے خلاف غیر معلنہ جنگ کر رہا ہے اور وہ بے رحم دہشت گردانے حملے کرنے والوں کو تربیت دے رہا ہے ۔ انہیں مالیہ اور رقومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ایسا طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ طالبان اور حقانی نیٹ ورکس کو پاکستان میں تربیت اور رقومات دی جا رہی ہیںا ور پاکستان نے اچھے اور خراب دہشت گردوں میں امتیاز کرنے کی دوہری پالیسی اختیار کی ہے ۔ یہی وہ موقف ہے جو ہندوستان کئی برسوں سے اختیار کر رہا ہے اور اوری حملہ کے بعد یہ موقف افغان حکومت نے اختیار کیا ہے ۔ افغان حکومت وہ پہلا ملک ہے جس نے تجویز پیش کی تھی کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو سارک چوٹی کانفرنس اسلام آباد کا بائیکاٹ کرنا چاہئے ۔ ہندوستان نے اب یہی فیصلہ کیا ہے اور اسے بھوٹان اور بنگلہ دیش سے بھی تائید ملی ہے ۔ خود امریکہ میں بھی جنوبی ایشیا میں پاکستان کے دوہرے کردار کی وجہ سے الجھن پیدا ہوگئی ہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ اپنی ملاقات میں سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے یہ واضح کیا تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے ۔ حالانکہ جان کیری پاکستان کے تعلق سے ہمدردانہ رویہ کیلئے جانے جاتے ہیں۔

امریکہ پاکستان کے دیرینہ روابط کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اب سب سے اہمیت کا حامل ایک بل ہے جو امریکی کانگریس میں پیش کیا گیا ہے ۔ اسے HR6069 ایکٹ کا نام دیا گیا ہے ۔ اسے دوہرے الفاظ میں یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سرکاری اسپانسر ہے ۔ یہ بل امریکی کانگریس میں پیش کردیا گیا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کا اسپانسر ملک قرار دینا ہے ۔ کانگریس کے رکن ٹیڈ پو نے یہ بل پیش کرتے ہوئے پاکستان کا انتہائی منفی انداز میں حوالہ دیا ہے ۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان نے نہ صرف اپنے ملک میں دہشت گردوں کی مدد کی ہے بلکہ اس نے کئی برسوں سے امریکہ کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اس نے اسامہ بن لادن کو اپنے پاس روپوش رکھا ۔ اس نے حقانی نیٹ ورک سے قریبی روابط رکھے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایسا ثبوت ہے جس کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کس فریق کے ساتھ ہے اس کا تعین آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان اس معاملہ میں امریکہ کے ساتھ نہیں ہے ۔ امریکہ پاکستان تعلقات کو سب سے بڑا دھکا ایبٹ آباد میں ایک امریکی کارروائی کے دوران اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے لگا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی سرزمین پر ایک اور حملہ کرتے ہوئے امریکہ نے طالبان کے لیڈر ملا منصور کو ہلاک کردیا تھا ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور سکیوریٹی سے نمٹنے میں پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ بارک اوباما انتظامیہ نے حالیہ وقتوں میں اپنے موقف کا جائزہ لیا ہے اور اس نے افغانستان کے تعلق سے موافق ہندوستان موقف اختیار کرلیا ہے ۔ اوباما انتظامیہ نے امریکی کانگریس میں یہ توثیق کرنے سے انکار کردیا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سے مقابلہ کیلئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے اسی موقف کے نتیجہ میں پاکستان کو دفاعی شعبہ میں دی جانے والی مراعات اور امداد کو معطل کردی گئی ہے ۔ واشنگٹن کی سابقہ پالیسی یہ رہی کہ اس نے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی فوجی مدد سے گریز کرے ۔ اب اس موقف میں تبدیلی آگئی ہے اور امریکہ نے خود ہندوستان سے کہا کہ وہ افغان فورسیس کو مسلح کرنے کیلئے مدد کرے ۔ افغانستان کی حکومت ہندوستان سے مزید فوجی اور فنی مدد کی طلبگار تھی اور اسی کو دیکھتے ہوئے اوباما انتظامیہ نے اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کی ہے ۔ افغانستان کی اشرف غنی حکومت نے یہ حقیقت سمجھ لی ہے کہ افغانستان میں استحکام پیدا کرنے میں پاکستان کوئی ذمہ دارانہ رول ادا نہیں کریگا ۔ افغانستان ‘ چین ‘ پاکستان اور امریکہ پر مشتمل چار رکنی افغان گروپ وہاں امن و مصالحت کے مقصد سے سرگرم تھا تاہم پاکستان کے موقف کی وجہ سے یہ گروپ قیام امن کی سمت پیشرفت میں ناکام رہا ۔ اب کابل چاہتا ہے کہ وہ واشنگٹن اور ہندوستان کی تائید سے پاکستان سے مقابلہ کرے ۔ ایسے میں نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ افغان حکومت کی مدد کرنے آگے آ رہی ہے کیونکہ اسے بھی پاکستان کی مخالفت کا سامنا ہے ۔ حکومت ہند کی اب فوری ترجیحات میں افغانستان کی مدد بھی شامل ہے تاکہ پاکستان کو نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ علاقائی سطح پر بھی یکا و تنہا کردیا جائے ۔

جو سہ فریقی سرگرمی اور کوشش چل رہی ہے وہ اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب قابل رسائی نتائج کی سمت تیزی سے پیشرف ہو ۔ پاکستانی فوج کی انٹلی جنس ونگ کی جانب سے اس کوشش کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش ہوسکتی ہے ۔ پاکستانی انٹلی جنس ونگ بھی علاقہ میں یکا و تنہا ہونے سے بچنے کیلئے اپنی کوشش کرسکتی ہے ۔ پاکستان اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے افغانستان اور علاقہ میں مزید سرگرم ہوسکتا ہے ۔ علاقہ کے ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے معاملہ میں ایک دوسرے سے بہترین تعاون کرتے ہوئے بھی بدترین صورتحال کیلئے تیار رہیں۔