پاکستان کیساتھ امریکہ کی علاقائی اور افغان کلیدی مسائل پر بات چیت

اسلام آباد سے کشیدگی کو دور کرنے کی سکریٹری آف اسٹیٹ کی کوشش

اسلام آباد ۔ 29 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ اور پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان دوشنبہ کو کلیدی باہمی اور علاقائی مسائل پر بات چیت عمل میںآئی جس میں افغانستان میں جاری امن کی کوششوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کے خارجی امور کے ایک ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کے استواری سے متعلق خصوصی نمائندے زلمے خلیل زادے ایک وفد کے ساتھ اسلام آباد آئے جس میں جنوبی اور مرکزی ایشیاء کے پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ آف اسٹیٹ جی ویلیس بھی شامل تھے۔ مسٹر فیصل نے بتایا کہ اس سفر کا مقصد معمول کے مطابق باہمی تعلقات پر مشاورت اور افغان امن پیشرفت سے متعلق اجلاسوں کا انعقاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویلیس نے وفد کی سطح پر پاکستان کی وزارت خارجہ سے بات چیت کی جس کی قیادت ایڈیشنل سکریٹری آفتاب کھوکر نے کی۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2017ء میں تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے جب امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب افغانستان اور جنوبی ایشیاء سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان پر سخت چوٹ کی کہ پاکستان ان لوگوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کررہا ہے جو دنیا میں افراتفری کے ایجنٹ ہیں اور جو افغانستان میں امریکی باشندوں کا قتل کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے پاکستان کو انتباہ بھی دیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرکے بہت بڑا نقصان اٹھائے گا مگر بعدازاں ستمبر میں سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے اسلام آباد کے دورے کے بعد اعتماد کی بحالی کیلئے نئی کوششوں کی شروعات کی گئی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کے کئی ادوار ہوئے جس میں قطر میں ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے۔ اس بات چیت میں اطلاعات کے مطابق کلیدی مسائل پر پیشرفت بھی ہوئی لیکن بین افغان گروپوں کے درمیان افہام و تفہیم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کا کابل کی حکومت کے ساتھ بات چیت کی میز پر بیٹھنے سے انکار ہے کیونکہ طالبان کابل کی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت تصور کرتے ہیں۔