پاکستان کو ایف ٹی اے ایف فہرست میں شمولیت پر معاشی پریشانی

بینک کاروں کو امریکہ جیسے ممالک میں اپنے کاروبار جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ‘ حکومت کو لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں دقت

اسلام آباد ۔ یکم جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) نقد رقم کی قلت سے پریشان پاکستان کو مزید معاشی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا ‘ جب کہ پاکستان کو عالمی انسداد رقم کی غیرقانونی منتقلی ادارے نے اسے اپنی ’’ گرے فہرست ‘‘ میں شامل کیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کا یہ ادارہ دہشت گرد سرگرمیوں کو مالیہ کے فراہمی کا انسداد کرنا چاہتا ہے ۔ مالیتی کارروائی ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) نے 27جون کو ایک ’’ گرے‘‘ (Gray) فہرست جاری کی ہے ‘ تاکہ رقومات کی غیرقانونی منتقلی اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کا انسداد کیا جاسکے جس سے دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس اقدام سے پاکستان فوری طور پر متاثر نہیں ہوگا لیکن اس کا اثر آئندہ مہینوں میں محسوس ہوگا ۔ اخباری اطلاعات کے بموجب 2012 – 15ء میں پاکستان کو ایف ٹی اے ایف کی فہرست میں شامل کیا گیا ۔ اس سے بینکوں کے ساتھ اس کے لین دین میں مشکلات پیش آئیں گی ۔ ایک بینک حسین لاوائی نے روزنامہ ’’ ڈان ‘‘ سے کہا کہ یہ یاد رکھا جانا چاہیئے کہ 2012 – 15ء کے دوران پاکستان زیرنگرانی ممالک کی فہرست میں شامل تھا لیکن ہم نے ملک کے ساتھ اپنا کاروبار جاری رکھا لیکن اب کاروبار میں فرق پیدا ہوجائے گا ۔ پاکستان کی بڑی بینکیں جیسے حبیب بینک ‘ یونائٹیڈ بینک اور نیشنل بینک حکومت کے ساتھ لین دین نہیں رکھیں گی ۔ یہ بینک حکومت کے ساتھ صرف تجارت اور بینکنگ میں بلارکاوٹ کارکردگی میں مدد کی فراہمی کیلئے حکومت سے کاروبار کرتی تھیں لیکن پاکستان کے ’’ گرے ‘‘ فہرست میں شمولیت کے بعد یہ بڑی بینکیں حکومت کے ساتھ کاروبار کرنے سے گریز کریں گی ۔ حکومت کو لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں بھی مشکلات پیش آئیں گی ۔ اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح حکومت یہ کام انجام دیں گی ۔ ایف اے ٹی ایف ایک بین حکومتی ادارہ ہے جو 1989ء میں قائم کیا گیا تھا اور یہ معاشیاتی غیرقانونی منتقلی ‘ دہشت گردوں کو مالیہ کی فراہمی اور اس سے متعلقہ دیگر تمام کارروائیوں بشمول بین الاقوامی معاشی نظام کو لاحق خطرہ پر نگرانی رکھتا ہے ۔ پاکستانی بینکوں کو موجودہ قوانین قواعد و ضوابط کے تحت امریکہ جیسے ممالک میں اپنا کاروبار جاری رکھنے میں مشکلات پیش آئیں گی ۔ گذشتہ سال حبیب بینک کو 225ملین امریکی ڈالر مالیاتی جرمانہ محکمہ معاشی خدمات نیویارک کو ادا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس نے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی اور اسے یہاں پر اپنی سرگرمیاں بھی ترک کردینا پڑا تھا ۔ مبصرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ شرح تبادلہ پاکستان کے گرے فہرست میں شامل کئے جانے کی وجہ سے متاثر ہوگا لیکن کرنسی بازار میں کوئی نمایاں اثر اس حقیقت کے باوجود ظاہر نہیں کیا کہ شرح تبادلہ پہلے ہی سے دباؤ کے تحت ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر انحطاط پذیر ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھتا جارہا ہے ۔ ڈالر جو جاریہ ہفتہ انحطاط پذیر ہوگیا تھا اسے کاروبار کے آخری دن تقریباً دیڑھ روپیہ کا فائدہ پہنچا ۔