پاکستان چلے جاؤ

وہ وطن پر مٹ گئے اور یہ مٹا دینگے وطن
جانتے ہو کس طرف میرا اشارہ ہے میاں
پاکستان چلے جاؤ…!ؤ
ہندوستان میں مذہبی عدم رواداری کے ایک اور واقعہ نے سیکولر مزاج شہریوں کو مضطرب کردیا ہے۔ ممبئی کی پولیس نے دو مسلم نوجوانوں کو مبینہ طور پر زدوکوب کرکے انہیں پاکستان چلے جاؤ… کا مشورہ دیا۔ ممبئی کے علاقہ ماہیم کے ان نوجوانوں کو پاکستانی دہشت گرد یا دولت اسلامیہ داعش کے ایجنٹس ہونے کے شبہ میں حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ صدمہ خیز واقعہ اس وقت پیش آیا جب 19 سالہ آصف شیخ جم ٹرینر اور 19 سالہ دانش شیخ کو رات دیر گئے موٹر سیکل پر گھر واپسی کے دوران روک کر زدوکوب کیا۔ تقریباً 3 گھنٹے تک اذیت ناک برتاؤ کیا جاتا رہا۔ پولیس کی اس غیرانسانی حرکت کی ویڈیو فلمبندی دیکھنے والوں نے یہ بھی سنا کہ پولیس ملازمین نے ان نوجوانوں کو ہندوستان چھوڑ دینے اور پاکستان چلے جاؤ کا طعنہ دیا۔ مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کمسن نوجوانوں کو پولیس نے محض شبہ کی بنیاد پر غیرانسانی سلوک کے ذریعہ شدید زخمی کیا ہے تو آج سارا عقلمند اور دانشمند الکٹرانک میڈیا خاموش ہے اور انسانی حقوق کی دہائی دینے والے بھی چپ ہیں۔ ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ برسرعام کسی کی جان لے لینا اور خاطیوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے تشدد کو ہوا دینے میں پولیس کے رول پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں رواداری کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت کو درپردہ مخالف مسلم منصوبے بھی ترک کرنے ہوں گے۔ خاطی جب بلاخوف و خطر اپنی انتہاء پسندانہ سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں اور پولیس چشم پوشی اختیار کرتی ہے تو پھر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو ہراساں کرتے ہوئے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے۔ امرتسر میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں ایک فیکٹری میں ملازم کو کرکٹ بیاٹ سے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ اس موقع پر کئی افراد موجود تھے لیکن کسی نے اسے نہیں بچایا۔ ہندوستان میں مہاجرین کی بڑی تعداد مقیم ہے جن کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی خبریں بھی آتی ہیں اور کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی داستانیں سنائی دیتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا رویہ بڑھتا جارہا ہے۔ ممبئی میں مقیم کئی مسلمانوں کا تعلق ملک کی دیگر ریاستوں سے ہے۔ ان کے بچوں کو جب تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں کمزور یا معذور کردیا جاتا ہے تو یہ سب سے گھناؤنی حرکت کہلاتی ہے۔ پولیس جس کسی مسلمان کو پکڑتی ہے تو اسے کہتی ہے تم پاکستان چلے جاؤ۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات پر حکمراں طبقہ کوئی دھیان نہیں دیتا ہے تو یہ افسوسناک دور کہلائے گا۔ کچھ دن قبل ہی مرد مسلمان افراد کو جنونی ہجوم نے تشدد کرکے قتل کردیا تھا۔ محمد اخلاق نامی 50 سالہ مسلمان پر گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ہلاک کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات کو حق بجانب قرار دینے والی آر ایس ایس نے اب یہ اپنے اخبار ترجمان میں بھی گائے کو ذبح کرنے والوں کو ہلاک کرنے ویدوں میں حکم کے حوالے سے زہریلی تحریر شائع کی ہے۔ مسلم دشمن میں ان دنوں ایسے ایسے مظاہرے ہورہے ہیں کہ انسانی حقوق کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں بھی معنی خیز خاموشی اختیار کرلی ہیں۔ جب معاشرہ کا ایک طبقہ مظلومیت کا شکار بنادیا جاتا ہے اور دوسرا طبقہ تماشابین بن جاتا ہے تو یہ حرکت فطرت سے دوری اور عدم رواداری کا زندہ ثبوت ہوتی ہے۔ ملک میں ہر روز ایک تازہ نوحے کی صورت پیدا ہورہی ہے۔ ستم گروںکا تشدد روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ حکمراں طبقہ نے خود کو مخصوص ہندو تنگ نظری کے جس خول میں بند کیا ہے اس کے نتیجہ میں آج پورے ملک میں نفرت اور غیر رواداری کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہیکہ آیا سارا ہندوستان ہندو تنگ نظری کے سائے میں اپنے سیکولر مزاج کو ترک کرچکا ہے۔ غور طلب امر یہ ہیکہ عوام کی بھاری اکثریت سے برسراقتدار آنے والی بی جے پی نے ہندوستان کے سیکولرازم کو ہندوازم کی طرف لے جانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ آر ایس ایس یا سنگھ پریوار نے مسلمانوں کی نسل کشی کا منظم اور سوچا سمجھا منصوبہ بنایا ہے۔ پولیس کو اس سلسلہ میں کھلی چھوٹ بھی دی جارہی ہے۔ گجرات میں جس طرح پولیس کو غنڈہ گردی کرنے اور تشدد کو بھڑکانے کا حکم دیا گیا تھا یہی طرزعمل ملک کی دیگر ریاستوں کی پولیس کو بھی اختیار کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ فکر و تشویش کی بات ہیکہ قوم کب جاگے گی اور ظالم کا ہاتھ کب پکڑے گی۔ بات دیکھنے، سوچنے، غوروفکر کرنے اور اپنے رب سے رہنمائی حاصل کرنے کی ہے۔