پاکستانی قبائیلی علاقہ فوجی کارروائی کی تردید

اسلام آباد 28 فروری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان نے آج کہاکہ بھرپور پیمانہ کی شورش زدہ قبائیلی علاقوں میں فوجی کارروائی کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ قبل ازیں اِس علاقہ میں طالبان کے خلاف فضائی حملے کئے گئے تھے۔ وزیرداخلہ پاکستان چودھری نثار علی خان نے کہاکہ قبائیلی علاقہ میں کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جارہی ہے اور حکومت کی جانب سے اِس قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ تمام دستیاب ذرائع دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے استعمال کئے جائیں گے کیونکہ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کردیئے ہیں کیونکہ 2010 ء میں اغواء کئے ہوئے 23 فوجیوں کا طالبان نے سر قلم کردیا تھا۔ وزیرداخلہ نے کہاکہ جاریہ ہفتہ کے اوائل میں حکومت نے فوج کو سراغ رسانی کی اطلاعات کی بنیاد پر فضائی حملوں کی اجازت دی تھی۔ لڑاکا جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹرس سے قبائیلی علاقہ میں بمباری سے 100 سے زیادہ مشتبہ دہشت گرد ہلاک کردیئے گئے۔

افغانستان کی سرحد سے متصل اِس علاقہ سے کئی افراد فرار ہوچکے ہیں۔ فرار ہونے والے افراد کی حالت کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنھوں نے کہاکہ آئندہ چند دن میں اُنھیں ممکنہ راحت فراہم کرنے کی پالیسی کا تعین کیا جائے گا۔ ایک کمیٹی معاملہ کا جائزہ لے رہی ہے۔ وزارت داخلہ اور دیگر وزارتوں کے عہدیدار بازآبادکاری کی کوششوں میں مدد کررہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے دعویٰ کیاکہ قبائیلی علاقہ سے عوام کا فرار اتنی زیادہ تعداد میں نہیں ہے جتنا کہ ذرائع ابلاغ نے ظاہر کیا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ آئندہ ہفتہ 4 وزرائے اعلیٰ کا اجلاس وزیراعظم نے طلب کیا ہے تاکہ ملک کی نئی انسداد دہشت گردی پالیسی سے اُنھیں واقف کروایا جائے۔ قومی صیانتی پالیسی کی چہارشنبہ کے دن پارلیمنٹ میں نقاب کشائی کی جائے گی، جس کے تحت داخلی سلامتی نیٹ ورک کے استحکام کیلئے 32 ارب روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اُنھوں نے تمام صوبوں کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے میں عظیم ترین تعاون کی ضرورت پر زور دیا اور کہاکہ مرکزی حکومت ہر مہینہ مشترکہ اجلاس منعقد کرتی رہے گی۔