پاکستانی جیل سے 12طالبان کی رہائی متوقع

اسلام آباد۔13اپریل ( سیاست ڈاٹ کام ) پاکستان12 غیر معروف مشتبہ عسکریت پسندوں کو قید خانوں سے رہا کردے گا۔ بحالی اعتماد کے ایک حصہ کے طور پر تاکہ دوسرے مرحلے کی بات چیت میں ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے راست بحالی امن پر تبادلہ خیال کیا جاسکے ‘ حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف فی الحال چین کے سرکاری دورہ پر ہیں ۔ انہوں نے 12افراد کی قید سے رہائی کو منظوری دے دی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں کے بموجب وزیراعظم کے دفتر سے رہائی کی منظوری کی خبر کی توثیق حاصل نہیں ہوسکی ۔ گذشتہ رات وزیراعظم کے دفتر نے تصدیق کی تھی کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا وزیراعظم نے شخصی طور پر حکم دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے 5اپریل کو اعلان کیا تھا کہ حکومت نے 13 طالبان قیدیوں کو خیرسگالی کی علامت کے طور پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ طالبان جنگجو کارروائی میں شامل نہیں تھے ۔ اس سے دو دن قبل پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف) حکومت نے 19 طالبان ارکان کو خیرسگالی کی علامت کے طور پر رہا کیاتھا ۔ یہ تمام ارکان بھی جارحانہ کارروائیوں میں ملوث نہیں تھے ۔ ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو تقریباً 400ایسے قیدیوں کی فہرست حوالے کی ہے جو لڑاکا کارروائیوں میں ملوث نہیں تھے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان سب کو رہا کردیا جائے

۔ تاہم کہا جاتاہے کہ اب تک جن قیدیوں کو رہا کیا گیاتھااور جو فہرست طالبان نے حکومت کے حوالے کی ہے وہ سب سزائے موت سنائے ہوئے قیدی نہیں ہیں۔ تاہم حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کے اس مطالبہ سے اتفاق نہیں کیا کہ جنوبی وزیرستان کو پُرامن خطہ قرار دیا جائے ‘ تاکہ طالبان وہاں اپنی حکومت قائم کرسکیں ۔ طالبان کے بموجب پُرامن خطہ قرار دینے سے دونوں فریقین کی بات چیت نتیجہ خیم ہونے کا امکان ہے ۔ ذرائع کے بموجب بات چیت بلند خیل کے علاقہ میں جو شمالی وزیرستان کی سرحد سے متصل ضلع ٹھال میں واقع ہے منعقد کی جائے گی۔ ذرائع کے بموجب حکومت کو تحریک طالبان پاکستان کے مطالبہ کو قبول کرنے کے کسی بھی اقدام کو فوج کی مخالفت کا سامناہے جس کاکہنا ہے کہ ایسا کرنے سے فوائد کے بارے میں جو تاحال دیگر قبائلی علاقوں کو حاصل ہوئے ہیں غلط پیغام پہنچے گا ۔

ان علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک کیا جاچکا ہے ۔ فوج نے قبل ازیں حکومت کی بات چیت میں مصروف ٹیم میں شامل ہونے کی مخالفت کی تھی تاہم بعد ازاں اتفاق کرلیا تھا کہ اوسط درجہ کے فوجی عہدیدار شرکت کرسکتے ہیں ‘ تاہم وہ مذاکرات کرنے والی ٹیم کا سرکاری طور پر حصہ نہیں ہے۔ اس کو ’’ محکمہ جاتی تائید ‘‘ قرار دیا جارہا ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے 10اپریل کو ختم ہونیوالی ایک ماہ طویل جنگ بندی میں 10دن کی توسیع کردی گئی ہے ۔ عسکریت پسند گروپ کا کہنا ہے کہ وہ شوریٰ کے اجلاع کے بعد صورتحال کاجائزہ لے گی۔ طالبان نے حکومت پاکستان پر الزام عائدکیا ہے کہ اس نے جنگ بندی کے قواعد کی خلاف ورزی ہے ۔ صلح کے دوران طالبان کارکنوں کو گرفتار کر کے انہیں اذیت رسانی کے ذریعہ فوج نے ہلاک کردیا ہے ۔امن مذاکرات فی الحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں ۔