ٹی آر ایس حکومت کے منصوبہ جاتی اقدامات

 

تلنگانہ۔ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ بن جانے کے بعد کانگریس صرف گھسیٹا گھسیٹی کی سیاست میں مصروف تھی لیکن عوام کی بنائی ہوئی ٹی آر ایس حکومت کو گزند تک نہ پہنچا سکی مگر اچانک یہ ہوا کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے نائب صدر راہول گاندھی کے دورہ سنگاریڈی سے اس دم توڑتی پارٹی میں جان آگئی۔ راہول گاندھی کے جلسہ کو زبردست کامیاب قرار دیا جارہا ہے اور کانگریس قائدین کے چہروں پر مایوسی کی لکریں دور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سیاسی پنڈتوں نے بھی سنگاریڈی کے جلسہ کو حکمراں پارٹی کے لئے نیک شگو ن قرار نہیں دیا۔
کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت نے 2014 میں متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس اہم فیصلہ کے عوض تلنگانہ کے عوام نے کانگریس کو سیاسی انعام نہیں دیا ۔ اس فیصلہ کی وجہ سے کانگریس کو تقسیم آندھرا پردیش میں بھی آندھرائی عوام کے غیض و غضب کا شکار ہونا پڑا۔ بیک وقت دو ریاستوں کے رائے دہندوں کی تائید سے محروم کانگریس کو ان 3 سال کے دوران شدید ہزیمت کا شکار ہونا پڑا ۔ لیکن راہول گاندھی کے حالیہ دورہ کے بعد اس ریاست میں نہرو گاندھی خاندان کے سحر کا احیاء ہونے کی اُمید پیدا ہورہی ہے۔ راہول گاندھی جب چارٹرڈ فلائیٹ سے بیگم پیٹ ایرپورٹ پر اُترے توہ براہِ راہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے کیمپ آفس کے سامنے سے اپنے بڑے موٹروں کے قافلہ کے ذریعہ گذرگئے۔ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کے بعض قائدین نے اس گرج چمک کی دھمک دکھانے کی کوشش کی، یہ جلسہ عام کانگریس کیڈر کے حوصلوں کو مستحکم بنانے میں معاون ثابت ہوا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کانگریس پارٹی سے ہی کیا تھا اب وہ ٹی آر ایس کے تحت تلنگانہ کی ایک مضبوط سیاسی قوت بن چکے ہیں۔

ٹی آر ایس نے نہ صرف اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی بلکہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں بھی اپنا سکہ جمالیا تھا۔ اس کے باوجود چیف منسٹر کے سی آر اپنی پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کسی کمی کو لانا نہیں چاہتے۔ راہول گاندھی کے دورہ کے بعد انھیں مزید چوکسی کا موقع ملا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے ریاست کے آبپاشی پراجکٹس کو از سرِ نو تیار کیا ہے اسی طرح اپنی پارٹی کو بھی از سرِ نو مضبوط بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ بنیادی سطح سے پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے اب مختلف سطحوں پر نئے خون کو موقع دینے کیلئے پارٹی کے ڈھانچہ میں تبدیلیاں لائیں گے۔ پارٹی سے نااہل اور غیر کارکرد قائدین کو ہٹادیا جائے گا۔ حکومت میں مفت کی روٹیاں توڑنے والے وزراء کو ان کے گھر کا راستہ بتایا جائے گا۔ اقتدار کی آرزو میں اپنی اصل پارٹیوں کو چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ اصل ابتر حالت ایسے ہی قائدین کی ہونے والی ہے جنھوں نے انحراف کی سیاست کو بڑھ چڑھ کر ہوا دی تھی۔ چیف منسٹر نے اپنی جانب سے پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے سروے کروایا تھا۔ اس سروے سے انھیں اندازہ ہوا ہے کہ پارٹی کے موجودہ 30 تا 40 ارکان اسمبلی پارٹی کے مستقبل کیلئے خطرہ ہیں اور ان کی عدم کارکردگی کی وجہ سے پارٹی ان حلقوں میں عوامی تائید سے محروم ہوسکتی ہے۔ لہذا آئندہ انتخابات میں ان ارکان کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔
1984 میں تلگودیشم کے بانی صدر این ٹی راما راؤ نے بھی ایسا ہی تجربہ کیا تھا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو یہ موقع صرف ایک مرتبہ ملتا ہے کہ وہ کسی حلقہ میں ’’ گدھے ‘‘ کو بھی کھڑا کردے تو وہ جیت جاتا ہے۔ گدھے سے مراد ایک نااہل اور غیر کارکرد سیاستداں کے لئے مثال کے طور پر لی جاتی ہے۔ اس ایک حقیقت پر سیاسی مبصرین نے بھی غور کیا ہوگا کہ عوام کے ووٹ کا مرکز بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ تلنگانہ سیاست کے ’’ شیخ چلّی ‘‘ قبلہ بھی راہول گاندھی کے جلسہ کی کامیابی پر اپنا سیاسی جھکاؤ بدلنے تیار نظر آرہے ہیں۔ ایسے قائدین کی مثال کسی لالچی نوجوان سے دی جاسکتی ہے جو کسی نیک دل لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، بس اسٹاپ پر اسے ایک لڑکی اچھی لگی تو اس نے چاہا کہ فون نمبر مانگ لے اور پھر اس کے گھر رشتہ بھیج دے، لیکن پہلے اس نے لڑکی کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ڈرامہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مجھے سڑک پار کروادیں گی؟ میں معذور ہوں، ٹھیک سے چل نہیں سکتا۔ لڑکی نے اس کا ہاتھ تھام لیا، وہ اداکاری کرتا رہا لیکن سڑک پر پہلا قدم اُٹھتے ہی پتہ چلا کہ اس لڑکی کی ٹانگ میں واقعی نقص ہے۔ اس نے فوری لڑکی کا شکریہ ادا کرکے چلا گیا اور بڑبڑانے لگا کہ لنگڑی لڑکی سے کون شادی کرے گا۔ سیاستداں یا سیاسی پارٹی کا بھی معمول یہی ہوتا ہے، پارٹی اگر لنگڑی ہوجائے تو اسے سب چھوڑنے لگتے ہیں۔
2014 کے بعد تلنگانہ میں سیاسی پارٹیوں کی جو درگت ہوئی ہے اس میں کانگریس شدید متاثر رہی۔ اب راہول گاندھی کے دورہ کے بعد پردیش کانگریس کو آکسیجن مل چکی ہے، لیکن حکمراں پارٹی کے پاس 3 سال کی کارکردگی ہے، وہ آئندہ انتخابات تک اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنائے گی تو عوام کا فائدہ ہوگا اور عوام بغیر فائدہ کے پارٹیوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی خاص خوبی اس کی قیادت ہے کیونکہ چیف منسٹر نے متعدد اسکیمات کے ذریعہ مختلف طبقات کی بہبود کے کام انجام دیئے ہیں اور ٹی آر ایس حکومت ان کاموں کا سہرا اپنے سر باندھے گی۔ ٹی آر ایس حکومت کی توجہ 2 جون 2014 کو چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر کی حلف برداری کے بعد ہی سے عوامی بہبود کی جانب مبذول ہے۔ درحقیقت کے سی آر نے اپنے انتخابی منشور میں واضح کیا تھا کہ ٹی آر ایس حصول تلنگانہ کے مقاصد کو پورا کرنے میں رات دن ایک کرے گی اور ہر ایک طبقہ کو خوشحال بنائے گی، تلنگانہ کو سنہرا بنایا جائے گا جہاں غربت دور دور تک نظر نہیں آئے گی، ریاست بھر کے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ دکھائی دے گی۔ کل بھی کے سی آر نے ہی منشور لکھا تھا اب آئندہ انتخابات میں بھی وہ ہی منشور لکھیں گے اور کارکردگی کے ذریعہ عوام کا خط اعتماد حاصل کریں گے۔ راہول گاندھی نے ان کے عوامی بہبودی اسکیمات کے جذبہ کو تقویت پہنچائی ہے۔
kbaig92@yahoo.com