ٹی آر ایس حکومت اور فرقہ پرست ٹولہ

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
لوک سبھا اور اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں دونوں ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور تلگودیشم کو حسب توقع کامیابی ملی ہے۔ سقوطِ حیدرآباد کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے والی بی جے پی کی کمر توڑنے کیلئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بہترین حکمرانی کا ثبوت دیا ہے۔ قلعہ گولکنڈہ پر قومی پرچم لہرانے کی بی جے پی قائدین کی شرانگیزی کو ناکام بناتے ہوئے پولیس نے اس شرمناک حرکت کو بھی منکشف کیا کہ بی جے پی کے کارکنوں نے قومی ترنگا کو اپنے زیر جامہ چھپا کر قلعہ گولکنڈہ لے آیا تھا اور انڈرویر کے اندر سے قومی پرچم نکال کر اسے قلعہ گولکنڈہ پر لہرانا چاہتے تھے۔ یہ بہت ہی شرم کی بات ہے کہ حب الوطنی اور قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی قومی پرچم کی توہین کررہی ہے۔ اس کے نزدیک فرقہ پرستی کو ہوا دینے کے سوا کوئی قوم پرستانہ اور حب الوطنی کا جذبہ نہیں ہے۔ اب ثابت ہوچکا ہے کہ بی جے پی کے منصوبے کیا ہیں۔ حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والی اس پارٹی کے تعلق سے اب کیا معاملہ اختیار کیا جانا چاہیئے

یہ عوام الناس فیصلہ کرسکتے ہیں کیونکہ یہ پارٹی اپنی تشدد پسندانہ سرگرمیوں سے ملک کے سیکولرازم کو اپنی ترجیحات کے مطابق زعفرانی رنگ دینا چاہتی ہے اس کے کچھ عناصر اپنی زعفرانی تحریک کو لال قلعہ سے لے کر قلعہ گولکنڈہ تک چڑھائی کرکے قومی ریاستی سیاسی نظام میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی قیادت اپنے شرپسند ٹولے کے ساتھ خود کو اس ملک سے اعلیٰ تصور کرتے ہوئے اس پر یا عوام پر اپنی مرضی ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ 17ستمبر کو کوئی بھی گڑبڑ نہیں ہوگی، اگر کسی نے غیر ضروری شرارت کرنے کی کوشش کی تو اس کو سبق سکھایا جائے گا۔ بی جے پی کے کارکنوں و قائدین کو تلنگانہ پولیس نے سبق سکھایا ہے یا نہیں یہ تو بعد میں پتہ چلے گا مگر بی جے پی کی حرکتوں سے عوام الناس کو معلوم ہوا کہ یہ فرقہ پرست ٹولہ امن کو درہم برہم کرنے کوشاں ہے۔ میدک لوک سبھا حلقہ کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست اور قومی سطح پر بی جے پی کے وزیر اعظم کی لہر کا غبار پھٹ پڑنے کے بعد حواس باختہ قائدین آگے چل کر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ صدر بی جے پی نے اشارہ دے دیا ہے کہ بی جے پی کو اپنے زعفرانی رنگ کا مظاہرہ کرنے کا وقت آگیا ہے تو عوام الناس کو خاص کر سیکولر پارٹیوں کو اس زعفرانی حکمراں پارٹی کے ناپاک منصوبوں کو بھانپ کر قبل از وقت ہندوستانی عوام اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کرنے آگے آنا ہوگا۔

بی جے پی جس طریقہ سے اپنی مرضی ٹھونسنا چاہتی ہے اس طریقہ سے ملک نہیں چلا یا جاسکتا۔ بی جے پی کے قائدین اور شخصیات کی انا بڑھتی جارہی ہے جس سے جمہوری اور عوامی بالادستی کی جگہ متکبرانہ شخصی قیادت اُبھری ہے۔ مودی حکومت میں کس کو کتنا نقصان ہوگا یہ آنے والے چند مہینوں میں واضح ہوجائے گا۔ تلنگانہ میں مودی کا سحر کام نہیں کرسکا ہے اس لئے وہ اس علاقہ سے اپنی بھڑاس نکال کر کچھ نہ کچھ ہنگامہ کرواسکتے ہیں۔ اس میں شک نہیںکہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی ایک سیکولر کردار کی مضبوط ارادوںوالی پارٹی ہے، وہ اپنی ریاست میں فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب ہونے نہیں دے گی۔ بی جے پی ایک نظریاتی اور سیاسی پارٹی ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے فرقہ پرستانہ ایجنڈہ پر عمل آوری کو درست سمجھتی ہے، اس لئے بدلتے ہوئے ملکی اور علاقائی سیاسی حالات کے پیش نظر ہندوستان پر حکومت کرنے کا عوام سے ووٹ لیا ہے۔ کانگریس کی بدعنوان حکمرانی سے فائدہ اٹھایا ہے مگر اسے جنوبی ہند میں کامیابی نہیں ملی۔ یہاں کے عوام سیکولر مزاج پر سختی سے قائم ہیں۔ٹی آر ایس اور تلگودیشم کو سیکولراز مزاج رائے دہندوں کی وجہ سے اقتدار ملا ہے تو انہیں اپنے عوام کے امن و امان کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ اپنی شاندار کامیابی کے باوجود بی جے پی نے ہندوستان کے سیکولر دستور کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔

تلنگانہ سے تعلق رکھنے والی کئی سیکولر تنظیمیں 2001 سے 17ستمبر کو حیدرآباد لبریشن ڈے سرکاری طور پر منانے کے لئے جاری کوششوں کے خلاف آواز اُٹھارہی ہیں۔ ان تنظیموں کا یہ احساس درست اور حق بجانب ہے کہ 17ستمبر کو حیدرآباد ریاست کے مرکزی یونین میں انضمام کو خاص یا غیر معمولی واقعہ متصور نہیں کرتیں۔ پڑوسی ریاستوں خاص کر مہاراشٹرا اور کرناٹک میں اسکولی کتابوں میں غلط تشریح کے ساتھ حیدرآباد اسٹیٹ کے انضمام کے واقعہ کو پیش کرکے طلباء کے ذہنوں کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے جس کو ختم کرانے کیلئے مرکز پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ 1947ء اور 1952 کے درمیان کے تاریخی حالات کو یکسر مسخ کرکے تیار کردہ مواد برسوں سے پڑوسی ریاستوں کے نصاب میں شامل کرکے نوخیز ذہنوں کو گمراہ کیا جاتا رہا ہے۔ اب حکومت تلنگانہ نے واضح طور پر ایسی طاقت کو انتباہ دیا ہے کہ وہ تلنگانہ تہذیب کو مسخ کرنے والوں کو ہرگز نہیں بخشے گی۔ ٹی ار ایس نے اپنے ابتدائی مہینوں میں ہی سیکولر مزاج کے مضبوط ہونے کا ثبوت دیا ہے اور توقع ہے کہ وہ اسی طرح فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو کچل کر رکھ دے گی۔
چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے سامنے حکمرانی کے فرائض انجام دینے کے لئے طویل سفر پر گامزن ہونے کی شاہراہ موجود ہے اور انہیں صدق دل سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حکومت کو عوام الناس کی خدمت کیلئے وقف کردیں گے۔ رائے دہندوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، اپنا کام ضمیر کے مطابق پُروقار طریقہ سے سر انجام دیں گے۔ شہریوں کو بہترین سہولتیں فراہم کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ وہ رائے دہندوں کے احساسات و جذبات کے امین رہیں گے۔ ویسے انہوں نے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیتے وقت یہی عزم و مقاصد کا اظہار کرتے ہوئے حلف لیا تھا کہ وہ شہریوں کو بہتر صحت فراہم کرنے کیلئے اس وقت سرکاری دواخانوں کی زبوں حالی کو دور کرنا ہے۔ حیدرآباد میں اور اضلاع کے سرکاری دواخانوں کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے جہاں مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا رویہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔ سرکاری دواخانوں کے ڈاکٹروں کی قابلیت اور خانگی ہاسپٹلوں کے ڈاکٹروں کی صلاحیتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس طرح تلنگانہ کے سرکاری اسکولوں کا بھی بُرا حال ہے۔ انفراسٹرکچر کی کمی اور اساتذہ کی ناکافی تعداد نے بچوں کو ایک اچھی تعلیم کے خواب سے محروم کردیا ہے۔ حکومت نے حق تعلیم قانون کے تحت صحافیوں کے بچوں کو مفت تعلیم کا اعلان کیا ہے اس پر عمل آوری کو یقینی بنانا متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے۔ چیف منسٹر کو نئی ریاست کے تمام سرکاری اداروں کو ترقی اس خطوط پر دینی ہوگی کہ دنیا دیکھے تو اس کو مثالی اور قابل تقلید کام قرار دے۔اس حکومت کا قابل تعریف کام یہ ہوگا کہ وہ حیدرآباد میں میٹرو ریل پراجکٹ کو وقت پر پورا کرلے۔ اس پراجکٹ کو لے کر کئی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔ ایل اینڈ ٹی نے پراجکٹ کو روک دینے اور کام انجام دینے سے معذوری ظاہر کرنے کی اطلاعات سے یہ گمان پیدا ہوسکتا ہے کہ نئی ریاست تلنگانہ کو انفراسٹرکچر کی فراہمی میں سست روی کا شکار بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ اگر میٹرو ریل پراجکٹ اپنے وقت پر پورا نہیں ہوسکتا تو اس کے لئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ پر انگلیاں اُٹھیں گی کیونکہ یہ پراجکٹ حیدرآباد کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت کی کارکردگی کے لئے ایک بہترین سند بن جائے گا۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو یقین دلانے کے لئے نئی ریاست اور نئی حکومت کی کارکردگی غیر مشتبہ طور پر عمدہ اور قابل تعریف ہے۔ برانڈ امیج آف حیدرآباد کو مسخ کرنے کی کوشش کو بھی ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔
kbaig92@gmail.com