ٹی آر ایس اور کانگریس کی اعلیٰ قیادت سے مجلس کو مایوسی

پرانے شہر میں داخلہ سے روکنے کی کوشش ناکام، ارکان اسمبلی اور کارپوریٹرس عوام کا سامنا کرنے خوفزدہ
حیدرآباد۔/30ڈسمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی کے انتخابات مقررہ میعاد سے قبل منعقد کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں کے درمیان پرانے شہر کے 7 اسمبلی حلقہ جات میں ٹی آر ایس اور کانگریس کی بڑھتی سرگرمیوں نے مقامی جماعت کے ہوش اُڑا دیئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پارٹی قائدین کو اس بات کا اشارہ دیا کہ اسمبلی انتخابات مقررہ مدت سے قبل منعقد کئے جاسکتے ہیں اور اس بارے میں قطعی فیصلہ پنچایت چناؤ کے نتائج پر منحصر ہوگا۔ ٹی آر ایس حلقوں میں جیسے ہی یہ قیاس آرائیاں شدت اختیار کرگئیں اہم اپوزیشن کانگریس نے بھی اپنے کیڈر کو متحرک کردیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جبکہ دونوں جماعتیں پرانے شہر کے 7 اسمبلی حلقوں میں مقامی جماعت مجلس کے کسی بھی دباؤ کو قبول کئے بغیر اپنا موقف مستحکم کرنے میں جُٹ گئی ہیں۔ پارٹی قائدین اور کیڈر کو ابھی سے انتخابات کی تیاریوں کی طرح مصروف ہونے کی ہدایت دی گئی اور پرانے شہر میں عوامی مسائل پر جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ چند ماہ سے پرانے شہر میں ٹی آر ایس اور کانگریس نے اپنی سرگرمیوں اور عوامی رابطہ کے پروگراموں کے ذریعہ مقامی جماعت کیلئے مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ اس صورتحال سے پریشان مجلسی قیادت نے دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت سے ربط قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نئی دہلی میں کانگریس اعلیٰ کمان سے پارلیمنٹ اجلاس کے دوران ربط قائم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پرانے شہر میں پارٹی کی سرگرمیوں کو روکنے کے سلسلہ میں کوئی واضح تیقن نہیں ملا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مقامی جماعت نے انتخابات سے عین قبل کانگریس کی قیادت سے اندرونی مفاہمت کرلی اور کمزور امیدواروں کو میدان میں اُتارنے کیلئے راضی کیا۔ 2014 کے بعد مجلس نے جس طرح کانگریس کے خلاف الزام تراشی کی ہے اور مختلف ریاستوں میں کانگریس کو شکست دینے کیلئے انتخابات میں حصہ لیا اس سے دونوں میں خلیج کافی بڑھ چکی ہے۔ کانگریس اعلیٰ کمان اب مجلس کے دباؤ یا پھر ان کے جھانسہ میں آنے تیار نہیں ہے۔ بتایا جاتاہے کہ تلنگانہ کے اُمور کے سلسلہ میں ہائی کمان نے غلام نبی آزاد، ڈگ وجئے سنگھ اور صدر پردیش کانگریس اُتم کمار ریڈی سے مشاورت کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مقامی جماعت کی اب مزید سرپرستی نہ کی جائے۔ پارٹی ہائی کمان کے خلاف جس انداز سے الزامات عائد کئے گئے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے وقت جبکہ پارٹی کو پہلی مرتبہ پرانے شہر میں اپنا اثر و رسوخ ثابت کرنے کا موقع ملا ہے وہ پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کے موڈ میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس اعلیٰ کمان سے مایوسی کے بعد مجلسی قیادت نے ٹی آر ایس کا رُخ کیا۔ چیف منسٹرکے چندر شیکھر راؤ سے اس سلسلہ میں مشاورت کا فیصلہ کیا گیا لیکن شہر سے تعلق رکھنے والے وزراء نے آئندہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے امکانات کو روشن قرار دیا۔ ان کی رائے ہے کہ چند ایک اسمبلی حلقوں میں شکست کے خوف سے پرانے شہر کی 7 نشستوں کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ وزراء کا کہنا ہے کہ خفیہ مفاہمت کی صورت میں پرانے شہر کا کیڈر منتشر ہوسکتا ہے اور موجودہ حالات میں ٹی آر ایس کو پرانے شہر میں اپنی نمائندگی میں اضافہ کا بہترین موقع ہے۔ چیف منسٹر بھلے ہی مقامی جماعت کے قائدین کو تیقن دیں لیکن تنظیمی سطح پر قائدین مفاہمت کے حق میں نہیں ہیں۔ دونوں پارٹیوں کا تجزیہ ہے کہ اگر وہ پرانے شہر میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں تو گزشتہ 50 برسوں سے جاری مجلس کے تسلط کو توڑا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں انہیں عوامی تائید کا یقین ہے۔ دراصل پرانے شہر کی عوام کو مضبوط متبادل کی تلاش ہے جو کانگریس اور ٹی آر ایس فراہم کرسکتی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے مقامی جماعت کی قیادت نے اپنے ارکان اسمبلی اور کارپوریٹرس کو انتخابات کی تیاریاں ابھی سے شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ زیادہ تر وقت عوام کے درمیان رہیں اور ناراضگی دور کرنے کیلئے ابتدائی کمیٹیوں کی خدمات حاصل کی جائیں۔ قیادت کی ہدایت کے باوجود ارکان اسمبلی اور کارپوریٹرس عوام کے درمیان پہنچنے میں جھجک محسوس کررہے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ مسائل کے پیش نظر انہیں عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مجلسی قیادت یوں تو ٹی آر ایس اور کانگریس کو پرانے شہر میں داخلہ سے روکنے کی کوششیں جاری رکھے گی لیکن ان پارٹیوں کے قائدین اور کارکنوں کے عزائم کو دیکھتے ہوئے یہ کام آسان نظر نہیں آتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور ٹی آر ایس اپنے کیڈر کے جذبات کا کس حد تک احترام کریں گے۔؟